پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ ملک بالخصوص خیبرپختونخوا عرصہ دراز سے دہشت گردی کے ناسور سے نبردآزما ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پشاور میں پریس کانفرنس میں کہا کہ دہشت گردی کے پیچھے گٹھ جوڑ کو مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی جس کے براہِ راست خمیازے کی ادائیگی صوبے کے عوام کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں اور بھارت کی پشت پناہی اس صورتحال کو بھڑکانے میں مرکزی کردار رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ 2014 میں آرمی پبلک اسکول کے سانحے کے بعد بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان کے متعدد نکات پر مکمل عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے دہشت گردی پھر ابھر کر سامنے آئی اور سیاسی مفادات، صوبائی گورننس میں خلا اور دہشت گردی کے خلاف یکساں بیانیے کی عدم موجودگی بھی اس مسئلے کو بڑھاوا دینے والی وجوہات میں شامل ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس بریفنگ میں گزشتہ برس اور رواں سال کے آپریشنز کے اہم اعداد و شمار بھی میڈیا کے سامنے رکھے انہوں نے بتایا کہ 2024 میں خیبرپختونخوا میں تقریباً 14,535 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے گئے جن میں 769 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ انہی آپریشنز میں 577 ہمارے جوان جامِ شہادت نوش کر گئےجس میں پاک فوج، پولیس اور شہری بھی شامل ہیں۔
2025 کے دوران 10,115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز ہوئے جن میں 917 دہشت گرد ہلاک ہوئے اور آپریشنز کے دوران 516 قیمتی جانیں نچھاور ہوئیں، جن میں 311 افسر و جوان، 73 پولیس اہلکار اور 132 شہری شامل ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ رواں سال ہلاک ہونے والے خارجی دہشت گردوں کی تعداد گزشتہ ایک دہائی میں سب سے زیادہ ہے اور گزشتہ دو سالوں میں تقریباً 30 افغان خودکش بمباروں استعمال کیے گئے۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے کی بات کی جاتی ہے لیکن کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہے؟ اگر دہشت گردوں سے مذاکرات کرنے ہیں تو پھر جنگیں کبھی نہیں ہوتیں اور غزوہ بدر میں سرور کونین ﷺ کبھی جنگ نہ کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں موجود ہیں اور دہشتگردوں کو بھارت کی پشت پناہی حاصل ہے بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کے طور پر استعمال کرنا بھی دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہے افغانستان میں امریکی انخلا کے بعد چھوڑےگئے ہتھیاروں کا بڑا حصہ دہشتگردوں کے ہاتھ لگا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم نے کئی دہائیوں تک افغان بھائیوں کی مہمان نواز کی ریاست نے افغان مہاجرین کی واپسی کو فیصلہ کیا اس پر سیاست کی جاتی ہے اور بیانیہ بنایا جاتا ہے۔
ترجمان پاک فوج نے کے پی کے عوام کی قربانیوں کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ افواجِ پاکستان عوام کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خاتمے تک آپریشنز جاری رکھیں گے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے زور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے صرف فوجی کارروائیاں کافی نہیں عدالتی اصلاحات، پولیس کی مضبوطی، نیشنل ایکشن پلان کا مکمل نفاذ اور سیاسی اتفاقِ رائے بھی لازم ہیں۔