ان دعوؤں کے درمیان کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈیا ایک بہت بڑی آبادی کے ساتھ اقتصادی طور پر درست سمت میں ترقی کر رہا ہے جبکہ کچھ ماہرین اقتصادیات نے جی ڈی پی کے بارے میں دعوے کرنے میں جلد بازی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
انڈیا میں پلاننگ کمیشن کے سربراہ کے مطابق انڈیا دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بن چکا ہےگذشتہ ہفتے سنیچر کو انڈین حکومت کے ادارے نیتی آیوگ یعنی پلاننگ کمیشنکے چیف ایگزیکٹو آفیسر بی وی آر سبرامنیم نے ایک بیان جاری کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ جاپان کو پیچھے چھوڑتے ہوئے انڈیا دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بن گئی ہے۔
لیکن اس کے دو ہی دن بعد یعنی سوموار کو اسی ادارے کے ایک رکن اروند وِرمانی نے کہا کہ ’انڈیا 2025 کے آخر تک دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت بن جائے گا۔‘
اس کے بعد سے سوشل میڈیا پر جی ڈی پی ( یعنی کل پیداوار) اور فی کس آمدنی کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے اور یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ کیا انڈیا واقعی دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے؟
ان دعوؤں کے درمیان کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انڈیا ایک بہت بڑی آبادی کے ساتھ اقتصادی طور پر درست سمت میں ترقی کر رہا ہے جبکہ کچھ ماہرین اقتصادیات نے جی ڈی پی کے بارے میں دعوے کرنے میں جلد بازی کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اپریل میں انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے بھی ورلڈ اکنامک آؤٹ لُک رپورٹ میں اندازہ لگایا تھا کہ 2025 تک انڈیا 4.187 ٹریلین امریکی ڈالر کے ساتھ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن سکتا ہے۔
نیتی آیوگ کے سربراہ سبرامنیم نے کیا کہا؟
سنیچر کو سبرامنیم نے ایک عوامی تقریب میں کہا: ’جیسا کہ میں ابھی بول رہا ہوں، ہم اس وقت دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت ہیں۔ ہم 4 ٹریلین ڈالر کی معیشت ہیں اور یہ میرا ڈیٹا نہیں ہے۔ یہ آئی ایم ایف کا ڈیٹا ہے۔ آج انڈیا جی ڈی پی کے لحاظ سے جاپان سے بڑا ہے۔‘
تاہم، آئی ایم ایف کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بیان وقت سے پہلے دے دیا گیا ہے، جبکہ حقیقت میں جی ڈی پی کے معاملے میں انڈیا نامینل جی ڈی پی یا برائے نام جی ڈی پی کے معاملے میں جاپان کو پیچھے چھوڑ کر 2025 کے آخر تک چوتھی سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے۔
برائے نام جی ڈی پی درحقیقت افراط زر کی شرح کو ایڈجسٹ کر کے لگایا جاتا ہے، جبکہ اس کے بغیر کیے جانے والے حساب کو حقیقی جی ڈی پی کہا جاتا ہے۔
انڈین خبررساں ادارے پی ٹی آئی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں نیتی آیوگ کے رکن اروند ورمانی نے کہا: ’انڈیا چوتھی سب سے بڑی معیشت بننے کے عمل میں ہے۔ ذاتی طور پر، مجھے یقین ہے کہ 2025 کے آخر تک ایسا ہو جائے گا، کیونکہ اس کے لیے مالی سال کے تمام 12 مہینوں کے لیے جی ڈی پی ڈیٹا کی ضرورت ہے۔ اس لیے ابھی کے لیے یہ ایک پیشن گوئی ہی رہے گی۔‘
سبرامنیم کے بیان پر انھوں نے کہا: ’یہ ایک پیچیدہ سوال ہے اور میں واقعی میں نہیں جانتا کہ کسی نے کیا کہا، ہوسکتا ہے کہ کچھ الفاظ رہ گئے ہوں۔‘
تاہم اقتصادی ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انڈیا جلد ہی چوتھی بڑی معیشت بن سکتا ہے۔
ترقی پزیر ممالک میں انڈیا نے شیئر بازار میں اچھی کارکردگی دکھائی ہے’انڈیا درست سمت میں بڑھ رہا ہے‘
پالیسی اور جیو پولیٹکس کے حکمت عملی ساز سدھارتھ کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں انڈیا کی فی کس آمدنی زیادہ تر یورپی ممالک کے مقابلے میں تیزی سے (فیصد میں) بڑھی ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹفارم ایکس پر ایک پوسٹ میں انھوں نے لکھا: ’جب بھی انڈیا کی معیشت ترقی کرتی ہے، تو کوئی نہ کوئی رٹی رٹائی بات کہتا ہےکہ فی کس جی ڈی پی کم ہے۔ انڈیا موناکو نہیں ہے۔ یہ 1.4 بلین لوگوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ’سنہ 2023 میں فی کس آمدنی میں 9.2 فیصد اضافہ ہوا، جو یورپ کے بیشتر ممالک سے زیادہ ہے۔ آپ کسی بڑے ملک کی میٹرکس سے پیمائش نہیں کرتے۔ آپ اسے رفتار، پیمانے اور سٹریٹجک اثر و رسوخ سے ناپتے ہیں۔ انڈیا آگے نہیں بڑھ رہا ہے، بلکہ وہ آگے نکل رہا ہے۔ اس (فرق) کو سمجھنا ہوگا۔‘
ایک اور پوسٹ کا جواب دیتے ہوئے سدھارتھ نے لکھا: ’انڈیا صحیح راستے پر ہے اور اس کی فی کس آمدنی اب بھی بڑھ رہی ہے اور جمود کا شکار نہیں ہے۔ بڑی آبادی کا ہونا یقینی طور پر اہمیت رکھتا ہے۔‘
بہر حال دہلی کی معروف جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں معاشیات کے سابق پروفیسر ارون کمار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’برائے نام جی ڈی پی جاپان کو پیچھے چھوڑنا آئی ایم ایف کا تخمینہ ہے اور یہ دعویٰ کرنے میں جلد بازی کی گئی ہے۔‘
انڈیا میں امیر اور غریب میں کافی فرق پایا جاتا ہےمعاشی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
کسی ملک کی معیشت کی صحت کو جانچنے کا ایک عام طریقہ جی ڈی پی کا حساب لگانا ہے، جو کہ عام طور پر ڈالر میں ہوتا ہے، جب کہ بین الاقوامی کرنسی مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ جاری رہتا ہے۔
پروفیسر ارون کمار کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف کا 2025 کے آخر تک انڈیا کی جی ڈی پی کا تخمینہ 4.19 ٹریلین ہے جبکہ جاپان کی معیشت کا تخمینہ 4.186 ٹریلین ہے۔ یہ اندازے ڈالر میں ہیں اور فرق بہت معمولی ہے، لیکن اگر روپیہ جاپانی کرنسی کے مقابلے میں اتار چڑھاؤ آتا ہے تو یہ فرق بڑھتا رہے گا۔‘
اس کے علاوہ آئی ایم ایف نے 2025 کے لیے انڈیا کی جی ڈی پی کی شرح نمو 6.2 فیصد اور افراط زر کی شرح 4.2 فیصد رہنے کا اندازہ لگایا ہے۔ ایسے میں اگر یہ اعداد و شمار مستحکم نہیں رہے تو حالات جوں کے توں رہ جائیں گے۔
نیتی آیوگ کے سربراہ بی آر سبرامنیم کا کہنا ہے کہ اگر انڈیا اپنی منصوبہ بندی اور سوچ کے مطابق کام کرتا ہے تو اسے تیسری بڑی معیشت بننے میں صرف دو سے تین 3 سال لگیں گے۔
آئی ایم ایف کی اپریل کی رپورٹ کے مطابق موجودہ ترقی کے مطابق انڈیا جرمنی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے برائے نام جی ڈی پی کے لحاظ سے 2028 تک دنیا کی تیسری بڑی معیشت بن سکتا ہے۔
امریکہ اور چین دنیا کی سب سے بڑی دو معیشت والے ممالک ہیں۔
پروفیسر ارون کمار کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف ڈیٹا اکٹھا کرنے والا ادارہ نہیں ہے اور وہ ان ممالک کے فراہم کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر تخمینہ لگاتا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’جی ڈی پی کے اعداد و شمار کو ہر سہ ماہی میں درست کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مکمل اعداد و شمار دو سال کے بعد آتے ہیں۔ سہ ماہی کے اعداد و شمار میں درست جی ڈی پی کے اعداد و شمار نہیں ہوتے ہیں، اور جو اعداد و شمار آتے ہیں، ان میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جو کچھ منظم شعبے میں ہو رہا ہے، وہی غیر منظم شعبے میں بھی ہو رہا ہے۔‘
’لیکن نوٹ بندی اور پھر کووڈ لاک ڈاؤن کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ زوال پذیر شعبہ بڑھ رہا ہے۔ اس سے ہماری جی ڈی پی کی نمو میں اضافہ ہوتا ہے اور اعداد و شمار کے ساتھ یہی مسئلہ ہے۔‘
پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں: ’ٹرمپ کی ٹیرف وار سے عالمی معیشت کو کتنا نقصان ہوگا صرف اس بات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے۔ اس کا اثر انڈیا پر بھی پڑے گا۔ آئی ایم ایف کی پیشن گوئی اپریل 2025 کے لیے ہے۔ ہمیں دیکھنا ہو گا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔‘
جی ڈی پی کے دعووں کے درمیان عدم مساوات پر بحث
جی ڈی پی اور خوشحالی میں بڑھتے ہوئے تفاوت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گرما گرم مباحثہ جاری ہے۔
ایکس کے ایک صارف طفیل نوشاد نے اپنی پوسٹ میں لکھا کہ ’اگر ہم معیشت کے اوپر کے ایک فیصد، پانچ فیصد اور پھر 10 فیصد کو ہٹا دیں، تو انڈیا کی فی کس جی ڈی پی کیا ہوگی؟ اور معیشت میں نیچے کے 50 فیصد لوگوں کی فی کس جی ڈی پی کیا ہوگی؟‘
ترون گوتم نامی ایک صارف نے اسی حوالے سے ایکس پر لکھا: ’ریئلٹی چیک: انڈیا کی فی کس آمدنی 2800 ڈالر ہے جبکہ جاپان کی 33،138 امریکی ڈالر ہے۔ اور اگر آپ امبانی اور اڈانی کی دولت کو ہٹا دیں تو یہ انڈیا کی فی کس آمدنی 2662 ڈالر ہو جائے گی۔ اور 90 فیصد انڈینز 25 ہزار روپے سے کم ماہانہ کماتے ہیں۔ انڈیا کے امیر ترین ایک فیصد کے پاس ملک کی 40 فیصد دولت ہے۔‘
بہت سے ماہرین اقتصادیات فی کس جی ڈی پی یعنی فی کس آمدنی کو کسی ملک کی معاشی ترقی کا اندازہ لگانے کے لیے ایک درست معیار مانتے ہیں اور اس سلسلے میں انڈیا دنیا میں 140 ویں نمبر پر ہے۔
پروفیسر ارون کمار کہتے ہیں: ’کبھی کبھی مذاق میں کہا جاتا ہے کہ اگر ایلون مسک اور جیف بیزوس کسی سٹیڈیم میں جاتے ہیں تو وہاں کی فی کس آمدنی اچانک بڑھ کر 10 لاکھ ڈالر ہو جائے گی۔ کیونکہ وہ ہر سال 100 ملین سے زیادہ کماتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا: ’ایک طرف انڈیا فی کس آمدنی کے لحاظ سے 140 ویں نمبر پر ہے اور دوسری طرف ارب پتیوں کی تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا میں امیر امیر تر ہو رہے ہیں اور غریبوں کی حالت زیادہ نہیں بدل رہی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’فی کس آمدنی بھی حقیقی تصویر نہیں دکھاتی، اور اوسط اعداد و شمار میں عدم مساوات چھپ جاتا ہے۔‘
جاپان کی معیشت میں گراوٹ کی وجہ سے انڈیا کو آگے آنے کا موقع ملا ہےدعوے میں جلد بازی کی وجہ کیا ہے؟
سنیچر کو ہی نیتی آیوگ کی میٹنگ ہوئی جس میں ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی شرکت کی۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس میٹنگ کی صدارت کی اور 2047 تک انڈیا کو ترقی یافتہ ملک بنانے کے عزم کا اعادہ کیا۔
پروفیسر ارون کمار کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے دوران ’اچانک جنگ بندی کے بعد حکومت چاہتی ہے کہ اس کی امیج ایک مضبوط معاشی طاقت کے طور پر ابھرے اور اس پر بات چیت ہونی چاہیے۔‘
قبل از وقت جی ڈی پی کے دعوے پر وہ کہتے ہیں: ’یہ مکمل طور پر سیاسی لگتا ہے۔ پاکستان کے ساتھ حالیہ تنازع اور جنگ بندی کے بعد، یہ عوام میں اعتماد پیدا کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ جب کہ انڈیا کی فی کس آمدنی جاپان کا صرف 15واں حصہ ہے۔‘
اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ جاپان کی معیشت میں زبردست کمی آئی ہے۔ سنہ 2010 میں یہ 6 ٹریلین ڈالر تھی لیکن بڑھتی ہوئی آبادی، پیداوار میں جمود اور معاشی سست روی کی وجہ سے اس میں کمی آئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انڈیا نے اپنی برائے نام جی ڈی پی تقریباً دوگنی کر دی ہے۔ اس کا اثر عالمی درجہ بندی پر بھی پڑتا ہے۔
ورلڈومیٹرز کی ویب سائٹ کے مطابق 2025 کے آخر تک جاپان کی فی کس جی ڈی پی کا تخمینہ 33,806 ڈالر لگایا گيا ہے۔ جب کہ انڈیا کی فی کس جی ڈی پی 2,400 امریکی ڈالر کے لگ بھگ ہوگی جو کینیا، مراکش، لیبیا، ماریشس اور جنوبی افریقہ جیسے ممالک سے بھی کم ہے۔