’انڈین صدر کی گھبراہٹ اور اندرا گاندھی کی موت کی خبر دینے میں تاخیر‘: جب انڈین وزیر اعظم کی لاش ہسپتال لائی گئی

دہلی کے علاقے نیو فرینڈز کالونی کے رہنے والی 95 سالہ ڈاکٹر سنیہ بھارگوا کو 31 اکتوبر 1984 کی وہ صبح آج بھی یاد ہے جب ایمس میں بطور ڈائریکٹر ان کا پہلا دن تھا اور اچانک وزیر اعظم اندرا گاندھی کو گولی لگنے سے زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا۔

دہلی کے علاقے نیو فرینڈز کالونی کی رہائشی 95 سالہ ڈاکٹر سنیہ بھارگوا کو 31 اکتوبر 1984 کی وہ صبح آج بھی یاد ہے جب آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمز) میں بطور ڈائریکٹر اُن کا پہلا دن تھا جب اچانک انڈین وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اپنے ہی سکھ سکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں گولیاں لگنے کے بعد زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا۔

ڈاکٹر سنیہ بھارگوا کا کہنا ہے کہ ’31 اکتوبر 1984 کی وہ ایک عام صبح تھی۔ میں ریڈیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں ایک اہم کیس پر بات کر رہی تھی جب ہسپتال کے عملے کا ایک رُکن دوڑتا ہوا آیا اور بتایا کہ وزیر اعظم کو ایمرجنسی میں لایا گیا ہے۔‘

’میں نے سوچا کہ وزیر اعظم سکیورٹی اور معلومات کے بغیر نہیں آ سکتیں۔ یہ پروٹوکول نہیں ہے۔ مجھے لگا کہ کچھ غلط ہے۔‘

’میں شعبہِ حادثات کی طرف بھاگی۔ وہاں دو نوجوان ڈاکٹر تھے جو بے چین نظر آ رہے تھے۔ میں نے پوچھا کہ وزیر اعظم کہاں ہیں؟ انھوں نے اس ٹرالی کی طرف اشارہ کیا جس پر اندرا گاندھی کو بغیر چادر کے لیٹی ہوئی تھیں۔‘

اس واقعے کے تقریباً چار دہائیوں بعد، ڈاکٹر سنیہ بھارگوا نے حال ہی میں اپنی یادوں پر مشتمل ایک کتاب تحریر کی ہے۔

اندرا گاندھی خون میں لت پت تھیں

اندرا گاندھی
Getty Images
’اندرا گاندھی کو ایک طرف سے خون لگایا جا رہا تھا، دوسری طرف سے وہ نکل رہا تھا‘

سنہ 1930 میں پنجاب کے شہر فیروز پورمیں پیدا ہونے والی ڈاکٹر سنیہ بھارگاوا سنہ 1984 سے سنہ 1990 تک ایمس کی پہلی خاتون ڈائریکٹر تعینات رہی تھیں۔

اُس دن کو یاد کرتے ہوئے ڈاکٹر سنیہ کہتی ہیں کہ ’اندرا گاندھی خون میں لتھڑی ہوئی تھیں۔ میں نے اُن کا چہرہ دیکھا۔ میں نے اُن کے چند سفید بال دیکھے، جو انھوں نے رکھے ہوئے تھے (خاص طور پر)۔ وزیر اعظم اس حالت میں تھیں۔ ٹرالی پر گولیاں بھی پڑی تھیں۔‘

اندرا گاندھی کو اپنی ہی سکیورٹی کے ہاتھوں گولیاں لگنے سے پانچ ماہ قبل ہی امرتسر میں وہ متنازع فوجی کارروائی ہوئی تھی جسے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ انڈین حکومت کے دعوے کے مطابق یہ فوجی آپریشن جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے اور اُن کے مسلح ساتھیوں کو دربار صاحب کمپلیکس سے بے دخل کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

اندرا گاندھی کو گولیاں لگنے کے بعد ایمز پہنچایا گیا تھا۔

اندرا گاندھی انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی بیٹی تھیں۔ انھوں نے انڈیا میں جون 1975 سے مارچ 1977 تک 21 ماہ کے لیے ایمرجنسی نافذ کی تھی۔

1970 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں، جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے، دمدمی ٹکسال کے سربراہ، سکھوں کے مسائل کو اٹھانے میں اپنی بے باکی کی وجہ سے سیاست کا مرکز بن گئے تھے۔

سنہ 1984میں اندرا گاندھی نے امرتسر میں سکھوں کے مذہبی مقام گولڈن ٹیمپل پر جرنیل سنگھ بھنڈرانوالے اور ان کے ساتھیوں کے خلاف ایک بڑے فوجی آپریشن کا حکم دیا۔

آپریشن بلیو سٹار کے نام سے مشہور اس فوجی آپریشن کے دوران فوجیوں اور زائرین سمیت تقریباً 400 افراد مارے گئے۔ سکھ گروپ اِن اعداد و شمار پر اختلاف کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ اس آپریشن میں مبینہ طور پر ہزاروں افراد مارے گئے۔

ایمز میں ڈاکٹروں نے کیا کوششیں کیں؟

ایمز کے سابق ڈائریکٹر ڈاکٹر سنیہ بھارگاوا
BBC
ڈاکٹر سنیہ بھارگاوا

ڈاکٹر سنیہ بھارگوا کا کہنا ہے کہ دو منٹ کے اندر اندر دو سرجنوں کو بلایا گیا جنھوں نے اندرا گاندھی کو چیک کیا۔

وہ کہتی ہیں ’مجھے بتایا گیا کہ اُس وقت اُن کی نبض نہیں چل رہی تھی لیکن اگر انھیں ہارٹ لنگنگ مشین پر لگا دیا جائے تو شاید اُن کی نبض بحال ہو جائے۔ میں نے کہا پھر انتظار کرنے کا کیا فائدہ، جلدی کرو۔ ہم جلدی سے وزیر اعظم کو آپریشن تھیٹر لے گئے اور سرجن کے حوالے کر دیا۔‘

ڈاکٹر سنیہ بتاتی ہیں کہ اندرا گاندھی کا بلڈ گروپ بی نیگیٹو تھا جو بہت کم ہوتا ہے۔ ہسپتال میں اس بلڈ گروپ کا خون کم مقدار میں دستیاب تھا۔ ایسی حالت میں ڈاکٹر او نیگیٹو کا استعمال کرتے ہیں۔

وہ مزید کہتی ہیں کہ ’میڈیکل سپرنٹنڈنٹ نے دہلی کے تمام ہسپتالوں سے خون جمع کرنا شروع کیا، وہ انھیں ایک طرف سے خون دے رہے تھے مگر وہ دوسری جانب سے جسم سے نکل رہا تھا۔‘

جب اندرا گاندھی پر یہ قاتلانہ حملہ ہوا تو اس وقت اُن کے بیٹے راجیو گاندھی مغربی بنگال میں انتخابی مہم چلا رہے تھے۔

اندرا گاندھی کو ہسپتال لایا گیا تو راجیو گاندھی کی اہلیہ سونیا گاندھی اور اُن کے بچے بھی وہاں پہنچ گئے۔

ڈاکٹر سنیہ بھارگوا کا کہنا ہے کہ ’راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی بھی سونیا گاندھی کے ساتھ ایمز پہنچے، لیکن بعد میں دونوں بچوں کو تیجی بچن کے گھر بھیج دیا گیا مگر سونیا گاندھی وہیں رہیں۔ سونیا کو دمے کا دورہ پڑا۔ پھر دوائیں دے کر وہ ٹھیک ہو گئیں۔ انھیں آپریشن تھیٹر کے باہر کمرے میں بٹھایا گیا۔‘

وہ کہتی ہیں ’سونیا کو دیکھنا میری ذمہ داری تھی۔ خبر پھیلنے کے بعد لوگ مسلسل آ رہے ہیں۔ میں سونیا سے پوچھتی تھی کہ کس کو اندر آنے دینا ہے اور کس کو نہیں۔‘

موت کی خبر میں تاخیر اور صدر کی گھبراہٹ

اندرا گاندھی کی موت کے بعد دہلی میں سکھ مخالف فسادات ہوئے
Getty Images
اندرا گاندھی کی موت کے بعد دہلی میں سکھ مخالف فسادات ہوئے

ڈاکٹر بھارگوا کا کہنا ہے کہ ’اُس وقت کے انڈین صدر گیانی زیل سنگھ ملک سے باہر تھے۔ راجیو گاندھی سمیت کوئی اعلیٰ عہدیدار دہلی میں نہیں تھا۔‘

تاہم اندرا گاندھی کے پرسنل سیکریٹری آر کے دھون اور سیاسی مشیر مکھن لال پھوٹیدار ہسپتال میں موجود تھے۔

ڈاکٹر بھارگوا کہتی ہیں کہ ’وزیر صحت (بی شنکرانند) اور دیگر کانگریس قائدین بحث کرتے رہے۔ بعد میں ہمیں بتایا گیا کہ اقتدار کا کوئی خلا پیدا نہیں ہونا چاہیے، لہٰذا آپ کو یہ اعلان نہیں کرنا چاہیے کہ وہ (اندرا گاندھی) مر گئی ہیں۔‘

اندرا گاندھی کی موت کی خبر نے دہلی اور ملک کے دیگر حصوں میں سکھ مخالف ماحول پیدا کر دیا۔

اس واقعے کے وقت صدر گیانی زیل سنگھ یمن کے دورے پر تھے۔

وہ انڈیا کے پہلے سکھ صدر تھے۔ اندرا گاندھی کی موت کی خبر سن کر وہ فوراً انڈیا واپس آ گئے۔

ڈاکٹر بھارگوا اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ گیانی زیل سنگھ شام 5 بج کر 20 منٹ پر ہسپتال پہنچے اور اُس وقت وہ بہت حیران اور خوفزدہ نظر آئے۔

’زیل سنگھ بھی خوفزدہ تھے کیونکہ یہ خبر پھیل گئی تھی کہ سکھ سکیورٹی اہلکاروں نے گولیاں چلائی ہیں۔ وہ کچھ دیر ٹھہرے اور یہ کہہ کر چلے گئے کہ راجیو گاندھی کو آنے دو۔‘

اس کتاب میں ڈاکٹر سنیہ بھارگوا لکھتی ہیں کہ جب راجیو گاندھی ہسپتال پہنچے تو انھوں نے سونیا گاندھی سے مختصر وقت کے لیے ملاقات کی۔

وہ راجیو گاندھی کی حالت کے بارے میں لکھتی ہیں کہ ’وہ صدمے میں لگ رہے تھے لیکن پُرسکون تھے۔‘

وہ مزید لکھتی ہیں ’بعد میں انھوں نے مجھے بتایا کہ انھوں نے اپنی والدہ کو اپنے ایک سکھ سکیورٹی گارڈ کے بارے میں خبردار کیا تھا کیونکہ وہ مشکوک لگ رہا تھا۔ وہ اپنی ماں کی لاش کے پاس زیادہ دیر نہیں ٹھہرے۔‘

ایمز میں سکھ عملے کی کیا حالت تھی؟

اندرا گاندھی کی موت کے بعد دہلی میں سکھ مخالف قتل عام ہوا تھا۔

سکھوں کے قتل عام کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے بنائے گئے ’ناناوتی کمیشن‘ کے مطابق اُس قتل عام میں 2733 سکھ مارے گئے تھے۔ تاہم ہلاک ہونے والوں کے حوالے سے حکومتی اعداد و شمار اور سکھ تنظیموں کے دعوؤں میں فرق ہے۔

ڈاکٹر بھارگوا اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ بہت سے لوگوں کو جلی ہوئی حالت میں بھی ایمز لایا گیا تھا اور اندرا گاندھی کی موت سے ایمز میں کام کرنے والے سکھ ملازمین بھی گھبرا گئے تھے۔

وہ کہتی ہیں ’ایک بلڈ ٹرانسفیوژن ٹیکنیشن جو مدد کر رہا تھا وہ بھی سکھ تھا۔ یہ جان کر کہ سکھوں نے انھیں مار ڈالا ہے، وہ گھبرا کر فوراً آپریشن تھیٹر سے بھاگ گیا۔‘

وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’میرا چیف ریڈیو گرافر بھی سردار تھا۔ میں نے آئی جی پولیس کو فون کیا کہ یہاں پولیس تعینات کریں تاکہ ہمارا عملہ محفوظ محسوس کرے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.