جاپان: سالانہ شرحِ پیدائش کم ترین سطح پر، آبادی میں کمی کا سخت خطرہ

image
جاپان میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد اندازوں سے کہیں زیادہ تیزی سے کم ہو رہی ہے جبکہ گذشتہ برس سالانہ شرحِ پیدائش ایک نئی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

سی این این کے مطابق جاپانی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ سنہ 2024 میں جاپان میں صرف چھ لاکھ 86 ہزار 61 بچے پیدا ہوئے جو گذشتہ برس کے مقابلے میں 5.7 فیصد کم ہے۔

سنہ 1899 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جاپان میں ایک برس میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد سات لاکھ سے کم ہے جبکہ آبادی میں لگاتار گراوٹ کا یہ 16 واں برس ہے۔

یہ تعداد سنہ 1949 کی جنگ کے بعد ’بیبی بوم‘ کے دوران پیدا ہونے والے 27 لاکھ بچوں کے مقابلے میں صرف ایک چوتھائی ہے۔

آبادی کے تیزی سے عمر رسیدہ ہونے اور سکڑنے کی صورت حال نے جاپان میں معیشت کے استحکام اور قومی سلامتی کے حوالے سے خدشات بڑھا دیے ہیں، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب وہ دفاعی اخراجات میں اضافہ کرنا چاہتا ہے۔

وزیراعظم شیگرو ایشیبا نے اس صورت حال کو ’سائلنٹ ایمرجنسی‘ قرار دیا ہے اور وعدہ کیا ہے کہ وہ ایسی پالیسیاں متعارف کرائیں گے جن سے شادی شدہ جوڑوں، بالخصوص دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو ملازمت اور بچوں کی پرورش میں توازن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔

دیہی علاقوں میں خاندانی روایات زیادہ قدامت پسند اور خواتین کے لیے سخت تصور کی جاتی ہیں۔

جاپان اُن مشرقی ایشیائی ممالک میں شامل ہے جو کم ہوتی ہوئی شرحِ پیدائش اور عمر رسیدہ آبادی کے مسئلے سے دوچار ہیں۔ جنوبی کوریا اور چین بھی برسوں سے خاندانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

چاپان میں گذشتہ برس چار لاکھ 85 ہزار 63 شادیاں ہوئیں (فائل فوٹو: آئی سٹاک)

بدھ کے روز ویتنام نے بھی دہائیوں پرانے ’دو بچوں کی حد‘ کے قانون کو ختم کر دیا ہے تاکہ شرحِ پیدائش میں کمی کو روکا جا سکے۔

وزارت صحت کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق جاپان کی زرخیزی کی شرح (یعنی ایک عورت اپنی زندگی میں اوسطاً کتنے بچے پیدا کرتی ہے) سنہ 2024 میں مزید کم ہو کر 1.15 رہ گئی ہے، جو سنہ 2023 میں 1.2 تھی۔

اگرچہ گذشتہ برس کے مقابلے میں شادیوں کی تعداد کچھ بڑھی ہے۔ جاپان میں سنہ 2024 میں چار لاکھ 85 ہزار 63 شادیاں ہوئیں مگر مجموعی طور پر سنہ 1970 کی دہائی سے جاری گراوٹ کا رجحان برقرار ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی پالیسیاں اُن نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مدِنظر نہیں رکھتیں جو شادی سے گریزاں ہیں بلکہ صرف شادی شدہ جوڑوں پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔

سنہ 2024 میں جاپان میں صرف چھ لاکھ 86 ہزار 61 بچے پیدا ہوئے (فائل فوٹو: گیٹی)

تجزیہ کاروں کے مطابق نوجوان نسل شادی اور بچوں کی پرورش سے اس لیے بھی کترا رہی ہے کہ روزگار کے مواقع کم ہیں، مہنگائی بہت زیادہ ہے اور جاپانی کارپوریٹ کلچر صنفی عدم مساوات سے بھرپور ہے، جس سے خواتین اور کام کرنے والی ماؤں پر اضافی دباؤ پڑتا ہے۔

دوسری جانب خواتین کا کہنا ہے کہ شوہر کا نام اختیار کرنے کا قانونی دباؤ بھی شادی نہ کرنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔

جاپانی قانون کے تحت شادی شدہ جوڑوں کا ایک ہی خاندانی نام اختیار کرنا بھی لازمی ہے۔

اس وقت جاپان کی کُل آبادی تقریباً 12 کروڑ 40 لاکھ ہے جو اندازوں کے مطابق 2070 تک کم ہو کر 8 کروڑ 70 لاکھ رہ جائے گی اور اس وقت ملک کی 40 فیصد آبادی 65 برس یا اس سے زائد عمر کی ہے۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.