اسرائیل اور ایران کے درمیان مسلح تنازعہ آٹھویں روز میں داخل ہو گیا ہے اور ایسے میں دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرےپر حملوں سے جہاں عالمی سطح پر اس تنازعے کے خطے میں مزید پھیلنے کے خدشات نے جنم لیا وہیںابتدائی طور پر اس کے معاشی اثرات نے عالمی مالیاتی منڈیوں میں ہلچل مچائی ہے۔

اسرائیل اور ایران کے درمیان مسلح تنازع آٹھویں روز میں داخل ہو گیا ہے اور ایسے میں دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرےپر حملوں سے جہاں عالمی سطح پر اس تنازعے کے خطے میں مزید پھیلنے کے خدشات نے جنم لیا وہیں ابتدائی طور پر اس کے معاشی اثرات نے عالمی مالیاتی منڈیوں میں ہلچل مچائی ہے۔
خاص کر اس تنازعے کے شروع ہوتے ہی عالمی سطح پر تیل کی قیمیتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
عالمی سطح پر اس وقت تیل کی قیمتیں گذشتہ ماہ کے مقابلے 10 ڈالر سے زیادہ ہیں اور یہ خدشہ بڑھ رہا ہے کہ توانائی کی قیمتوں میں اضافہ تیل سے خوراک تک دنیا بھر میں ہر چیز کو مہنگا کر سکتا ہے۔
عالمی منڈی میں تیل کی بڑھتی قیمت کے اثرات پاکستان میں بھی فوراً محسوس کیے گئے اور پاکستان کی حکومت نے ایران اسرائیل تنازعے کے آغاز کے بعد 15 جون کو ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا۔ جس میں پیٹرول کی قیمت میں چار روپے 80 پیسے اورڈیزل کی قیمت میں سات روپے 95 پیسے تک کا اضافہ شامل تھا۔
تین سال قبل جب روس نے یوکرین میں مداخلت کی تھی تب بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ اس سے دنیا بھر میں لوگوں کی زندگیاں متاثر ہوئی تھیں۔
عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کتنی بڑھی ہیں؟
ایران اسرائیل تنازع عالمی منڈیوں پر فوراً اثر انداز ہوا ہے۔ خام تیل کے عالمی معیار برینٹ کروڈ کی قیمت 13 جون کو 78 ڈالر تک پہنچ گئی تھی جبکہ عالمی منڈی پر جمعے کو اس کی قیمت تقریباً کچھ کم ہو کر 76.95 ڈالرہے جو اب بھی گذشتہ ماہ کے مقابلے 10 ڈالر زیادہ ہے۔
عالمی سطح پر بڑے جیوپولیٹیکل واقعات کے باعث تیل کی قیمتیں تیزی سے گِرتی اور بڑھتی ہیں اور یہی حال عالمی معیشت کا ہوتا ہے۔
تو یہ حیرانی کی بات نہیں کہ اسرائیل، ایران کشیدگی نے تیل کی قیمتوں کو متاثر کیا ہے۔ تاہم یہ قیمت گذشتہ سال کے مقابلے اب بھی کم ہے۔ یہ 2022 میں یوکرین جنگ کے دوران تیل کی قیمت کی سب سے بلند سطح کے مقابلے بھی کم ہے جب قیمت 130 ڈالر فی بیرل ہو گئی تھی۔
تو کیا پیٹرول اور دیگر اشیا کی قیمتیں مزید بڑھیں گی؟
جب خام تیل کی قیمت بڑھتی ہے تو سب سے پہلے لوگ پیٹرول کی قیمت میں اضافہ دیکھتے ہیں۔ مگر توانائی کے مہنگے ذرائع زراعت، ٹرانسپورٹ اور خوراک کے شعبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
تاہم ایسا صرف تب ہوتا ہے جب توانائی کے اخراجات طویل عرصے تک زیادہ رہیں۔ پیٹرول اور ڈیزل کے اعتبار سے بھی خام تیل کی قیمتوں پر محدود اثر ہوتا ہے۔
کیپیٹل اکنامکس سے منسلک ڈیوڈ آکسلی کا کہنا ہے کہ ’خام تیل کی قیمت میں 10 ڈالر اضافے کا مطلب ہے کہ پیٹرول پمپ پر قیمت کم از کم سات پیسے بڑھے گی۔‘
تاہم وہ متنبہ کرتے ہیں کہ قیمتیں بڑھنے کی یہ کہانی صرف تیل پر نہیں رُکتی بلکہ اس کی لپیٹ میں ٹرانسپورٹ کے کرائے اور خوراک بھی آتے ہیں۔
کئی لوگوں کو یاد ہوگا کہ یوکرین جنگ کی شروعات میں قیمتوں نے سب کو پریشان کیا تھا۔ آکسلی کہتے ہیں کہ یہ گیس کے مہنگے نرخوں کا ردعمل تھا۔
مثلاً برطانیہ میں گھروں کو گیس کے ذریعے گرم رکھا جاتا ہے جبکہ بجلی کے نرخ بھی گیس کی قیمت پر منحصر ہیں۔
حالیہ حملوں کے دوران گیس کی قیمتیں بھی بڑھی ہیں۔ آکسلی کہتے ہیں کہ ممکن ہے یہ اثر گھریلو اخراجات پر آہستہ آہستہ منتقل ہو۔
ان کے مطابق اس میں منڈیوں کے نگران اداروں کا بھی کردار ہوتا ہے تاکہ وہ قیمتوں کو طے کر سکیں۔
کیا تیل کی قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں؟
کنسلٹنسی اور ریسرچ فرم انرجی ایسپیکٹس میں جیو پولیٹکس کے سربراہ رچرڈ برونز کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال ’بہت اہم اور تشویشناک‘ ہے۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کا اثر یوکرین جنگ یا مشرق وسطیٰ میں ماضی کی پریشانیوں جتنا بڑا ہوگا۔
اہم سوالات یہ ہیں کہ اسرائیل اور ایران کب تک اس تنازعے میں رہتے ہیں، کیا خطے کے دیگر ممالک اس میں شامل ہوں گے اور کیا امریکہ کشیدگی کم کرنے کے لیے کوئی قدم اٹھاتا ہے۔
سب سے بڑھ کر یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آیا ہم آبنائے ہرمز میں بحری تجارت میں کوئی رکاوٹ دیکھتے ہیں، جو ایران کے جنوبی ساحل کے قریب آبی گزرگاہ ہے۔ اس آبی گزرگاہ کو دنیا میں تیل کی ترسیل اور دیگر چیزوں کی تجارت کے لیے بہت اہم تصور کیا جاتا ہے۔
مسٹر برونز کہتے ہیں کہ ’یہ ایک تنگ گزر گاہ ہے، اس لیے تیل کی عالمی منڈیوں کے لیے یہ ایک اہم جگہ ہے۔‘
ان کے مطابق اس وقت غیر یقینی کی صورتحال ہے اور ایران نے ماضی میں ایسی دھمکیاں دی ہیں کہ وہ اس آبی گزرگاہ کو بند کر سکتا ہے مگر اس بار خطرہ پہلے سے زیادہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ بیرونی خطرہ قیمتوں میں اضافے سے جڑا ہے۔ شپنگ میں رکاوٹ کے بغیر تیل کی قیمتیں زیادہ عرصے تک بڑھی رہنے کا امکان نہیں ہے۔
2022 میں یوکرین پر روس کے حملے اور کووڈ کے بعد عالمی معیشت کی بحالی سے توانائی کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے۔
اب عالمی معیشت کو مشکل وقت کا سامنا ہے اور سعودی عرب سے برازیل تک تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے پاس تیل کی سپلائی بڑھانے کی صلاحیت ہے جس سے قیمتیں کم کرنے میں مدد ملے گی۔
عالمی معیشت کے لیے اس کا کیا مطلب ہے؟

توانائی کی قیمت میں اضافہ اور وسیع تر اثرات کا انحصار اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع کی شدت سے جڑا ہے۔
لیکن ایسٹ مینیجر الیانز کے چیف اکنامک ایڈوائزر محمد ال ایرین کا کہنا ہے کہ اس تنازعے میں ’عالمی معیشت کو ایک بڑا جھٹکا‘ دینے کی صلاحیت موجود ہے۔
’جس طرح سے بھی آپ اسے دیکھیں، یہ منفی اثر ہے، قلیل مدتی ہو یا طویل مدتی۔‘
اس وقت امریکی زیر قیادت عالمی اقتصادی نظام کے استحکام کے لیے کئی سوالات پہلے سے کھڑے ہیں۔
کیپٹل اکنامکس کا خیال ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں 100 ڈالر فی بیرل سے زیادہ ہو جائیں، جو ترقی یافتہ معیشتوں میں افراط زر میں ایک فیصد کا اضافہ کر سکتی ہیں، تو شرح سود کو کم کرنے کی امید رکھنے والے مرکزی بینکوں کے لیے حالات مشکل ہوجائیں گے۔
لیکن ڈیوڈ آکسلی کے خیال میں یہ سب سے زیادہ ممکنہ منظرنامہ نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کوئی نئی بات نہیں۔ ہم نے اس کے بہت سے جھٹکے دیکھے ہیں۔‘
’شاید کچھ عرصے میں یہ سب تنازع ختم ہو جائے گا۔‘