ایران میں یورینیم کی افزودگی: 3.67 فیصد کی حد کہاں سے آئی اور دنیا کے لیے 60 فیصد افزودہ یورینیم پریشانی کا باعث کیوں؟

یورینیم کی افزودگی ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات میں اختلاف کی سب سے بڑی وجہ بن گئی ہے، ایک ایسا بنیادی مسئلہ جو 'بالواسطہ' مذاکرات کے پانچ دور بھی حل نہ کر سکے۔

اسرائیل نے گذشتہ جمعے کو اعلان کیا تھا کہ اس نے ایران میں جوہری اور عسکری تنصیبات پر حملے کیے ہیں۔ ان حملوں سے قبل انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے بورڈ آف گورنرز نے ایران کے خلاف 2015 میں جوہری معاہدے میں درج ’وعدے پورے کرنے میں ناکامی‘ پر ایک نئی قرارداد منظور کی تھی۔

اس معاہدے میں یہ بھی درج تھا کہ ایران 3.67 فیصد سے زیادہ یورینیم کو افزودہ نہیں کر سکتا۔

یورینیم کی افزودگی ایران اور امریکہ کے درمیان جاری جوہری مذاکرات میں اختلاف کی سب سے بڑی وجہ بن گئی ہے، ایک ایسا بنیادی مسئلہ جو 'بالواسطہ' مذاکرات کے پانچ دور بھی حل نہ کر سکے۔

ایرانی حکام ہمیشہ سے یہی اصرار کرتے آئے ہیں کہ ان کی سرزمین پر یورینیم کی افزودگی کی ضرورت ہے۔ لیکن آئی اے ای اے میں قرارداد کی منظوری کے بعد انھوں نے اعلان کیا کہ یورینیم کی افزودگی کے لیے نیا مرکز قائم کریں گے اور اس عمل کے لیے جدید مشینری کا استعمال بھی کریں گے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ایران کو کسی بھی سطح پر یورینیم کی افزودگی نہیں کرنی چاہیے۔

گذشتہ دو دہائیوں میں یورینیم کی افزودگی کی مقررہ حد ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات میں ایک اہم نکتہ رہی ہے۔ لیکن یورینیم کی افزودگی ہوتی کیا ہے، یہ اہم کیوں اور متنازع کیوں ہے؟ تین اعشاریہ 67 فیصد کی مقررہ حد آئی کہاں ہے اور ایران کی جانب سے 60 فیصد یورینیم کو افزودہ کیے جانے پر امریکہ اور آئی اے ای اے کو تشویش کیوں ہے؟

اس تحریر کا مقصد قارئین کو ان سوالات کے جوابات دینے ہیں۔

یورینیم ہے کیا اور آتی کہاں سے ہے؟

یورینیم ایک بھاری قدرتی دھات ہے جو چٹانوں، مٹی اور یہاں تک کہ سمندر کے پانی میں بھی پائی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ زمین کی تہہ بھی میں وسیع پیمانے پر پائی جاتی ہے لیکن اسے صرف چند مقامات سے ہی نکالا جا سکتا ہے۔

یہ دھات قازقستان، کینیڈا، آسٹریلیا، اور افریقہ کے کچھ حصوں میں بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ ایران کے پاس بھی یورینیم کے اپنے ذخائر ہیں جسے وہ اپنے صوبے یزد میں صغند اور صوبہ ہرمزگان میں گچین جیسے علاقوں میں موجود کانوں سے نکالتا ہے۔

ایران
Getty Images

لیکن یورینیم اپنی قدرتی حالت میں توانائی کی پیداوار اور ہتھیار بنانے کے لیے استعمال نہیں ہو سکتی کیونکہ اس کا 99 فیصد حصہ یورینیم 238 پر مشتمل ہوتا ہے جو کہ جوہری ری ایکشن پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتی۔ لیکن اس میں موجود یورینیم 235 ایسا نایاب آئسوٹوپ ہے جو کہ انتہائی قیمتی ہے لیکن یہ صرف یورینیم دھات کا صفر اعشاریہ سات فیصد حصہ ہی ہوتا ہے۔

جب یورینیم 235 میں موجود ایٹم جُدا ہوتے ہیں تو ان میں سے توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ جوہری پاور پلانٹس میں اس توانائی کو استعمال کر کے بجلی پیدا کی جاتی ہے، لیکن ایک جوہری بم میں اس کا ری ایکشن بہت تیز ہوتا ہے، بے قابو ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے دھماکے ہوتے ہیں۔

افزودگی کیا ہے اور اس کی عام سطح کتنی ہوتی ہیں؟

بجلی اور ہتھیار دونوں ہی کی تیاری کے دوران یورینیم 235 کی مقدار بڑھانے کے لیے کام کیا جاتا ہے اور اسی عمل کو افزودگی کہتے ہیں۔ یورینیم کی سطح اور افزودہ شدہ مقدار ہی اس بات کا تعیّن کرتی ہے کہ اسے پُرامن مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا ہے یا پھر عسکری مقاصد کے لیے۔

یورینیم کو افزودہ کرنے کے لیے سینٹری فیوجز کا استعمال کیا جاتا ہے جو گیس کی شکل میں یورینیم سے یورینیم 235 اور یورینیم 238 کو علیحدہ کرتے ہیں۔

یورینیم کی افزودگی کے موضوع پر جن سطحوں کا ذکر آتا ہے انھیں مختلف کٹیگریز میں تقسیم کیا جاتا ہے:

قدرتی یورینیم: اس میں صرف صفر اعشاریہ سات فیصد یورینیم 235 موجود ہوتی ہے جو کہ توانائی کی پیداوار یا بم بنانے کے لیے ناکافی ہے۔

کم افزودہ یورینیم: یہ قدرتی یورینیم کا پانچ فیصد ہوتی ہے جسے سویلین نیوکلیئر پاور پلانٹس میں استعمال کیا جاتا ہے۔ تین اعشاریہ 67 فیصد یورینیم کی حد 2015 میں ایران کے ساتھ جوہری معاہدے میں طے کی گئی تھی۔

درمیانے درجے کی افزودہ یورینیم: اس کی 20 فیصد مقدار کا استعمال ریسرچ ری ایکٹرز میں ہوتا ہے۔ یورینیم کی اس قسم کا استعمال میڈیکل آئسوٹوپس کی تیاری، سائنسی تجربات کرنے اور انڈسٹریل مشینری کی تیاری میں ہوتا ہے۔

انتہائی افزودہ یورینیم: 60 فیصد سے زیادہ افزودہ یورینیم ہتھیار بنانے کے قابل ہونے کے قریب تر سمجھے جاتی ہے اور ایران کے پاس اس کا وسیع ذخیرہ موجود ہے جس کے سبب مغرب اور آئی اے ای اے کو تشویش ہے اور عمومی طور پر اسے ہتھیار بنانے کی تیاری سمجھا جاتا ہے۔

ہتھیار بنانے کے قابل یورینیم: 90 فیصد افزودہ شدہ یورینیم کو ہتھیار بنانے کے قابل سمجھا جاتا ہے۔ آئی اے ای اے سمجھتی ہے کہ 25 کلوگرام 90 فیصد افزودہ یورینیم ایک جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

یورینیم جتنی زیادہ افزودہ ہوگی جوہری ہتھیار بنانے کا خطرناک سفر مزید کم ہوتا جائے گا۔

یورینیم کی افزودگی کے لیے تین اعشاریہ 67 فیصد کی حد کہاں سے آئی اور اتنی مقدار کس لیے استعمال ہو سکتی ہے؟

ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سنہ 2015 میں ایک جوہری معاہدہ ہوا تھا اور اس معاہدے میں تہران کے لیے یورینیم افزودگی کی حد تین اعشاریہ 67 فیصد مقرر کی گئی تھی۔ یہ حد ایک سیاسی اور تکنیکی معاہدے کے تحت مقرر کی گئی تھی جس کا مقصد ایران کو جوہری توانائی کے پُرامن استعمال کا حق دینا تھا اور عالمی برادری کو یہ یقین دہانی کروانا تھا کہ ایران جوہری ہتھیار نہیں بنائے گا۔

تکنیکی طور پر تین اعشاریہ 67 فیصد تک افزودہ یورینیم جوہری توانائی کے ری ایکٹر میں استعمال ہو سکتی ہے۔ افزودگی کی مقرر کردہ یہ حد جویری ری ایکٹرز میں کنٹرولڈ ری ایکشن پیدا کرنے کے لیے کافی ہے لیکن اس سے جوہری ہتھیار نہیں بنایا جا سکتا۔

یہ حد ایران کے جوہری بریک آؤٹ ٹائم (بم کے لیے مواد تیار کرنے میں لگنے والا وقت) کو تقریباً ایک سال تک بڑھانے کے لیے مقرر کی گئی تھی۔ اس کے سبب عالمی برادری کو جوہری معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں سفارتی اور تکنیکی ردِ عمل دینے کا وقت مل جاتا ہے۔

ہتھیار بنانے کے قابل یورینیم کیا ہے اور ایران 60 فیصد ذخیرہ تشویش کی وجہ کیوں ہے؟

ہتھیار بنانے کے قابل افزودہ یورینیم میں آئسوٹوپ 235 کی مقدار 90 فیصد ہوتی ہے۔ اس مواد کو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے سطح تک پہنچنے کے بعد ایک بے قابو ری ایکشن جنم لیتا ہے اور اس کے نتیجے میں دھماکہ ہوتا ہے۔

یورینیم جتنی زیادہ افزودہ ہوگی اگلا مرحلہ اتنا ہی آسان ہوگا۔ اسی سبب ایران کے پاس موجود 60 فیصد افزودہ شدہ یورینیم بہت سے ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ اس کے سبب ایران جوہری ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ گیا ہے بلکہ اس لیے بھی کہ اس کا کوئی غیر عسکری استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی پاور ری ایکٹر یا سائنسی پراجیکٹ کو 60 فیصد افزودہ ہورینیم کی ضرورت نہیں ہوتی۔

ایران
Getty Images
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدہ سنہ 2015 میں ہوا تھا

لہٰذا ایران کے پاس موجود یورینیم کے ذخیرے کی موجودگی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پیداوار کا اصل مقصد کیا ہے؟ تشویش کی بات یہ ہے کہ 60 فیصد افزودہ یورینیم کے حامل ایران نے اپنا ’نیوکلیئر بریک تھرو ٹائم‘ یعنی ہتھیار بنانے کے لیے درکار وقت کو کم کر کے چند ہفتوں تک کر دیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایران چاہے تو مختصر وقت میں ایٹم بم بنانے کے قریب پہنچ سکتا ہے۔

’ٹائم فلائٹ‘ کیا ہے؟

ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کرنے سے لے کر ہتھیار بنانے کے قابل افزودہ یورینیم کو بنانے کے عرصے کو ’ٹائم فلائٹ‘ کہا جاتا ہے۔

سنہ 2015 میں جوہری معاہدے کے وقت ایران کے ’ٹائم فلائٹ‘ کا عرصے تقریباً ایک سال تھا۔ لیکن یورینیم کی 60 فیصد افزودگی نے اس عرصے کو کافی حد تک کم کر دیا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ فار سائنسی اینڈ انٹرنیشنل ٹیکنالوجی کے 9 جون کو شائع ہونے والے جائزے کے مطابق ایران فوردو جوہری مرکز میں ’صرف دو سے تین دن میں‘ ہتھیار بنانے کے قابل 25 کلوگرام افزودہ یورینیم تیار کر سکتا ہے۔

اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایک اندازے کے مطابق ایران فوردو جوہری مرکز میں موجود 60 فیصد افزودہ یورینیم کے موجودہ ذخیرے کو صرف تین ہفتوں کے اندر 233 کلوگرام ہتھیار بنانے کے قابل یورینیم میں تبدیل کر سکتا ہے۔ یورینیم کی یہ مقدار نو جوہری ہتھیار بنانے کے لیے کافی ہوگی۔

انسٹی ٹیوٹ نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ اگر ایران فوردو اور نطنز مراکز میں بیک وقت یورینیم افزودہ کرتا ہے تو دونوں مراکز پہلے مہینے میں 11 اور دوسرے مہینے کے آخر تک 15 جوہری ہتھیار بنانے کے قابل یورینیم تیار کر سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پانچ مہینوں میں یہ تعداد 20 سے زیادہ بموں تک پہنچ سکتی ہے۔

ایران
Getty Images
ایران میں اسرائیلی حملوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی ایک جھلک

ان اندازوں میں استعمال کے قابل بم بنانے میں لگنے والا وقت شامل نہیں ہے بلکہ صرف وہ وقت شامل ہے جو ہتھیار بنانے کے لیے درکار مواد حاصل کرنے میں لگتا ہے۔

ماہرین سمجھتے ہیں کہ ایک مرتبہ درکار مواد تیار ہو جائے تو جوہری بم بنانے میں چند ماہ سے ایک سال تک کا وقت لگ سکتا ہے۔

آئی اے ای اے کی رپورٹ کے مطابق ایران کے یورینیم کے ذخائر کی تازہ ترین صورتحال کیا ہے؟

آئی اے ای اے کی مئی 2025 میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایران کے افزودہ یورینیم کے ذخائر غیرمعمولی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ رواں برس 17 مئی تک ایران کے پاس افزودہ یورینیم کے مختلف کیمیائی اشکال میں ذخائر 9 ہزار 247 کلوگرام تک پہنچ گئے ہیں جو کہ اس کی گذشتہ رپورٹ میں 9 سو53 کلوگرام سے تھوڑا زیادہ تھے۔

مغربی ممالک اور آئی اے ای اے کے لیے رپورٹ کا سب سے پریشان کن حصہ 60 فیصد افزودہ یورینیم سے متعلق ہے جس کے سبب یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایران ہتھیار بنانے کے قابل افزودہ یورینیم حاصل کرنے سے صرف ایک قدم دور ہے۔ ایران کے پاس اب 408 اعشاریہ چھ کلوگرام 60 فیصد افزود یورینیم موجود ہے۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایران تیزی سے اپنے 20 فیصد افزودہ یورینیم کو 60 فیصد افزودہ یورینیم میں تبدیل کر رہا ہے، جس سے نہ صرف 20 فیصد کے ذخیرے میں کمی واقع ہو رہی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.