ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے سے کیا خطرات جنم لے سکتے ہیں؟

نطنز مرکز پر حملے کے بعد آئی اے ای اے نے کہا تھا کہ اس مقام انھیں پر ریڈیو ایکٹو آلودگی ملی ہے لیکن اس مقام سے باہر ریڈیو ایکٹویٹی کی سطح پہلے جیسی ہی ہے۔ یونیورسٹی آف برسٹل سے منسلک پروفیسر کلیئر کورک ہل کہتی ہیں کہ یورینیم کی ریڈی ایشن زیادہ دور تک نہیں جاتی۔

ایران میں جوہری تنصیبات اسرائیلی حملوں کے نشانے پر ہیں اور خصوصاً وہ زیرِ زمین پلانٹس جہاں یورینیم کی افزودگی جاری ہے۔

انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے مطابق ایران کے نطنز شہر میں قائم مرکز کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔

ایسی ہی ایک جگہ فوردو بھی ہے جو پہاڑوں کے نیچے کہیں موجود ہے۔ پہاڑوں کے نیچے موجود اس مرکز تک پہنچنے کے لیے طاقتور ’بنکر شکن بم‘ کی ضرورت ہوگی جو صرف امریکہ کے پاس موجود ہے۔

لیکن فوردو پر بم حملہ کرنے سے کیا خطرات جنم لے سکتے ہیں؟

آئی اے ای اے نے ایران کے جوہری مراکز پر حملوں کو ’انتہائی تشویشناک‘ قرار دیا ہے۔

پیر کو اس کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے کا کہنا تھا کہ فوجی کشیدگی ’تابکاری اخراج کے امکان کو بڑھا دے گی جس کے سبب لوگوں اور ماحول کو نقصان ہو سکتا ہے۔‘

جن مقامات پر یورینیم افزودہ کی جاتی ہے وہاں آئیسوٹوپ یا یورینیم کی وافر مقدار محفوظ کی جاتی ہے۔

یونیورسٹی آف سرے اور برطانیہ کی نیشنل فزیکل لیبارٹری سے منسلک پروفیسر پیڈی ریگن کہتے ہیں کہ ’جب آپ یورینیم زمین میں سے نکالتے ہیں تو اس کی دو اشکال سامنے آتی ہیں 99 اعشاریہ تین فیصد یورینیم 238 اور صفر اعشاریہ سات فیصد یورینیم 235 اور نیوکلیئر ری ایکٹر چلانے کے لیے آپ کو اسی کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

توانائی کی شدت کا بڑھنا

پروفیسر ریگن کہتے ہیں کہ جوہری افزودگی کے بنیادی معنی یورینیم 235 کی مقدار کو بڑھانا ہے۔ اس کام کے لیے گیس کی شکل میں یورینیم لی جاتی ہے اور اسے سینٹری فیوجز نامی مشین میں گھمایا جاتا ہے۔

چونکہ یورینیم 238 یورینیم 235 کی ضروری مقدار کے مقابلے میں بھاری ہوتی ہے اس سبب مشین میں گھومتے وقت دونوں علیحدہ ہو جاتی ہیں۔ یورینیم افزودگی کو تیز سے تیز تر کرنے کے لیے یہی عمل بار بار دُہرایا جاتا ہے۔

ایران
BBC
فوردو تک پہنچنے کے لیے طاقتور ’بنکر شکن بم‘ کی ضرورت ہوگی جو صرف امریکہ کے پاس موجود ہے

جوہری پاور سٹیشنز کو عمومی طور پر تین سے پانچ فیصد افزودہ یورینیم کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ ایک کنٹرولڈ نیوکلیئر ری ایکشن پیدا ہو سکے جس کے نتیجے میں توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔

لیکن جب مقصد جوہری ہتھیار بنانا ہو اس وقت آپ کو یورینیم 235 کی کم سے کم 90 فیصد مقدار درکار ہوتی ہے۔

یعنی یورینیم جتنی زیادہ افزودہ ہوگی ایٹمز کے علیحدہ ہونے سے اس کی توانائی میں اتنی ہی زیادہ شدت ہوگی۔

آئی اے ای اے کہنا ہے کہ ایران کے پاس موجود یورینیم کی سطح 60 فیصد تک پہنچ چکے ہے اور وہ جوہری ہتھیار بنانے کی سطح کی طرف گامزن ہے۔

افزودہ شدہ یورینیم کے ذخیرہ پر راکٹ فائر کرنے سے کوئی ایسا ’جوہری واقعہ‘ پیش نہیں آئے گا جیسا فوکوشیما یا چرنوبل کے پلانٹس میں دیکھنے میں آیا تھا۔

یونیورسٹی آف پورٹس ماؤتھ سے منسلک پروفیسر جِم سمتھ کہتے ہیں کہ ’افزودہ شدہ یورینیم غیر افزودہ یورینیم کے مقابلے میں تین گُنا زیادہ ریڈیو ایکٹو ہوتی ہے۔ لیکن یہ دونوں ہی زیادہ ریڈیو ایکٹو نہیں ہوتیں۔ اس سے کوئی بڑا ماحولیاتی بحران نہیں پیدا ہوگا۔‘

’ہمیں زیادہ خدشات فیژن پروڈکٹس کی ہے، وہ چیزیں جو ری ایکٹر یا بم میں جانے کے بعد یورینیم سے علیحدہ ہوتی ہیں۔ جیسے کہ سیزیئم، ریڈیو ایکٹو سٹرونٹیئم، ریڈیو ایکٹو آئیوڈین۔ یہ تمام اجزا ماحولیاتی آلودگی کی وجہ بن سکتے ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ چونکہ ابھی ایران میں یورینیم افزودہ کیا جانے والے مقامات پر کوئی جوہری ری ایکشن نہیں ہو رہا ہے اس لیے کوئی دھماکہ یا بم ان ریڈیو ایکٹو فیژن پروڈکٹس کو ایکٹو نہیں کرے گا کیونکہ وہ ابھی وہاں موجود ہی نہیں ہیں۔

اس کے برعکس ایک دھماکے کے ذریعے یورینیم کو منتشر کیا جا سکتا ہے۔

ایران
BBC
نطنز مرکز پر حملے کے بعد آئی اے ای اے نے کہا تھا کہ اس مقام انھیں پر ریڈیو ایکٹو آلودگی ملی ہے

مقامی خطرہ

نطنز مرکز پر حملے کے بعد آئی اے ای اے نے کہا تھا کہ اس مقام انھیں پر ریڈیو ایکٹو آلودگی ملی ہے لیکن اس مقام سے باہر ریڈیو ایکٹویٹی کی سطح پہلے جیسی ہی ہے۔

یونیورسٹی آف برسٹل سے منسلک پروفیسر کلیئر کورک ہل کہتی ہیں کہ ’یورینیم کی ریڈی ایشن زیادہ دور تک نہیں جاتی۔‘

لیکن ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ اس مقام سے قریب رہتے ہیں ان کی صحت کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.