سستا تیل اور اہم تجارتی روٹ: چین مشرقِ وسطیٰ میں کھلی جنگ کی صورت میں اپنے اہم پارٹنر ایران کے لیے کیا کر سکتا ہے؟

چین اور مغربی ایشیائی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے ایران کے ساتھ اقتصادی اور سٹریٹیجک تعلقات ہیں اور وہ کسی بھی حالت میں ایران کو ٹوٹتا نہیں دیکھنا چاہے گا۔ ایسے میں اگر یہ تنازع مزید کشیدگی کی طرف جاتا ہے تو چین ایران کے لیے کیا کر سکتا ہے؟
چین
Getty Images

اسرائیل اور ایران کے درمیان گذشتہ جمعے کو شروع ہونے والے تنازع کے بعد ایک دوسرے پر حملوں کا دائرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ اسی دوران چین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ’جنگ میں ایندھن‘ ڈالنے کا الزام لگایا ہے۔

ایک جانب امریکہ کی جانب سے ایران پر حملے کی چہ مگوئیوں کے بیچ امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ دو ہفتوں میں اس پر فیصلہ کریں گے تو دوسری جانب بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان چین اور روس نے اپنے شہریوں کو فوری طور پر اسرائیل چھوڑنے کا مشورہ دیا۔

یاد رہے کہ جمعہ کو جب اسرائیل نے ایران پر فضائی حملے کیے تو چین نے اپنے پہلے ردعمل میں کہا کہ اسرائیل نے ’ریڈ لائن کراس کر لی ہے۔‘

اس کے ایک دن بعد 14 جون کو شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کرتے ہوئے ایک بیان جاری کیا۔ چین شنگھائی تعاون تنظیم میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے تاہم انڈیا نے اس بیان سے خود کو الگ کر لیا۔

شنگھائی تعاون تنظیم کا آغاز 2001 میں چین، روس اور چار وسطی ایشیائی ممالک قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان نے مل کر کیا تھا۔ اِس وقت انڈیا اور پاکستان سمیت کل دس ممالک اس تنظیم کے رکن ہیں۔

15 جون کو چین کے وزیر خارجہ وانگ یی نے ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی سے بات کی۔ چینی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ’چین نے اس حملے کو ایران کی خودمختاری، سلامتی اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی قرار دیا ہے اور چین ایرانی اہلکاروں کو نشانہ بنانے اور شہریوں کی ہلاکت کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔‘

بیان کے مطابق ’اسرائیل کے یہ اقدامات اقوام متحدہ کے قوانین اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہیں۔ خاص طور پر ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیل کا حملہ بہت خطرناک ہے اور اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔‘

چین اور مغربی ایشیائی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کے ایران کے ساتھ اقتصادی اور سٹریٹیجک تعلقات ہیں اور وہ کسی بھی حالت میں ایران کو ٹوٹتا نہیں دیکھنا چاہے گا۔

’چینی امداد‘

منگل کو فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ دو چینی کارگو طیارے ایران پہنچے ہیں۔

رپورٹ میں چینی امور کی ماہر صحافی جینیفر زینگ کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’ان دونوں کارگو طیاروں نے ایرانی فضائی حدود میں داخل ہوتے ہی اپنے ٹرانسپونڈرز بند کر دیے تھے تاکہ ایران پر عائد پابندیوں سے بچنے کے لیے شناخت ہونے سے بچ سکیں۔‘

تاہم چینی حکومت کی جانب سے اس پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی کسی دوسرے ذریعے سے اس کی تصدیق ہوئی ہے۔

چین
Getty Images

تازہ ترین کشیدگی شروع ہونے سے ایک ہفتہ قبل وال سٹریٹ جرنل نے ایک رپورٹ بھی شائع کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران نے بیلسٹک میزائلوں کو ایندھن کے لیے استعمال ہونے والی امونیم پرکلوریٹ کی کثیر کھیپ کے لیے چین سے آرڈرز دیے ہیں، جو اگلے چند مہینوں میں فراہم کیے جانے والے تھے۔

یہ خبر بھی ذرائع پر مبنی ہے اور آزادانہ طور پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکتی، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ چین برسوں سے تکنیکی اور دیگر معاملات میں ایران کی مدد کر رہا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

چین اور ایران کے درمیان تعاون

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک عرصے سے ایران کو بیلسٹک میزائل کے پرزے یا ایندھن چین سے فراہم کیے جا رہے ہیں۔ ’درحقیقت چین نے بیلسٹک میزائل ٹیکنالوجی میں بھی مدد کی ہے جبکہ پابندیوں میں نہ صرف جوہری میزائل بلکہ بیلسٹک میزائل بھی شامل ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’بیلسٹک میزائلوں میں وہ دھات جو اونچائی پر راکٹ کی گرمی کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، ایران کو چین سے فراہم کی جاتی ہے۔ ایران کے پاس اسے تیار کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اور ٹرانسپونڈرز بھی چین سے آتے ہیں اور مختلف حصوں میں آتے ہیں۔ یہ ماضی میں بھی مختلف راستوں سے ایران پہنچتے رہے ہیں۔‘

ایران کی خبر رساں ایجنسی تسنیم نیوز کے مطابق گذشتہ ماہ 25 مئی کو چین سے پہلی کارگو ٹرین ایران کی ڈرائی پورٹ پہنچی تھی۔

درحقیقت 2021 میں چین اور ایران کے درمیان بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (BRI) کے تحت 400 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا تھا اور کہا جاتا ہے کہ چائنا ایران ریل کوریڈور اس کا ایک حصہ ہے۔

اس فریٹ کوریڈور کے ذریعے پابندیوں کا شکار ایران چین کو تیل بیچ سکے گا اور وہاں سے سامان آسانی سے درآمد کر سکے گا۔

امریکہ اور مغربی ممالک نے ایران سے تیل خریدنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے جبکہ چین اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑے پیمانے پر سستے نرخوں پر ایرانی تیل درآمد کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پابندیوں کے باوجود ایران کی تیل کی برآمدات 2024 کی پہلی سہ ماہی کے دوران 35.8 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر رہیں۔ یہ بات خود ایران کے کسٹم چیف نے بتائی۔

امریکی ایوان کی مالیاتی کمیٹی کی گذشتہ سال کی رپورٹ کے مطابق ایران کی تیل کی برآمدات کا 80 فیصد چین کو جاتا ہے اور وہ روزانہ 15 لاکھ بیرل تیل ایران سے خریدتا ہے۔

ایران
Getty Images
کشیدگی کے درمیان، چینی وزیر خارجہ وانگ یی (دائیں) اور ایرانی وزیر خارجہ عباس اراغچی (بائیں) نے فون پر بات کی (فائل فوٹو)

اگرچہ چین بین الاقوامی پابندیوں سے بچنے کے لیے تاریک بیڑے اور ناقابل شناخت ادائیگی کے طریقے استعمال کرتا ہے ، لیکن یہ سچ ہے کہ چین نے سستا ایرانی تیل خرید کر اربوں ڈالر کی بچت کی ہے۔

اروند یلری کا کہنا ہے کہ ’حالیہ دنوں میں چین نے ایران کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات میں اضافہ کیا ہے لیکن اس کے پیچھے اس کا بڑا سٹریٹیجک مقصد ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’چینی صدر شی جن پنگ نے 2010 کی دہائی کے اوائل میں ایران کے ساتھ ایندھن اور تجارت کے ذریعے تعلقات استوار کیے تھے۔ یہ تعلقات آج چین کے سٹریٹیجک عزائم کی تکمیل کے لیے آگے بڑھائے جا رہے ہیں۔ چین نے مغربی ایشیا میں سٹریٹیجک انفراسٹرکچر میں جو سرمایہ کاری کی ہے وہ قابل ذکر ہے۔‘

’مغربی ایشیا میں تیل کے ذخائر ہیں، اسے ایک خریدار کی ضرورت ہے۔ چین صرف خریدار نہیں ہے بلکہ وہ برسوں سے تیل کی کان کنی، ریفائننگ وغیرہ کا کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ چین نے نقل و حمل کا ایک ایکٹو سسٹم اور ایک مکمل کنزیومر مارکیٹ بنائی ہے۔‘

اروند یلاری کے مطابق مغربی ایشیا میں سٹریٹیجک غلبہ کے چین کے عزائم میں ایران کا اہم کردار ہے۔ چین ایران ریل کوریڈور اس کی ایک مثال ہے۔

تسنیم نیوز نے رپورٹ کیا ہے کہ گذشتہ ماہ 12 مئی کو چھ ممالک جن میں ایران، قازقستان، چین، ازبکستان، ترکمانستان اور ترکی کے وزرائے ریلوے کے درمیان وسطی ایشیا کو یورپ سے ملانے والے ریلوے نیٹ ورک کے لیے بات چیت ہوئی۔

رپورٹ میں ٹیرف اور ریل نیٹ ورک سے متعلق دیگر معاملات پر معاہدے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔ اروند یلری کا کہنا ہے کہ ایران اور چین کے تعلقات کو چین کے تزویراتی عزائم کے نقطۂ نظر سے دیکھنا ضروری ہے۔

ایران
Reuters
چین اور ایران کے وزرائے خارجہ نے 2021 میں ایک جامع معاہدے پر دستخط کیے تھے

مغربی ایشیا میں چین کی دلچسپی اور ایران کی ضرورت

ایران کا زمینی راستہ چین کے لیے وسطی ایشیا اور مغربی ایشیا تک اپنی تجارتی رسائی قائم کرنے کے لیے بہت اہم ہے۔

اروند یلاری کے مطابق ’چین مغرب کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کو ایک موقع کے طور پر لیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ چین لیبیا، شام اور ایران جیسے ممالک کی حمایت کرتا ہے لیکن یہ صرف معاشی مفاد نہیں ہو سکتا، یہ سیاسی اور جغرافیائی مفادات ہیں اور چین اسے آگے لے جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اسی لیے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی صورت میں، چین اپنے وسیع سیاسی مفادات کے پیش نظر یہ نقصان برداشت کرنے کے لیے تیار ہو گا اور یہ بھی امکان ہے کہ بھاری نقصان اٹھانے کے باوجود، چین خطے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری جاری رکھے گا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ درست ہے کہ ایران کی موجودہ حکومت کا زوال چین کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہو سکتا ہے، لیکن اس نے کسی دوسرے خطے میں اتنی سرمایہ کاری نہیں کی جتنی کہ مغربی ایشیا میں کی ہے، حتیٰ کہ افریقہ میں بھی نہیں۔‘

’چین وسطی ایشیا سے یورپ تک زمینی راستہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ بحیرۂ عرب اور بحرالکاہل کے سمندری راستے کو بائی پاس کیا جا سکے۔ اس سے وقت اور لاگت میں بھی کمی آئے گی۔‘

چائنہ ایران ریل کوریڈور ایشیا کو یورپ سے جوڑنے کے لیے چین کے پُرجوش ایسٹ ویسٹ کوریڈور منصوبے کا حصہ ہے اور مغربی ایشیا میں عدم استحکام اس کے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔

اروند یلری کے مطابق ’اسرائیلی وزیراعظم بنیامن نتن یاہو نے تازہ ترین حملے کے بعد ایران میں حکومت کی تبدیلی کے اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے لیکن چین نہیں چاہے گا کہ ایرانی حکومت کسی بھی حالت میں گرے۔‘

ایران
Getty Images

جنگ چھڑ جائے تو چین کیا کر سکتا ہے؟

اجلاس کو درمیان میں چھوڑ کر واشنگٹن روانہ ہونے کے بعد ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ایک کے بعد ایک پوسٹس کیں۔

ایک پوسٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’اب ہمارا ایران کے آسمانوں پر مکمل کنٹرول ہے۔ ایران کے پاس اچھے سکائی ٹریکر اور دیگر دفاعی ساز و سامان بڑی مقدار میں موجود تھے لیکن وہ امریکہ کے تیار کردہ آلات کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‘

ایسے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جنگ مزید بڑھنے کی صورت میں چین کا ردعمل کیا ہو گا؟

انڈین کونسل آف ورلڈ افیئرز کے سینئر ریسرچ فیلو ڈاکٹر فضل الرحمان صدیقی کا ماننا ہے کہ چین مغربی ایشیا میں تنازعات میں صرف سخت بیانات دینے کے علاوہ کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مغربی ایشیا میں چین کی موجودگی تقریباً ڈیڑھ دہائی پرانی ہے، جبکہ امریکا وہاں 1945 سے براہ راست موجود ہے۔ اسرائیل اور امریکہ اب بھی مغربی ایشیا کی جغرافیائی سیاست میں ڈرائیونگ سیٹ پر ہیں۔‘

ڈاکٹر فضل الرحمان صدیقی کا کہنا ہے کہ ’چین اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے لیکن پہلی بار اس نے شام کے اس وقت کے صدر بشار الاسد کے معاملے میں روس کے ساتھ مل کر مغربی ایشیا کے مسئلے کو ویٹو کیا، جب اس پر جنگی جرائم کے الزام میں پابندیاں لگانے کی تجویز پیش کی گئی۔‘

ان کے بقول ’چین روس کے بغیر اس خطے میں اب بھی بہت اچھی پوزیشن میں نہیں ہے۔ امریکہ کے پاس خطے میں ایک طویل تجربہ ہے، ایک متاثر کن فوجی موجودگی ہے، جس میں کئی امریکی فوجی اڈے بھی شامل ہیں لیکن اقتصادی پہلو کے علاوہ چین کے ڈیزائن میں ایران اتنا اہم نہیں ہے۔‘

تاہم، اروند یلری کا کہنا ہے کہ ’چین ایران کو طبی یا دیگر مدد فراہم کر سکتا ہے اور امکان ہے کہ وہ یہ سپلائی جاری رکھے گا۔‘

اروند یلری کا کہنا ہے کہ ’چین کی حکمت عملی یہ رہی ہے کہ جہاں بھی ضرورت ہو، وہ سپلائی لائنز کے ذریعے مدد کرتا ہے، روس یوکرین جنگ اس کی ایک مثال ہے۔ وہ براہ راست فوجی جھڑپوں میں ملوث نہیں ہوتا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.