’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ
عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی
: اے اﷲ! ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب دونوں میں سے کسی ایک کے ذریعے
اسلام کو غلبہ و عزت عطا فرما، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اگلے دن علی
الصبح حاضر ہوئے اور مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ ترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب
المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3683، و أحمد بن حنبل في
فضائل الصحابة، 1 / 249، الحديث رقم : 311، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /
61، الحاکم فی المستدرک علی الصحيحين، 3 / 89، الحديث رقم : 4484، و
الطبرانی فی المعجم الکبير، 2 / 97، الحديث رقم : 1428.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ
عنہ ایمان لائے تو جبرائیل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا اے محمد صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم ! تحقیق اہلِ آسمان نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام
لانے پر خوشی منائی ہے (اور مبارکبادیاں دی ہیں)ابن ماجة في السنن، 1 / 38،
في المقدمة، باب فضل عمر، الحديث رقم : 103، و ابن حبان في الصحيح، 15 /
307، الحديث رقم : 6883، و الطبراني في المعجم الکبير، 11 / 80، الحديث رقم
: 11109، و الهيثمي في موارد الظمان، 1 / 535، الحديث رقم : 2182.
الحاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 90، الحديث رقم : 4491، و المناوي في
فيض القدير، 5 / 299
’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! تو ابو جہل یا عمر بن خطاب دونوں
میں سے اپنے ایک پسندیدہ بندے کے ذریعے اسلام کو غلبہ اور عزت عطا فرما۔
راوی کہتے ہیں کہ ان دونوں میں اﷲ کو محبوب حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے (جن
کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا قبول ہوئی اور
آپ مشرف بہ اسلام ہوئے ترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب
عمر، 5 / 617، الحديث رقم : 3681، و أحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 95،
الحديث رقم : 5696، و ابن حبان فی الصحيح، 15 / 305، الحديث رقم : 6881، و
الحاکم في المستدرک، 3 / 574، الحديث رقم : 6129، و البزار في المسند، 6 /
57، الحديث رقم : 2119، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 245، الحديث رقم :
759
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے اسلام قبول کیا تو مشرکین نے کہا آج کے دن ہماری قوم دو حصوں میں بٹ
گئی ہے (اور آدھی رہ گئی ہے)حاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 91، الحديث
رقم : 4494، والطبراني في المعجم الکبير، 11 / 255، الحديث رقم : 11659، و
أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 248، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 /
62
’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ بے شک حضرت عمر رضی
اللہ عنہ کا قبول اسلام (ہمارے لئے) ایک فتح تھی اور ان کی امارت ایک رحمت
تھی، خدا کی قسم ہم بیت اللہ میں نماز پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے،
یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔ پس جب وہ اسلام لائے تو آپ
نے مشرکینِ مکہ کا سامنا کیا یہاں تک کہ انہوں نے ہمیں چھوڑ دیا تب ہم نے
خانہ کعبہ میں نماز پڑھی :طبراني في المعجم الکبير، 9 / 165، الحديث رقم :
8820، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 62.
’’حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
جب اسلام لائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینے پر
تین دفعہ اپنا دست اقدس مارا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرما رہے
تھے۔ اے اﷲ! عمر کے سینے میں جو غل (سابقہ عداوت کا اثر) ہے اس کو نکال دے
اور اس کی جگہ ایمان ڈال دے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلمات تین
مرتبہ دہرائے۔ حاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 91، الحديث رقم : 4492،
والطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 20، الحديث رقم : 1096، والطبراني في
المعجم الکبير، 12 / 305، الحديث رقم : 13191، و الهيثمي في مجمع الزوائد،
9 / 65
’’حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ اسلام لائے تو انہوں نے کہا کہ لوگوں
میں سب سے زیادہ چغل خور کون ہے؟ لوگوں نے کہا کہ فلاں۔ راوی بیان کرتے ہیں
کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کے پاس تشریف لائے اور کہا تحقیق میں اسلام لے
آیا ہوں پس تو کسی کو اس بارے نہ بتانا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد
وہ شخص اپنا تہہ بند جس کا ایک کنارا اس کے کندھے پر تھا گھسیٹتے ہوئے باہر
نکلا اور کہنے لگا آگاہ ہو جاؤ! عمر اپنے دین سے پھر گیا ہے۔ حضرت عمر رضی
اللہ عنہ نے کہا نہیں تو جھوٹ بولتا ہے میں اسلام لے آیا ہوں۔ اسی اثنا میں
قریش کا ایک گروہ آپ کی طرف بڑھا اور آپ سے قتال کرنے لگا، آپ رضی اللہ عنہ
نے بھی ان کا ڈٹ کر مقابلہ کیا یہاں تک کہ آپ گر گئے اور کفار مکہ آپ رضی
اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے۔ اتنے میں ایک آدمی آیا جس نے قمیض پہن رکھی تھی اور
کہنے لگا تمہارا ا س آدمی کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟ کیا تم اس آدمی کو قتل
کرنا چاہتے ہو جس نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع اختیار کی ہے۔
تم کیا سمجھتے ہو کہ عدی بن کعب کے بیٹے تمہیں اپنے صاحب کے معاملہ میں
ایسے ہی چھوڑ دیں گے۔ سو لوگ آپ رضی اللہ عنہ سے پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت عبد اﷲ
بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا وہ آدمی کون
تھا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا عاص بن وائل سہمی رضی اللہ عنہ۔
البزار في المسند، 1 / 260، الحديث رقم : 156، و الهيثمي في مجمع الزوائد،
9 / 65.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وصال فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی عمر مبارک تریسٹھ (63) برس تھی، اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے
وصال فرمایا تو ان کی عمر بھی تریسٹھ (63) برس تھی اور حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے وصال فرمایا تو ان کی عمر مبارک بھی تریسٹھ (63) برس تھی۔ مسلم في
الصحيح، کتاب الفضائل، باب کم سن النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 1825،
الحديث رقم : 2348’’
حضرت مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ
کو زخمی کیا گیا تو وہ تکلیف محسوس کرنے لگے پس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ
نے ان سے کہا : گویا وہ انہیں تسلی دے رہے تھے۔ اے امیر المومنین! یہ بات
تو ہوگئی بے شک آپ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رہے ہیں
اور آپ نے ان کا اچھا ساتھ دیا۔ پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ آپ سے راضی
تھے۔ پھر آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہے اور اچھی طرح ان کا ساتھ
دیا پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ بھی آپ سے راضی تھے۔ پھر آپ دیگر صحابہ
کرام رضی اللہ عنھم کے ساتھ رہے اور اچھی طرح ان کا ساتھ دیا اور آپ ان سے
جدا ہوں گے تو ضرور اس حال میں جدا ہوں گے کہ وہ لوگ آپ سے راضی ہوں گے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : یہ جو آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اور ان کی رضا کا ذکر کیا ہے تو یہ اللہ کا احسان
تھا جو اس نے مجھ پر فرمایا۔ پھر آپ نے جو ابو بکر کی صحبت اور ان کے راضی
ہونے کا ذکر کیا تو یہ بھی اللہ کا احسان تھا جو اس نے مجھ پر کیا اور جو
تم نے میری گھبراہٹ کا ذکر کیا تو وہ تمہاری اور تمہارے ساتھیوں کی وجہ سے
ہے۔ خدا کی قسم اگر میرے پاس زمین کے برابر بھی سونا ہوتا تو عذاب الٰہی سے
پہلے اسے عذاب کے بدلے میں فدیۃً دے دیتا۔ بخاری فی الصحيح، کتاب فضائل
الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1350، الحديث رقم : 3489
’’حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ بخاری فی الصحيح، کتاب فضائل
الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1351، الحديث رقم : 3491، و في کتاب
الإستئذان، باب المصافحة، 5 / 2311، الحديث رقم : 5909، و ابن حبان فی
الصحيح، 16 / 355، الحديث رقم : 7356، و البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 132،
الحديث رقم : 1382
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن
الخطاب رضی اللہ عنہ کا جنازہ تخت پر رکھا گیا تو لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے،
وہ ان کے حق میں دعا کرتے، تحسین آمیز کلمات کہتے اور جنازہ اٹھائے جانے سے
بھی پہلے ان پر صلوٰۃ (یعنی دعا) پڑھ رہے تھے، میں بھی ان لوگوں میں شامل
تھا، اچانک ایک شحص نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، میں نے گھبرا کر
مڑ کے دیکھا تو وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کے لیے رحمت کی دعا کی اور کہا (اے عمر!) آپ نے اپنے بعد کوئی ایسا شخص
نہیں چھوڑا جس کے کیے ہوئے اعمال کے ساتھ مجھے اﷲ تعالیٰ سے ملاقات کرنا
پسند ہو بخدا مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کا درجہ آپ کے دونوں صاحبوں کے
ساتھ کر دے گا، کیونکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہ
کثرت یہ سنتا تھا، ’’میں اور ابوبکر و عمر آئے، میں اور ابوبکر و عمر داخل
ہوئے، میں اور ابوبکر و عمر نکلے‘‘ اور مجھے یقین ہے کہ اﷲ تعالیٰ آپ کو
(اسی طرح) آپ کے دونوں صاحبوں کے ساتھ رکھے گا۔ بخاری فی الصحيح، کتاب
فضائل الصحابة، باب مناقب عمربن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3482، و
مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1858، الحديث
رقم : 2389، وأحمد بن حنبل فی المسند، 1 / 112، الحديث رقم : 898، و الحاکم
فی المستدرک علی الصحيحن، 3 / 71، الحديث رقم : 4427
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا کہ اچانک ایک بھیڑیا
آیا اور اس کی بکری پکڑ لی۔ چرواہے نے اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑیا کہنے لگا
کہ تم اس دن کیا کرو گے، جس دن صرف درندے رہ جائیں گے اور میرے علاوہ کوئی
چرواہا نہ ہو گا؟ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
میں ابوبکر اور عمر اس واقعہ کو صحیح مانتے ہیں۔ ابو سلمہ فرماتے ہیں کہ جس
وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات فرمائی اس وقت یہ دونوں حضرات
مجلس میں بھی موجود نہیں تھے۔ ترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب
فی مناقب عمر، 5 / 623، الحديث رقم : 3695، و أحمد بن حنبل في المسند، 2 /
382، الحديث رقم : 8950، و حميدي في المسند، 2 / 454، الحديث رقم : 1054
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی صحابی نے حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ پس آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا! تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ وہ صحابی عرض گزار
ہوا! میرے پاس تو کوئی عمل نہیں سوائے اس کے کہ میں اﷲ اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ فرمایا : تمہیں آخرت میں اسی کی
معیت اور سنگت نصیب ہو گی جس سے تم محبت کرتے ہو۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ ہمیں کسی خبر نے اتنا خوش نہیں کیا جتنا حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان نے کیا کہ ’’تم اسی کے ساتھ ہوگے جس سے
محبت کرتے ہو‘‘۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : میں حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں اور ابو بکر و عمر سے بھی لہٰذا
امیدوار ہوں کہ ان کی محبت کے باعث ان حضرات کے ساتھ ہوں گا اگرچہ میرے
اعمال ان جیسے نہیں۔ بخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن
الخطاب، 3 / 1349، الحديث رقم : 3485، و مسلم في الصحيح، کتاب البر و الصلة
و الأدب، باب المرء مع من أحب، 4 / 2032، الحديث رقم : 2639، و أحمد بن
حنبل فی المسند، 3 / 227، الحديث رقم : 13395، و أبو يعلیٰ فی المسند، 6 /
180، الحديث رقم : 3465، و عبد بن حميد في المسند، 1 / 397، الحديث رقم :
1339، و المنذری في الترغيب و الترهيب، 4 / 14، 15، الحديث رقم : 4594.
’’حضرت سعید بن مسیب اور ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی اﷲ عنہما بیان کرتے
ہیں کہ ہم نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک چرواہا اپنے ریوڑ کے
ساتھ تھا کہ بھیڑئیے نے اس کے ریوڑ پر حملہ کر دیا اور ایک بکری پکڑ لی،
چرواہے نے اس کا پیچھا کیا اور بکری چھڑوا لی۔ بھیڑئیے نے اس کی جانب متوجہ
ہو کر کہا : بتاؤ چیر پھاڑ کے دن کون ان کی حفاظت کرے گا جب میرے سوا کوئی
ان کا چرواہا نہیں ہوگا۔ لوگوں نے اس پر تعجب کیا اور کہا سبحان اللہ (کہ
بھیڑیا انسانوں کی طرح بول رہا ہے)۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا میں اس واقعہ کی صحت پر یقین رکھتا ہوں اور ابوبکر و
عمر بھی اس پر یقین رکھتے ہیں۔ حالانکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اﷲ
عنہما وہاں موجود ہی نہ تھے۔ بخاری فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب
مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1349، حديث رقم : 3487، و في کتاب فضائل الصحابة،
باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1339،
الحديث رقم : 3463، و مسلم فی الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل
أبی بکر، 4 / 1857، الحديث رقم : 2388، و النسائی فی السنن الکبریٰ، 5 /
38، الحديث رقم : 8114، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 310، الحديث رقم :
902.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہر نبی کے لئے دو وزیر اہل آسمان سے اور دو
وزیر اہل زمین سے ہوتے ہیں۔ پس اہل آسمان میں سے میرے دو وزیر جبرئیل و
میکائیل ہیں اور اہل زمین میں سے میرے دو وزیر ابوبکر وعمر ہیں۔ ترمذي في
الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب ابوبکر و عمر، 5 / 616، الحديث رقم
: 3680، و الحاکم في المستدرک، 2 / 290، الحديث رقم : 3047، و ابن الجعد في
المسند، 1 / 298، الحديث رقم : 2026، و الديلمي في الفردوس بمأثور الخطاب،
4 / 382، الحديث رقم : 7111.
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے عمرہ کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
انہیں فرمایا : اے میرے بھائی! ہمیں بھی اپنی دعاؤں میں شریک رکھنا اور
ہمیں نہیں بھولنا۔
ترمذی فی الجامع الصحيح، کتاب الدعوات، باب فی دعاء النبي صلی الله عليه
وآله وسلم، 5 / 559، الحديث رقم : 3562. و إبن ماجه فی السنن، 2 / 966،
الحديث رقم : 2894، و البيهقی فی شعب الإيمان، 6 / 502، الحديث رقم : 9059
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم اپنے مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مجلس میں تشریف
لاتے جس میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما بھی موجود ہوتے تو اس مجلس
صحابہ میں سے ابوبکر و عمر کے علاوہ کوئی ایک شخص بھی آنکھ اٹھا کر چہرہ
مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا۔ حضرت ابوبکر و
عمر رضی اﷲ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اور حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی طرف دیکھتے اور مسکراتے تھے۔
الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب أبوبکر و عمر، 5 / 612،
الحديث رقم : 3668، و الطبري في الرياض النظرة، 1 / 338
’’حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ
نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا : ’’اے حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہترین یہ سن کر حضرت
ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا آگاہ ہوجاؤ اگر تم نے یہ کہا ہے تو میں نے
بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ
عمر سے بہتر کسی آدمی پر ابھی تک سورج طلوع نہیں ہوا۔ ترمذی فی الجامع
الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم : 3684، و
الحاکم فی المستدرک، 3 : 96، الحديث رقم : 4508
حضرت اسود بن سریع سے روایت ہے کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں نے اﷲ تبارک و تعالیٰ کی
حمد و ثنا اور آپ کی مدحت و نعت بیان کی ہے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے جو اپنے رب کی حمد و ثنا کی ہے مجھے بھی
سناؤ۔ راوی کہتے ہیں میں نے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے
سامنے) پڑھنا شروع کیا پھر ایک دراز قامت آدمی آیا اور حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ راوی کہتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو، بیان کرو۔ راوی کہتے ہیں اس
آدمی نے تھوڑی دیر کلام کیا پھر باہر چلا گیا۔ میں نے دوبارہ کلام پڑھنا
شروع کیا تو وہ آدمی دوبارہ آگیا اور اجازت طلب کی۔ پس حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بیان کرو، بیان کرو! اس آدمی نے اس طرح دو
دفعہ یا تین دفعہ کیا : میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! یہ آدمی کون ہے جس کے
لئے آپ نے مجھے چپ کرایا؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
: یہ عمر بن الخطاب ہے اور یہ وہ آدمی ہے جو باطل کو پسند نہیں کرتا۔ أحمد
بن حنبل في المسند، 3 / 435، و البخاري في الأدب المفرد، 1 / 125، الحديث
رقم : 342، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 118
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سفید قمیض زیب تن کئے
ہوئے دیکھا تو دریافت فرمایا : (اے عمر) تمہارا یہ قمیص نیا ہے یا پرانا،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : یہ پرانا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : (اﷲ کرے) تم ہمیشہ نیا لباس پہنو اور پر سکون زندگی بسر
کرو اور تمہیں شہادت کی موت نصیب ہو۔ أبن ماجه فی السنن، کتاب اللباس، باب
ما يقول الرجل إذا لبس ثوبًا جديداً، 2 / 1178، الحديث رقم : 3558، وأحمد
بن حنبل في المسند، 2 / 88، الحديث رقم : 5620، والطبرانی فی المعجم
الکبير، 12 / 283، الحديث رقم : 13127، وأبويعلیٰ في المسند، 9 / 402،
الحديث رقم : 5545.
’’حضرت محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں یہ
خیال نہیں کرتا کہ جو شخص حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما کی تنقیص کرتا
ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت رکھتا ہو۔ ترمذی فی
الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عمر، 5 / 618، الحديث رقم :
3685
’’حضرت عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضورنبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت
عمر رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا
: یا رسول اﷲ! آپ مجھے ہر چیز سے بڑھ کر محبوب ہیں سوائے میری جان کے۔ اس
پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قسم ہے اس ذات کی جس
کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا
جب تک میں اسے اس کی جان سے بڑھ کر محبوب نہیں ہو جاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ
عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اب آپ مجھے میری جان سے بھی بڑھ کر محبوب
ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! اب تمہارا
ایمان کامل ہو گیا ہے أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 336، و الحاکم في
المستدرک، 3 / 516، الحديث رقم : 5922، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 /
102، الحديث رقم : 317، و البزار في المسند، 8 / 384، الحديث رقم : 3459
|