’اربن ٹچ‘، پنجاب کے دیہاتی علاقوں میں سوئمنگ پولز کا بڑھتا ہوا کاروبار لیکن صحت کے مسائل بھی

image
حافظ آباد کے قریب ایک دیہاتی علاقے میں 35 سالہ فیصل راجپوت نے اپنے فارم ہاؤس کے ایک حصے کو ایک نئی کاروباری شکل دینے کا سوچا۔ دو برس پہلے انہوں نے اپنے فارم ہاؤس کے ایک کونے میں 30 لاکھ روپے کی لاگت سے ایک سوئمنگ پول بنایا جو اب ہر ہفتے ہزاروں روپے کی آمدنی دیتا ہے۔

فیصل راجپوت نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گرمیوں میں لوگ شہر سے ہمارے پول پر تفریح کے لیے آتے ہیں۔ اب تو ارد گرد اور بھی کئی پول کھل گئے ہیں، اور لوگ اس سے پیسے کما رہے ہیں۔ یہ کاروبار اب ہر برس بڑھ رہا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب کے شہروں سے لے کر دیہاتوں تک، سوئمنگ پولز نہ صرف تفریح بلکہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں۔‘

پنجاب میں سوئمنگ پولز کا کاروبار حالیہ برسوں میں تیزی سے پھیلا ہے۔ لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، اور راولپنڈی جیسے شہروں کے علاوہ دیہاتی علاقوں جیسے گجرات، اوکاڑہ، حافظ آباد اور چنیوٹ میں کچھ برسوں سے یہ کاروبار مقبول ہو رہا ہے۔ دیہاتی علاقوں میں پہلے ٹیوب ویل اور نہریں گرمیوں میں پانی کے کھیل کے لیے استعمال ہوتی تھیں لیکن اب اس میں بھی ’اربن ٹچ‘ آ گیا ہے۔

بڑے شہروں میں ایک اندازے کے مطابق 60 فیصد فارم ہاوسز کمرشل بنیادوں پر سوئمنگ پول کی سروسز فراہم کرتے ہیں۔

محمد اکرم شیخ جو دو سوئمنگ پولز چلا رہے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’زیادہ تر سوئمنگ پولز فارم ہاؤسز، شادی ہالز، یا چھوٹے ریزورٹس کا حصہ ہیں۔ ایک اوسط درجے کے پول کی تعمیر پر 15 سے 30 لاکھ روپے تک کی لاگت آتی ہے، جو مقام اور سہولیات پر منحصر ہے۔ پولز کو گھنٹوں یا دن کے حساب سے کرائے پر دیا جاتا ہے۔ ہمارے مختلف پیکجز ہیں۔ فیملی اور دوستوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لیے اگر بکنگ کروانی ہے تو اور ریٹ ہے، اگر آپ انفرادی استعمال چاہتے ہیں تو اس کا ریٹ اور ہے۔ عمومی طور پر فی گھنٹہ 500 سے 5000 ہزار روپے تک چارج کرتے ہیں۔ گرمیوں میں ہفتے کے آخر میں 40 سے 50 ہزار روپے تک کما لیتے ہیں۔‘

پولز کی دیکھ بھال، صفائی، اور سکیورٹی کے لیے مقامی افراد کو ملازمتیں بھی ملتی ہیں۔ ایک پول پر اوسطاً پانچ سے 10 ملازمین کام کرتے ہیں، جن کی تنخواہ 20 سے 40 ہزار روپے ماہانہ تک ہے۔ تاہم یہ ملازمتیں موسمی ہیں اور گرمی کے چھ مہینے تک عمومی طور پر جاری رہتی ہیں۔ 

بڑے شہروں میں ایک اندازے کے مطابق 60 فیصد فارم ہاوسز کمرشل بنیادوں پر سوئمنگ پول کی سروسز فراہم کرتے ہیں۔ (فائل فوٹو: وینیو ہب)

اکرم شیخ کے مطابق ’20 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری والا پول دو سے تین برس میں لاگت پوری کر لیتا ہے۔ گرمیوں کے ابتدائی مہینوں میں ایک پول 10 سے 15 لاکھ روپے کی آمدنی پیدا کر سکتا ہے۔ سردیوں میں پولز کو شادیوں یا تقریبات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے بھر کچھ نہ کچھ سرکٹ چلتا رہتا ہے۔‘

دیہاتوں میں مقبولیت کی وجوہاتپنجاب کے دیہاتوں میں گرمی کی شدت نے لوگوں کو پولز کی طرف راغب کیا ہے۔ تاہم اس میں ایک بڑا ہاتھ سوشل میڈیا کا بھی ہے۔

فیصل راجپوت کے مطابق ’واٹر سلائیڈز اور پول پارٹیز کی تصاویر انسٹاگرام اور ٹک ٹاک پر وائرل ہوتی ہیں، جو نئے صارفین کو متوجہ کرنے کا باعث بنتی ہیں اور اب دیہاتوں میں بھی رجحان بدل رہے ہیں۔ دوسرا دیہاتوں میں تفریحی مقامات کی کمی کی وجہ سے پولز ایک منفرد تجربہ بن رہا ہے۔‘

سوئمنگ پولز ریگولیٹ کون کرتا ہے؟پنجاب میں سوئمنگ پولز کے کاروبار کے لیے مخصوص ریگولیشنز نہ ہونے کے برابر ہیں، جو اس نئی صنعت کے لیے چیلنج کا باعث بھی ہے۔ سوئمنگ پول بنانے کے لیے مقامی میونسپل کارپوریشن سے این او سی درکار ہوتا ہے۔ اسی طرح لاہور جیسے بڑے شہروں میں ڈویلپمنٹ اتھارٹیز سے سوئمنگ پولز کی منظوری ضروری ہے۔ تاہم یہ منظوری نقشوں کی حد تک محدود ہے۔

تاہم حال ہی میں محکمہ ماحولیات نے سوئمنگ پولز کے لیے کچھ رولز ترتیب دیے ہیں۔ جن کے تحت پول کے پانی کے اخراج کے لیے ماحولیاتی معیارات کو مقرر کیا گیا ہے۔

محمد اکرم شیخ کے مطابق ایک اوسط درجے کے پول کی تعمیر پر 15 سے 30 لاکھ روپے تک لاگت آتی ہے۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)

اگر پول کمرشل استعمال کے لیے ہے تو اسے ٹریڈ لائسنس یا سیاحت کے شعبے کے تحت رجسٹر کرنا پڑتا ہے۔ ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن آف پنجاب آن لائن رجسٹریشن کی سہولت دیتی ہے۔

پنجاب ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کے مطابق پولز کے لیے واٹر سپلائی یا بورنگ کی اجازت درکار ہوتی ہے، لیکن دیہاتوں میں یہ اصول اکثر نظر انداز ہوتے ہیں۔

پنجاب بھر میں ہزاروں نجی اور کمرشل پولز غیررجسٹرڈ ہیں، جن کی کوئی سرکاری نگرانی نہیں ہے۔

محکمہ ماحولیات کے ترجمان کے مطابق ’حکومت پنجاب نے حال ہی میں ایک ماحولیات فورس بنائی ہے۔ جو سارے کا سارا فیلڈ سٹاف ہے۔ اور اب سوئمنگ پولز کے لیے بنائے گئے قوانین پر مکمل طور پر عمل کروایا جائے گا، جس میں پانی کی کوالٹی کی سنیپ چیکنگ سرفہرست ہے۔‘

صحت کے مسائلدوسری طرف ریگولیشنز کی کمزوریوں کی وجہ سے سوئمنگ پولز سے وابستہ صحت کے خطرات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی گائیڈ لائنز کے مطابق کے مطابق ناقص دیکھ بھال والے پولز جلدی، سانس اور معدے کے امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔

ماہر امراض جلد ڈاکٹر نورین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’کلورین کی غیرمناسب مقدار یا پانی کی باقاعدہ تبدیلی نہ ہونے سے بیکٹیریا اور فنگس پھیلتے ہیں۔ ہر گرمیوں میں پولز سے جلدی امراض کے کیسز بڑھ جاتے ہیں، خاص طور پر فنگل انفیکشن، اس لیے احتیاط بہت ضروری ہے۔ کلورین یا دیگر کیمیکلز کی زیادتی آنکھوں میں جلن، سانس کی تکلیف، یا جلد کی الرجی کا باعث بنتی ہے۔‘

ناقص دیکھ بھال والے پولز جلدی، سانس اور معدے کے امراض کا باعث بن سکتے ہیں۔ (فائل فوٹو: ایکس)

خیال رہے کہ گجرات کے ایک پول میں سنہ 2024 میں کلورین کی زیادتی سے تین بچوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ اسی طرح مناسب تربیت نہ ہونے کے باعث ڈوبنے کے واقعات بھی رپورٹ ہوئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق حکومت کو سوئمنگ پولز کے اس کاروبار کو مکمل طور پر ریگولرائز کرنا چاہیے کیونکہ گرمی کی شدت میں اضافے سے یہ ایک پھیلتا ہوا کاروبار بن رہا ہے۔ 

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.