فضائل سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ

’’حضرت زید بن اسلم رضی اﷲ عنہما اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداﷲ ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے مجھ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعض حالات پوچھے تو میں نے انہیں بتایا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ جیسا نیک اور سخی نہیں دیکھا گویا یہ خوبیاں تو آپ کی ذات پر ختم ہوگئی تھیں۔ بخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3484، و ابن سعد في الطبقات الکبریٰ، 3 / 292

’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہِ اُحد پر تشریف لے گئے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم تھے۔ ان کی موجودگی کی وجہ سے پہاڑ وجد میں آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنا قدم مبارک مارا اور فرمایا : اے اُحد ٹھہر جا! تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہیدوں کے سوا اور کوئی نہیں :؛بخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب مناقب عمر بن الخطاب، 3 / 1348، الحديث رقم : 3483، و في کتاب فضائل الصحابة، باب لو کنت متخذا خليلا، 3 / 1344، الحديث رقم : 3472، و الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عثمان، 5 / 624، الحديث رقم : 3697، و أبوداؤد في السنن، کتاب السنة، باب في الخلفاء، 4 / 212، الحديث رقم : 4651، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 280، الحديث رقم : 6865، و النسائي في السنن الکبریٰ، 5 / 43، الحديث رقم : 8135

’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جب عیینہ بن حصن بن حذیفہ آئے تو اپنے بھتیجے حر بن قیس کے پاس ٹھہرے اور یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مقربین میں سے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مجالس اور مشاورت میں قراء حضرات شریک ہوتے تھے خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ حضرت عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا : اے بھتیجے : تمہاری تو امیر المومنین تک رسائی ہے، لہٰذا میرے لئے انکی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کرو۔ انہوں نے جواب دیا کہ میں عنقریب آپ کے لئے اجازت حاصل کر لوں گا۔ حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما کا بیان ہے کہ جب حضرت حر بن قیس نے حضرت عیینہ کے لئے اجازت طلب کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی، جب یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو کہنے لگے، اے ابن خطاب! خدا کی قسم! نہ تو آپ ہم پر مال لٹاتے ہیں اور نہ ہمارے درمیان عدل و انصاف ہی فرماتے ہیں۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ ناراض ہوئے اور انہیں سزا دینے کا ارادہ کیا لیکن حضرت حر نے عرض کیا : اے امیر المومنین! اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا : ’’اے محبوب! معاف کرنا اختیار کیجئے اور بھلائی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے منہ پھیر لیجئے‘‘ اور یہ شخص ایسے ہی جاہلوں میں سے ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ خدا کی قسم! حضرت عمر رضی اللہ عنہ (وہیں رک گئے اور) اس حکم الٰہی سے ذرا برابر تجاوز نہ کیا۔ وہ اﷲ کی کتاب کے آگے سر جھکانے والے تھے:: بخاري في الصحيح، کتاب التفسير، باب خذ العفو و أمر بالعرف و أعرض عن الجاهلين، 4 / 1702، الحديث رقم : 4366، و في کتاب الإعتصام بالکتاب و السنة، باب الإقتداء بسنن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 6 / 2657، الحديث رقم؛ 6856، و البيهقي في شعب الإيمان، 6 / 316.

’’حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں کہا کرتے تھے کہ ہم حضرت ابوبکر کے برابر کسی کو نہیں ٹھہراتے، ان کے بعد حضرت عمر اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہم کو شمار کیا کرتے تھے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چھوڑ دیتے تھے اور ان میں کسی کو کسی پر فضلیت نہیں دیتے تھے۔ : بخاري في الصحيح، کتاب فضائل الصحابة، باب في مناقب عثمان، 3 / 1352، الحديث رقم : 3494، أبوداؤد في السنن، کتاب السنة، باب في التفضيل، 4 / 206، الحديث رقم : 4627، و أبويعلي في المسند، 9 / 454، الحديث رقم : 5602، و ابن أبي عاصم، 2 / 567، الحديث رقم : 1192، و البيهقي في الإعتقاد، 1 / 366.

’’حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے پہلے جس کے لئے زمین کو کھولا جائے گا وہ میں ہوں پھر ابوبکر کے لئے اور پھر عمر کے لئے پھر اہل بقیع کی باری آئے گی اور ان کو میرے ساتھ اکٹھا کیا جائے گا پھر میں اہل مکہ کا انتظار کروں گا یہاں تک کہ حرمین شریفین کے درمیان لوگوں کے ساتھ جمع کیا جاؤں گا۔ الترمذي في الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب في مناقب عمر، 5 / 622، الحديث رقم : 3692، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 324، الحديث رقم : 6899، و الحاکم في المستدرک علي الصححين، 2 / 505، الحديث رقم : 4732، و في 3 / 72، الحديث رقم : 4429، و الهيثمي في موارد الظمان، 1 / 539، الحديث رقم : 2194.

’’حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور وہ ایک چادر میں لپٹے ہوئے تھے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ تجھ پر رحمت فرمائے پھر فرمایا : لوگوں میں سے کوئی بھی میرے نزدیک اس چادر میں لپٹے ہوئے سے زیادہ محبوب نہیں ہے جو کچھ اﷲ تعالیٰ کے صحیفہ (یعنی قرآن) میں ہے وہ اسے اس کے منشاء کے مطابق نازل فرماتا ہے۔ حاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 100، الحديث رقم : 4523، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 359، الحديث رقم : 32018

حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو شہید کیا گیا تو تبالہ پہاڑ سے یہ آواز سنائی دی گئی۔

(رونے والے کو اب اسلام پر رونا چاہیے اور تحقیق انہوں نے میری ہلاکت کا شکوہ کیا اور جو زمانہ آرہا ہے اور دنیا اور اس کی خیر نے پیٹھ پھیر لی ہے اور جو وعدے پر یقین رکھتا تھا وہ غفلت میں پڑا ہوا ہے۔)
پھر لوگوں نے ادھر ادھر دیکھا لیکن کوئی چیز نہ دیکھ سکے۔
::حاکم في المستدرک علي الصحيحين، 3 / 100، الحديث رقم : 4524، وأبو نعيم في حلية الاولياء، 2 / 376
’’حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم آپس میں باتیں کرتے تھے کہ آسمانی سکون قلب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر نازل ہوتا ہے۔ :: طبراني في المعجم الکبير، 8 / 320، الحديث رقم : 8202، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 358، الحديث رقم : 32011، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 67، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 442، الحديث رقم : 707، و أبونعيم في حلية الأولياء، 8 / 211.

’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ عرفہ کی رات کو فرشتوں کے سامنے اپنے تمام بندوں پر فخر کرتا ہے اور خاص طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر فخر کرتا ہے۔::طبراني في المعجم الأوسط، 2 / 61، الحديث رقم : 1251، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 70، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 586، الحديث رقم : 1273.

حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمار! ابھی میرے پاس جبرائیل امین علیہ السلام آئے تھے اور میں نے ان سے پوچھا، اے جبرائیل مجھے آسمان والوں میں عمر کے فضائل کے بارے میں بتاؤ۔ اس نے کہا یا رسول اﷲ! اگر میں آپ کو اتنی مدت تک حضرت عمر کے فضائل بیان کرتا رہوں جتنی مدت حضرت نوح علیہ السلام زمین پر رہے یعنی نو سو پچاس برس، تب بھی عمر رضی اللہ عنہ کے فضائل ختم نہیں ہوں گے اور بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہیں۔ :أبويعلي في المسند، 3 / 179، الحديث رقم : 1603، والطبراني في المعجم الاوسط، 2 / 158، الحديث رقم : 1570، و الروياني في المسند، 2 / 367، الحديث رقم : 1342، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 383، الحديث رقم : 8499.

’’حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ ہم یہ خیال کیا کرتے تھے کہ آسمانی سکون قلب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سے ٹپکتا تھا۔ ؛طبراني في المعجم الکبير، 9 / 167، الحديث رقم : 8827، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 354، الحديث رقم : 31974، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 67، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 2 / 171، الحديث رقم : 550، و أبونعيم في حلية الأولياء، 1 / 42، و معمر بن راشد في الجامع، 11 / 222، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 444، الحديث رقم : 711

’’حضرت طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم آپس میں باتیں کرتے تھے کہ آسمانی سکون قلب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر نازل ہوتا ہے۔ الطبراني في المعجم الکبير، 8 / 320، الحديث رقم : 8202، و ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 358، الحديث رقم : 32011، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 67، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 442، الحديث رقم : 707، و أبونعيم في حلية الأولياء، 8 / 211.

’’حضرت عبداﷲ ابن عباس کے بھائی حضرت عبید اﷲ ابن عباس کہتے ہیں کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے گھر کا ایک پرنالہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے راستے کی طرف تھا ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے روز اپنے کپڑے پہنے اور اسی دن حضرت عباس کے لیے دو چوزے ذبح کئے گئے تھے پس جب پرنالہ سے چوزوں کے خون سے ملا ہوا پانی بہنے لگا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر پانی گرا پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر نالے کو وہاں سے اکھاڑنے کا حکم دے دیا پھر آپ رضی اللہ عنہ واپس لوٹ آئے اور اپنا وہ لباس اتارا اور نیا لباس پہنا پھر آ کر لوگوں کی امامت کروائی۔ بعد میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا اے عمر! اﷲ کی قسم! بے شک یہ اس جگہ پر نصب ہے جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو رکھا تھا۔ پس حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے کہا اور میں اس وقت تک آپ سے تاکید کرتا رہوں گا جب تک آ؛پ میری پیٹھ پر سوار ہو کر اس پرنالے کو اسی جگہ پردوبارہ نہیں لگالیتے جہاں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو لگایا تھا پس حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا۔ أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 210، الحديث رقم : 1790، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 391، الحديث رقم : 482

’’حضرت ابو سفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پرایک چادر دیکھی گئی جو آپ رضی اللہ عنہ اکثر پہنتے تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں آپ رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ کثرت سے یہ چادر (کیوں) پہنتے ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : بے شک یہ مجھے میر ے نہایت پیارے اور خاص دوست عمر نے پہنائی تھی۔ بے شک عمر اﷲ تعالیٰ کے لئے خالص ہوا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کے لیے خالص بھلائی چاہی پھر آپ رضی اللہ عنہ رونے لگ گئے۔ ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 356، الحديث رقم : 31997

’’حضرت سالم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اہل نجران حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا : اے امیر المومنین! آپ کا نامہ اعمال آپ کے ہاتھ میں ہے اور آپ کی شفاعت آپ کی زبان میں ہے ہمیں عمر نے ہماری زمین سے نکال دیا ہے آپ ہمیں ہماری زمین کی طرف لوٹا دیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا : تمہارا برا ہو بے شک عمر بالکل درست کام انجام دینے والے تھے اور میں ان کا کیا ہوا فیصلہ تبدیل نہیں کروں گا۔ ابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 357، الحديث رقم : 32004، و خطيب البغدادي في التاريخ البغداد، 6 / 185، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 1 / 366.

’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک بلند درجات والے اپنے سے زیادہ بلند درجات والوں کو دیکھیں گے جس طرح تم آسمان کے افق پر چمکتا ہوا ستارہ دیکھتے ہو اور بے شک ابو بکر اور عمر، ان میں سے ہیں اور وہ کتنے ہی اچھے ہیں؛۔أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 26، الحديث رقم : 11222، و في 3 / 61، الحديث رقم : 11605، و الطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 370، الحديث رقم : 3427، و في 9 / 184، الحديث رقم : 9488، و الطبراني في المعجم الصغير، 1 / 220، الحديث رقم : 353، و أبويعلي في المسند، 2 / 369، الحديث رقم : 1130، و الحميدي في المسند، 2 / 333، الحديث رقم : 755.

’’حضرت زید بن وہب حضرت عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسلام کے لئے ایک مضبوط قلعہ تھے جس میں اسلام محفوظ تھا اور اس سے باہر نہیں نکلتا تھا پس جب آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کر دیا گیا تو اسلام اس قلعہ سے باہر نکل گیا یعنی غیر محفوظ ہو گیا اور اس کے بعد اس میں داخل نہیں ہوا (یعنی اس کے بعد فتنوں کے حملوں سے امت محفوظ نہ رہی::ابن أبيشبية في المصنف، 6 / 354، الحديث رقم : 31977

’’حضرت سیار ابو حکم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ بے شک جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طبیعت بوجھل ہو گئی یعنی قریب الوفات ہو گئے تو آپ نے کھڑکی میں سے لوگوں کی طرف جھانک کر کہا : اے لوگو! بے شک میں نے تم سے ایک عہد کیا ہے۔ کیا تم اس پر راضی ہو؟ لوگ کھڑے ہو کر کہنے لگے ہاں ہم راضی ہیں۔ پس حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر فرمانے لگے ہم اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک عنان حکومت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نہ سنبھال لیں پس ایسا ہی ہوا آپ رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد خلافت حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سنبھالی۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1284578 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.