پاکستان نے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں کے نہ صرف پاسپورٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے بلکہ ان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے جائیں گے۔ وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے بتایا کہ ’پاسپورٹ اور سفری دستاویزات کے غلط استعمال پر ڈی پورٹ کیے جانے والے افراد پر تین سے پانچ سالہ سفری پابندی لگے گی۔‘
پاکستان، ایئرپورٹ، سفری پابندی، ڈی پورٹ
Getty Images

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں کے نہ صرف پاسپورٹ منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے بلکہ ان کے خلاف مقدمات بھی درج کیے جائیں گے۔

سنیچر کو جاری کردہ اعلامیے کے مطابق وزارتِ داخلہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ بیرون ملک سے ڈی پورٹ ہونے والے افراد کو پانچ سال کے لیے پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جائے گا۔

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے اس حوالے سے بی بی سی کو بتایا کہ ڈی پورٹ (بے دخل) کیے جانے والے افراد کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کے احکامات فوری طور پر نافذ العمل ہیں۔

طلال چوہدری نے بتایا کہ 'پاسپورٹ اور سفری دستاویزات کے غلط استعمال پر ڈی پورٹ کیے جانے والے افراد پر تین سے پانچ سالہ سفری پابندی لگے گی۔‘

'ان کا پاسپورٹ منسوخ ہو گا اور سفری پابندی کے علاوہ امیگریشن قوانین اور پاسپورٹ کے غیر قانونی استعمال پر ان کے خلاف مجرمانہ کارروائی بھی ہو گی۔'

واضح رہے کہ قومی اسمبلی کو حال ہی میں وزارت داخلہ نے بتایا تھا کہ گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں مختلف ممالک سے پانچ ہزار سے زیادہ پاکستانی شہریوں کو بھیک مانگنے کے الزام میں ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کی ایک رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں مجموعی طور پر 4850 افراد جبکہ 2025 میں 552 پاکستانی شہری مختلف ممالک سے واپس بھیجے گئے۔ اس دوران سب سے زیادہ شہری سعودی عرب سے ڈی پورٹ ہوئے ہیں جن کی 2024 میں تعداد 4498 جبکہ اب تک 2025 میں 535 بتائی گئی ہے۔

دریں اثنا گذشتہ دو برسوں میں بیرون ملک بھیک مانگنے، ڈنکی لگا کر جانے اور انسانی سمگلنگ جیسے واقعات میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

سنہ 2023 میں یونان میں غیرقانونی تارکین وطن کی ایک کشتی ڈوبنے کے نتیجے میں 262 پاکستانی شہریوں کی ہلاکت کے بعد حکومت نے ملک بھر میں ایسے ایجنٹس کے خلاف بھرپور کارروائی کا وعدہ بھی کیا گیا تھا جو انسانی سمگلنگ میں ملوث ہیں۔

'پاسپورٹ اور سفری دستاویزات کے غلط استعمال پر ڈی پورٹ کیے جانے والے افراد پر تین سے پانچ سالہ سفری پابندی لگے گی۔‘
Getty Images
'پاسپورٹ اور سفری دستاویزات کے غلط استعمال پر ڈی پورٹ کیے جانے والے افراد پر تین سے پانچ سالہ سفری پابندی لگے گی'

حکومت نے ڈی پورٹ ہونے والے پاکستانیوں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیوں کیا؟

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے پاسپورٹ منسوخی کے فیصلےکی تفصیلات سے اگاہ کرتے بی بی سی کو بتایا کہ 'پہلے جو لوگ کریمینل پروسیڈنگ کے باعث ڈی پورٹ ہوتے تھے تو صرف انھی کو سفری پابندیوں کا سامنا ہوتا تھا۔ ہم انھی کو روکتے تھے، باقی لوگوں پر اس پابندی کا اطلاق نہیں ہوتا تھا۔'

مگر اب طلال چوہدری کے بقول 'جیسے ہی کوئی پاکستانی شہری ڈی پورٹ ہو گا تو اس پر فوری سفری پابندی لگ جائے گی اور پابندی کے دوران پاسپورٹ منسوخ رہے گا۔'

طلال چوہدری کے مطابق اس اقدام کا مقصد خصوصاً خلیجی ممالک سے آنے والی ان شکایات کا ازالہ ہے جس میں بھیک مانگنے والے پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'جی سی سی ممالک سے بھیک مانگنے والوں کے حوالے سے بہت سی شکایات تھیں اور انھوں نے وہاں سے پانچ ہزار سے زیادہ افراد ڈی پورٹ کیے تھے۔ اس میں چند ایک پر ایف آئی آر ہوئی۔۔۔ لیکن بہت سارے لوگ کارروائی سے بچ گئے تھے۔'

یاد رہے کہ جی جی سی یعنی خلیجی تعاون ممالک میں بحرین، کویت، عمان، قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔

طلال چوہدری کے مطابق اسی طرح کچھ لوگ جو ڈنکی لگا کر جاتے ہیں یا غیر قانونی کاغذات پر جاتے ہیں یا کسی ایسی وجہ سے ہی ڈی پورٹ ہوتے ہیں تو ان پر 'کارروائی نہیں ہوتی تھی تو ہم نے کچھ عرصے پہلے ہی اس کا قانون بدلا ہے۔'

انھوں نے مزید کہا کہ 'قانون سازی موجود ہے کہ اگر پاسپورٹ یا سفری دستاویزات کا غلط استعمال کیا جائے تو ان پر ایف آئی آر کاٹی جاتی ہے۔ لیکن وہ سب پر نہیں ہوتی تھی۔ اب تمام ڈی پورٹ ہونے والوں کے پاسپورٹ منسوخ ہوں گے اور اس کا دورانیہ پانچ سال تک بھی جا سکتا ہے۔'

پاکستان
Getty Images
حکام کے مطابق جی سی سی ممالک سے شکایات موصول ہوئی ہیں

وزیر مملکت برائے داخلہ نے بتایا کہ بیرون ملک بھیک مانگنے والوں کے خلاف بھی ایک اور قانون سازی کی جا رہی ہے اس حوالے سے وزیر داخلہ نے ایک کمیٹی بنائی ہے۔

'جو لوگ بھیک مانگنے یا اسی طرح کی سرگرمیوں میں ڈی پورٹ ہو کر آتے ہیں وہ چیزیں بین الاقوامی سطح پر بدنامی کا باعث بنتی ہیں تو نہ صرف ان کی سزا بڑھائی جائے گی بلکہ قانون مزید سخت کر دیے جائیں گے۔'

تو اب تک ایک سال میں پاسپورٹ اور سفری دستاویزات کے غلط استعمال پر مجرمانہ کارروائی کے مرتکب کتنے لوگ قرار پائے؟

اس سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ ان کے پاس فی الحال مکمل اعداد و شمار تو نہیں لیکن ایک اندازے کے مطابق 62 لوگوں کے خلاف ایک سال میں کریمینل پروسیڈنگ ہوئی جبکہ 150 کے قریب انسانی سمگلنگ اور بیرون ملک جا کر بھیک مانگنے میں ملوث افراد کے خلاف مقدمے قائم ہوئے ہیں۔

’مشرق وسطیٰ کے ممالک سے شکایات موصول ہوئیں‘

مصطفی جمال قاضی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بطور ڈی جی پاسپورٹ تعینات ہیں۔ ان کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ممالک بشمول سعودی عرب سے موصول شکایات پر قوانین میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ 'تمام ترمیم شدہ رولز میں زیادہ تر رولز وہاں استعمال ہو رہے ہیں جہاں ناپسندیدہ سرگرمیاں ہو رہی تھیں، مثلا مڈل ایسٹ میں نہ صرف بھیک مانگنے بلکہ دیگر سرگرمیوں میں پاکستانی شہری ملوث تھے، جن پر ایف آرز ہوئیں۔'

ڈی جی پاسپورٹ مصطفی جمال قاضی نے دعویٰ کیا کہ 'پاکستان اس وقت ایسی تمام چیزوں، جن کا غلط استعمال ہو رہا تھا، پر قابو پا رہا ہے اور بطور ذمہ دار ریاست اور اقوام متحدہ کا رکن پاسپورٹ اور سفری دستاویزات کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے تمام تقاضے بہتر انداز میں پورے کر رہا ہے۔''

رولز میں تبدیلی سے قبل ڈی پورٹ ہونے والوں کے خلاف کیا کارروائی عمل میں لائی جاتی تھی؟

اس سوال کے جواب میں ڈی جی پاسپورٹ کا کہنا تھا کہ 'پاسپورٹ کنٹرول لسٹ کی صورت میں ایک دستاویز ہمارے پاس موجود ہے۔ تو جو لوگ پاسپورٹ کا غلط استعمال کرتے تھے ان کا نام اس لسٹ میں شامل ہو جاتا تھا اور ان کے پاسپورٹ منسوخ ہو جاتے تھے۔'

انھوں نے مزید بتایا کہ کچھ لوگ 'غلط دستاویز پر (غیر ملکی) سفارتخانے سے ویزا لیتے ہیں لیکن جیسے ہی ہمیں وہ ملک ان کے خلاف معلومات دیتا ہے تو ہم ان کا پاسپورٹ بلاک کرتے ہیں تاکہ وہ کسی اور سفارتخانے میں جا کر ویزے کا دعویٰ نہ کریں۔'

ان کے مطابق 'جو لوگ ویزے کی معیاد ختم ہونے کے باوجود غیر قانونی طور پر بیرون ملک مقیم رہتے ہیں ان کا ڈیجیٹل پاسپورٹ بلاک منسوخ کیا جاتا ہے اور 50 ہزار جرمانہ بھی ہوتا ہے۔ ایسا تب ہی ہوتا ہے جب متعلقہ ملک کا سفارتخانہ ہمیں آگاہ کرتا ہے اور تفصیلات ملنے پر ہم اس پر فوری ایکشن لیتے ہیں۔'

ڈی جی پاسپورٹ سے ہم نے سوال کیا کہ قیدیوں کا درجہ رکھنے والے جب ڈی پورٹ ہو کر آتے ہیں ان کے خلاف کیا کارروائی ہوتی ہے؟

تو ان کا کہنا تھا کہ 'کچھ ایسے پاکستانی شہری بھی ہوتے ہیں کہ ان کے خلاف مقدمہ درج ہوجاتا ہے اور ایک طرح سے وہ قیدی کا درجہ رکھتے ہیں۔ تو ان کی منتقلی بھی اقوام متحدہ کے معاہدے کے تحت ہوتی ہیں اور وہ اپنی قید اور سزا یہاں آ کر مکمل کرتے ہیں۔ اسی معاہدے کے تحت دیگر ممالک کے قیدیوں کو پاکستان اسی طرح ڈی پورٹ کرتا ہے۔'

ریڈ وارنٹ اور چارج شیٹ

ایف آئی اے کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ جو لوگ ڈی پورٹ ہو کر واپس پاکستان آتے ہیں ان کے خلاف 'چارج شیٹ موجود ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ اسی کے مطابق پاکستان پہنچنے پر برتاؤ کیا جاتا ہے۔‘

ایف آئی اے کے اہلکار نےمزید بتایا کہ ’مجرمانہ کارروائی کی وجہ سے ڈی پورٹ کیے جانے والوں کے ساتھ ریڈ وارنٹ بھی ہوتا ہے جس کے تحت واپس لوٹنے پر ان کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔‘

قومی اسمبلی میں گذشتہ ماہ وقفہ سوالات میں پیش کی جانے والی تفصیلات کےمطابق گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بیرون ممالک سے 5400 پاکستانیوں کو بھیک مانگنے کے الزام میں ڈی پورٹ کر کے ملک واپس بھیجا گیا ہے۔

دستاویز کے مطابق ڈی پورٹ ہونے والوں میں نصف سے زیادہ تعداد کا تعلق صوبہ سندھ سے ہے۔

رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں مجموعی طور پر 4850 افراد جبکہ 2025 میں 552 پاکستانی شہری مختلف ممالک سے واپس بھیجے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر کا تعلق سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا سے ہے۔

سنہ 2025 کے ابتدائی مہینوں میں مجموعی طور پر 552 پاکستانی شہری ڈی پورٹ کیے گئے۔ سندھ سے 2025 میں 191 افراد واپس بھیجے گئے۔ رواں سال خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے 142 افراد واپس آئے، بلوچستان سے چھ افراد جبکہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پانچ افراد واپس بھیجے گئے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.