انڈیا کے وائلڈ لائف فوٹوگرافر سچن رائے کو آج بھی وہ لمحہ یاد ہے جب ’ایرو ہیڈ‘ یعنی ’سر پر کمان کے نشان والی‘ شیرنی نے ایک مگرمچھ پر جھپٹا مار کر اس کی سخت، چمڑے جیسی کھال کو اپنے دانتوں سے چیر ڈالا تھا۔
انڈیا کے وائلڈ لائف فوٹوگرافر سچن رائے کو آج بھی وہ لمحہ یاد ہے جب ’ایرو ہیڈ‘ نامی شیرنی نے ایک مگرمچھ پر جھپٹا مار کر اس کی سخت، چمڑے جیسی کھال کو اپنے دانتوں سے چیر ڈالا تھا۔
سچن رائے مغربی راجستھان کی ریاست میں واقع رنتھمبور نیشنل پارک میں اس قابل ذکر شیرنی کی تصویریں اس وقت سے لے رہے تھے جب وہ صرف ایک بچی تھی۔
گذشتہ ہفتے اس شیرنی کی موت ہو گئی۔ اسے ٹی 84 کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ گیارہ سال کی عمر میں رینتھبھور پارک کے جھیلوں والے خوبصورت علاقے کے قریب ایک بیماری کے باعث اس کی موت ہوئی۔
یہ وہی علاقہ ہے جس پر اس نے اپنی جوانی کے دنوں میں پوری شان و شوکت سے راج کیا تھا۔
اس کی موت نے سینکڑوں جنگلی حیات کے شوقین افراد، فوٹوگرافروں اور ٹور گائیڈز کو غمزدہ کر دیا، جو محض اسے دیکھنے کے لیے بار ہا پارک میں آیا کرتے تھے۔
ایرو ہیڈ ’کرشنا‘ کی بیٹی اور ’مچھلی‘ کی نواسی تھی۔ ان دونوں شیرنیوں نے اپنے اپنے زمانے میں رنتھمبور کے وسیع علاقوں پر اس طرح حکمرانی کی تھی کہ ان کا خوف پورے جنگل میں محسوس کیا جاتا تھا۔
یہ شیرنیاں مگرمچھ کی ماہر شکاری بھی تھیں جو اپنے طاقتور جبڑوں سے ان دیو ہیکل جانوروں کی کھوپڑیاں چکنا چور کر دیتی تھیں۔
سچن رائے کا کہنا کہ ’ایرو ہیڈ‘ نام ایک فوٹوگرافر نے اس شیرنی کے گالوں پر موجود تیر نما دھاریوں کی وجہ سے دیا۔ انھوں نے بتایا کہ ایرو ہیڈ نے مگرمچھوں کا شکار کرنا اس وقت شروع کیا جب اس کی صحت بگڑنے لگی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اگرچہ وہ کمزور ہو چکی تھی لیکن مگر مچھ اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے۔‘
اس کے ان شکاروں نے مداحوں کے درمیان اسے ’مگرمچھ کی شکاری‘ کا لقب دلوایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نے اپنی موت سے چند دن پہلے بھی ایک مگرمچھ کو مارا تھا۔
سچن رائے کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ بے حد بہادر تھی لیکن ’ایرو ہیڈ‘ کی زندگی آسان نہ تھی۔ اسے اپنی ہی بیٹی ردھی نے اس کے علاقے سے نکال دیا تھا اور اسے کئی بار اپنا نر ساتھی بھی بدلنا پڑا تاکہ کوئی ایسا علاقہ مل جائے جسے وہ اپنا گھر کہہ سکے۔ (ایک نر شیر اپنی مادہ کے ساتھ علاقہ بانٹتا ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی پرورش کر سکے۔)
’ایرو ہیڈ‘ نے اپنی زندگی میں چار بچوں کو جنم دیا لیکن ان میں سے سب بچے زندہ نہ رہ سکے۔
بعد میں جب اس کے جسم میں رسولی بن گئی اور وہ کئی دن شکار نہ کر سکی تو پارک کے اہلکاروں کو اسے کھانا پہنچانا پڑا لیکن یہ سلسلہ اس وقت بند کر دیا گیا جب اس کے کچھ بچے انسانوں پر حملہ کر کے انھیں مارنے لگے۔
سچن رائے ’ایرو ہیڈ‘ کے آخری دنوں میں اسی علاقے میں موجود تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک طاقتور اور شاندار جانور کو اس طرح بے بس اور کمزور ہوتا دیکھنا دل اداس کرنے والا منظر تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے اسے چلنے پھرنے میں جدوجہد کرتے دیکھا۔ وہ ہر ایک قدم پوری کوشش سے اٹھاتی اور پھر بھی بار بار گر جاتی تھی۔‘
دلچسپ بات یہ ہے کہ ’ایرو ہیڈ‘ اپنے آخری دنوں میں اپنی بیٹی ردھی کے علاقے میں چلی گئی جو کبھی اس کا اپنا علاقہ تھا۔
سچن رائے نے اپنے آنسو روکتے ہوئے بتایا کہ ’ردھی نے اس کی آمد پر کوئی مزاحمت نہیں کی اوراس نے اپنی (بے بس) ماں کو لیٹنے اور آرام کرنے کے لیے جگہ دے دی۔‘