تحریک نبوت پر لکھاجانے والا ایک خوبصورت اور جامع انسائیکلو پیڈیا

تحریک ختم نبوت اور نوائے وقت

تحقیق کی دنیا میں محمد ثاقب رضا قادری کا نام بے شک نیا ہے لیکن حال ہی میں ان کی ایک ضخیم کتاب "تحریک ختم نبوت اور نوائے وقت "شائع ہوکر مارکیٹ میں آئی ہے ۔928صفحات پر مشتمل اس کتاب کو یقینا تحریک ختم نبوت کے حوالے سے ایک انسائیکلوپیڈیا قرار دیاجاسکتا ہے ۔مصنف نے 77 سالہ پرانی فائلوں کو کنگالہ اور ان میں سے بطور خاص تحریک ختم نبوت کے حوالے سے خبروں ٗ تجزیوں اور سانحات کو اپنے قلم سے نہ صرف تحریر کیا بلکہ اسے کچھ اس انداز سے ترتیب دے کر اپنی کتاب میں شامل کیا کہ یہ کتاب ٗختم نبوت کے حوالے سے ایک اہم دستاویز بن چکی ہے ۔ جہاں تک نوائے وقت کی بات ہے تو یہ اخبار ہی نہیں بلکہ دو قومی نظریہ کا ترجمان ہے۔ جس نے حمید نظامی اور ڈاکٹر مجید نظامی کی ادارت میں ڈاکٹر علامہ محمداقبال ؒ اور حضرت قائداعظم ؒ محمد علی جناح کے ارشادات کی ہر سطح پر ترویج کی بلکہ تحریک پاکستان کے حوالے سے بھی مسلمانان پاکستان کی فکری رہنمائی کا فریضہ بھی انجام دیا۔ مخالفین اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کے نظریات کو رد کرتے ہوئے ان کے اعتراضات کا مدلل جواب بھی دیا ۔یوں نوائے وقت کی حیثیت محض ایک اردو اخبار کی نہیں بلکہ ایک دبستان اور ایک ادارے کی ہے ٗ جو ہر طرح کے حالات میں مسلم تہذیبی و ثقافتی اقدار اور نظریہ پاکستان کی حفاظت اور فروغ کی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے ادا کرتا چلا آرہا ہے ۔ تحریک ختم نبوت میں بھی نوائے وقت کاکردار بہت روشن اور مثالی رہا ہے ۔مضامین ٗ مکالمات ٗ اداریوں ٗ کالموں ٗ خبروں اور اشتہارات کے ذریعے تحریک کو مستحکم اور فعال بنانے میں نوائے وقت کا کردار کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا ۔ اس کے ساتھ ساتھ قادیانیوں اور دیگر غیر مسلموں کے گمراہ کن نظریات اورافکار کی دھجیاں اڑانے میں گراں قدر خدمات انجام دیں ۔

آئیے کتاب کے اندر جھانک کر دیکھیں کہ مصنف نے اس کتاب میں کن کن موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ۔ باب اول میں پاکستان میں تحفظ ختم نبوت کی تحریکات پر ایک نظر ۔باب دوم میں پاکستان میں تحفظ ختم نبوت کے لیے قانون سازی ۔ باب سوم میں عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ میں روزنامہ نوائے وقت کاکردار ۔ واقعات ٗ تحقیقات ٗ اداریے / شذرات ۔ مذاکرے ۔ مقالات ۔ مراسلات ۔ قطعات / منظومات ۔خصوصی اشاعتیں وغیرہ وغیرہ۔شامل ہیں۔

قادیانی تحریک کے بارے میں مصنف لکھتے ہیں کہ یہ کوئی مذہبی تحریک نہیں بلکہ ایک سیاسی تحریک ہے جس کا مقصد صرف مسلمانوں میں افتراق و انتشار پھیلانا ٗ مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا ہے تاکہ جمعیت قائم نہ رہے ۔ قادیانی تحریک کے پیروکار پاکستان کے مخالف ٗاکھنڈبھارت کے حامی اور تاج برطانیہ کے وفادار ہیں ۔انگریز سامراج کی حمایت سے مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کو تقریبا 63 سال اپنے باطل نظریات پھیلانے کابھرپور موقع ملا لیکن انگریز کی رخصتی اور مملکت خداداد پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد برصغیر پاک و ہند میں مرزائیت کے لیے حالات یکسر بدل گئے ۔ اگرچہ کچھ عرصہ تک پاکستان کے پہلے مرزائی وزیر خارجہ چودھری ظفر اﷲ کی وجہ سے مرزائیوں کو پاکستان آنے اور پنپنے کا بڑا موقع میسر آیا اور انہوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کلیدی عہدوں تک رسائی حاصل کرلی ۔ مرزائی وزیرخارجہ سے چھٹکارا پانے کے لیے پاکستان کے تمام مکاتب فکر نے 1953ء میں تحریک چلائی لیکن فوج اور دیگر اداروں میں کلیدی عہدوں پر متمکن مرزائیوں اور مرزائی نوازوں کے سبب تحریک کوطاقت کے بل بوتے پر کچل دیاگیا ۔ تاہم 1974ء میں یہ تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور مرزائیوں کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا ۔

یادرہے کہ شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمداقبال نے حکومت انگلستان سے مطالبہ کیا تھا کہ مسلمانوں سے باغیان ختم نبوت کو علاحدہ ملت قرار دیاجائے ۔آپ کے الفاظ یہ تھے ۔ "میری رائے میں حکومت کے لیے بہترین طریق کار یہ ہوگا کہ وہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے علاحدہ جماعت تسلیم کرلے ٗ یہ قادیانیوں کے عقائد کے عین مطابق ہوگااور اس طرح ان کے علاحدہ ہوجانے کے بعد مسلمان ویسی ہی روا داری سے کام لے گا ٗ جیسے وہ باقی مذاہب کے معاملے میں اختیار کرتا ہے ۔"( غازی ختم نبوت ص 138 بحوالہ حرف اقبال ص 129,128) ۔21 جون1936ء کو پنڈت جواہر لال نہرو کے نام ایک خط میں علامہ نے لکھا میں اپنے ذہن میں اس امر کے متعلق کوئی شبہ نہیں پاتا کہ احمدی ٗ اسلام اور ہندوستان کے غدار ہیں ۔ ( علامہ اقبال اور فتنہ قادیانیت ص 139)
.....................
تحریک ختم نبوت 1953ء کے حوالے سے مصنف لکھتے ہیں کہ 1953 ء کی تحریک ختم نبوت سب سے بڑی تحریک تھی لیکن یہ تحریک اس لیے کامیاب نہ ہوسکی کہ کلیدی عہدوں بلکہ فوج اور وزارت خارجہ میں بھی قادیانی پوری طاقت سے چھائے ہوئے تھے ۔اس تحریک کو کچلنے کے لیے پنجاب کی مرزائی نواز حکومت اور فوج نے تحریک کے کارکنوں کا ہر جگہ پر قتل عام کیا اور قائدین کو گرفتار کرکے سخت سزائیں دیں۔ جس سے تحریک وقتی طور پر دب گئی ۔اس تحریک کے محرکات مختصر درج ذیل ہیں - مرزائی مرزا قادیانی کی نبوت کے قائل ہوکر دین اسلام سے مرتد ہوئے لیکن وہ خودکو مسلمان کہلاتے تھے ۔اپنی عبادت گاہوں کو مسجد قرار دیتے اور مرزا قادیانی کی بیویاں خودکو امہات المومنین کہلواتیں جبکہ ابتدائی پیروکار خود کو صحابہ اور مرزا کے دیگر گھر والوں کو اہل بیت کہتے ۔ ربوہ میں متوازی نظام حکومت ٗ مرزائیوں کے عقائد باطلہ کی سرعام تبلیغ اور خلاف اسلام سرگرمیاں ٗ صوبہ بلوچستان کو مرزائی اسٹیٹ بنانے کا منصوبہ ٗ جہانگیر پارک کراچی میں مرزائیوں کا جلسہ ٗ وغیرہ وغیرہ

انہی وجوہات کی بنا پر مسلمانوں میں اشتعال پیدا ہوا ۔1953ء کے اوائل میں مسلم علمائے کرام کی قائم کردہ تنظیم کی مجلس عاملہ نے فیصلہ کیاکہ ایک وفد کی صورت میں وزیر اعظم پاکستان خواجہ ناظم الدین سے ملا جائے اور انہیں قادیانیوں کے بارے میں اپنی عرض گزاشت پیش کی جائیں چنانچہ علمائے کرام (جن میں مولانا عبدالحامد بدایونی ٗ عطا اﷲ شاہ بخاری ٗ سید داؤد غزنوی ٗصاحبزادہ فیض الحسن ٗماسٹر تاج الدین انصاری ٗ شیخ حسام الدین ٗ سید مظفر علی شمسی اور مولانا محسن فقیہ شافعی شامل تھے )خواجہ نا ظم الدین سے ملا اور ان کے سامنے اپنے مطالبات رکھے تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے مطالبات ماننے سے انکار کردیا کہ اگر میں سر ظفر اﷲ خان کو کیبنٹ سے نکال دیتا ہوں تو امریکہ ہم سے ناراض ہو جائے گا جس سے پاکستان کی امداد بند ہوجائے گی ۔وفد کے قائد ابو الحسنات ؒ نے خواجہ ناظم الدین کو جواب دیا ہم تو سمجھتے تھے کہ آپ کا رازق اﷲ تعالی ہے لیکن آج ہمیں معلوم ہوا کہ آپ کو سب کچھ امریکہ دیتا ہے۔ چنانچہ 26 فروری 1953ء کی درمیانی شب جلسہ عام ہوا جس کے بعد علمائے کرام کو گرفتار کر کے لاہور میں کرفیو لگا دیاگیا بلکہ ایک مسجد جس میں علمائے کرام نے پناہ لے رکھی تھی ایک قادیانی فوجی افسر نے اسے ڈائنامیٹ لگا کر اڑانے کی کوشش بھی کی لیکن اﷲ کی تائید و حمایت سے یہ کارروائی ناکام رہی ۔ 8 مارچ کی شام رنگ محل شیرانوالہ گیٹ اور موچی دروازہ سے مسجد تک ریت کی بوریاں چن دی گئیں اور خار دار تاریں بچھادیں گی تاکہ نہ کوئی مسجد کے اندر پہنچ سکے اور نہ ہی واپس جاسکے ۔ مسجد کے شمالی اور مغربی حصے کے مکانات بھی خالی کروا کر ان پر مشین گنیں اور دیگر ہتھیار نصب کردیئے گئے ۔گرفتار علمائے کرام میں سے کچھ کو شاہی قلعہ لے جایا گیا جہاں چند فوجی افسر پہلے سے موجود تھے انہوں نے سوال کیا ۔کیا آپ قادیانیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے ؟ علمائے کرام نے جواب دیا نہیں ۔ انہوں نے پوچھا کیوں ؟ جواب ملا سرکار دو جہاں ﷺ کے نبوت کا دروازہ بند ہوچکا ہے اور قادیانیوں نے ایک بناسپتی نبی پیدا کرلیا ہے ۔ان کا فقہ مسلمانوں سے الگ ٗ ضابطہ اخلاق جدا ٗ سیاسی نظام مختلف ہے ۔فوجی افسر نے پوچھا فقہ کیسے علیحدہ ہے ؟ جواب دیاگیا کہ زانی کو ہم مسلمان حکم قرآنی کے مطابق کوڑوں کی سزا دیتے ہیں لیکن قادیانیوں نے زنا کی سزا دس جوتے مقرر کر رکھی ہے جو زانیہ ٗ زانی کو لگاتی ہے ۔ اس سے قادیانیت میں زنا کا دروازہ بھی کھول گیا ہے۔ یہ جواب سن کر وہ آگ بگولہ ہوگیا اس نے انگریز ی میں گالیاں دینی شروع کردیں۔عالم دین نے پوچھا کیا تم بھی قادیانی ہو تو اس قادیانی فوجی افسر نے جواب دیا پورا ملک ہی قادیانیوں کا ہے ۔پھر گرفتار علمائے کرام کا مقدمہ فوجی عدالت میں چلایاگیا چنانچہ فوجی عدالت کی جانب سے مولانا عبدالستار خان نیازی اور مولانامودودی کو سزائے موت کاحکم سنایا گیا جبکہ کئی علمائے کرام کو عمر قید دی گئی۔مولانا عبدالستار خان نیازی نے موت کی سزا سننے کے بعد گرجدار آواز میں کہا ۔ اس سے بھی زیادہ کوئی سزا آپ کے پاس ہے تو دے دیجیئے۔ میں ناموس مصطفی ﷺ کی خاطر سب کچھ برداشت کرنے کو تیار ہوں ۔ بعد میں کچھ افراد کی سزا کم ہوگئی اور کسی کی قائم رہی ۔

اس اعتبار سے 22 جون 1974ء کا دن مبارک ثابت ہوا جب جمعیت علمائے پاکستان کے رکن اسمبلی مولانا محمد ذاکر (جامعہ محمدیہ جھنگ) نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لیے ایک قرار داد پیش کرنے کا نوٹس دیا ۔ اس قرار داد میں مولانا ذاکر نے تجویز کیا ۔

چونکہ قادیانی اپنے عقائد کے لحاظ سے آئین کے جدول سوم متعلقہ دفعہ 43سے متصادم ہیں۔ اس لیے مسلمان کی تعریف میں نہیں آتے ۔لہذا وہ اسمبلی کی نظرمیں دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ان کے عقائد کا ثبوت ان کی طرف سے شائع ہونے والا لٹریچر ہے۔ یہ فرقہ نہ صرف مذہبی اختلاف کے اعتبار سے الگ حیثیت رکھتا ہے بلکہ سیاسی اور سماجی اعتبار سے بھی یہ فرقہ خودکو سواد اعظم سے الگ تصور کرتا ہے اور واقعات کے لحاظ سے یہ انگریز اسرائیل اور بھارت کا ففتھ کالم ہے ۔ جو پاکستان میں سرگرم عمل ہے اور اس کی وفاداری بھی مشکوک ہے ۔ انہوں نے تقسیم ہند کے بعد سے جان بوجھ کر اپنی جماعت کا ایک حصہ قادیان میں متعین کر رکھا ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر اس سے کام لیا جاسکے۔حال ہی میں ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر جو واقعہ رونما ہوا ۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ فرقہ دراصل پاکستان میں اپنی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کا اظہار مختلف موقعوں پر اس فرقے کے سرگرم کارکن کرچکے ہیں ۔اس فرقے کو معمولی تصور نہ کیاجائے بیشتر اسلامی ممالک بھی اس فرقے پر عدم اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں ۔ ان حالات کی روشنی میں پاکستان اور ملکی سالمیت کا تحفظ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس مرزائی احمد فرقہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دیاجائے اور کلیدی آسامیوں سے انہیں الگ کیاجائے اور ربوہ کے دروازے ساری قوم کے لیے کھول دیئے جائیں ۔ قومی اسمبلی نے 30 جون 1974ء کے اجلاس میں قادیانی مسئلے پر غور شروع کیا اور تمام اراکین اسمبلی پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی اور یہ طے پایا کہ اس خصوصی کمیٹی کی تمام کارروائی خفیہ رکھی جائے گی ۔

30 جون کے اجلاس میں ایک قرار داد اور ایک تحریک پیش کی گئی ۔پہلی تحریک وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے پیش کی جس میں قادیانی مسئلہ پر غور کے لیے سفارش کی گئی ۔ وزیر قانون کی جانب سے پیش کردہ تحریک کا متن حسب ذیل ہے ۔"یہ ایوان سارے ایوان پر مشتمل ایک خصوصی کمیٹی قائم کرتا ہے جس میں تقریریں کرنے کا حق رکھنے والے اور دوسرے ارکان بھی شامل ہیں اور جس کے چیئر مین اس ایوان کے سپیکر ہوں گے اور یہ خصوصی کمیٹی حسب ذیل فرائض سرانجام دے گی ۔1"۔ ان لوگوں کی حیثیت متعین کی جائے جو آنحضور ﷺ کی ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتے ۔ 2 ۔اس سلسلے میں کمیٹی کی پیش کردہ تجاویز مشوروں اور قرار دادوں پر اس معینہ مدت کے اندر غور و خوض مکمل کرلیاجائے جس کا تعین کمیٹی کرے گی ۔ 3۔ اس غور و خوض کے نتیجے میں شہادتیں قلم بند کرنے اور دستاویزات کا مطالعہ کرنے کے بعد کمیٹی اپنی سفارشات ایوان میں پیش کرے گی ۔ وزیر قانون کی تحریک کے مطابق متذکرہ خصوصی کمیٹی کاکورم چالیس ممبران مقرر کیا گیا جن میں سے دس ممبر حزب اختلاف کے ارکان ہوں گے ۔

اس کے بعد دوسری قرارداد جمعیت علماء پاکستان کے پارلیمانی لیڈر مولانا شاہ احمد نورانی نے پیش کی ۔بعدا زاں چھ ارکان اسمبلی پر مشتمل ایک رہبر کمیٹی تشکیل دی گئی اس کمیٹی نے وزیر قانون کے ساتھ مل کر قرار داد ختم نبوت تیار کی جو 7 ستمبر 1974ء کو منظوری کے لیے پیش کی گئی ۔اس قرار داد میں چندشقیں شامل تھیں ۔

الف) پاکستان کے آئین میں حسب ذیل ترمیم کی جائے ۔

اول ۔ دفعہ (3)106 میں قادیانی جماعت اور لاہور جماعت کے اشخاص (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ) کا ذکر کیاجائے ۔ دوم ۔ دفعہ 260 میں ایک نئی شق کے ذریعے غیر مسلم کی تعریف کی جائے مذکورہ بالا سفارشات کے نفاذ کے لیے خصوصی کمیٹی کی طرف سے متفقہ طور پر منظور شدہ مسودہ قانون منسلک ہے ۔
(ب)کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 295 الف میں حسب ذیل تشریح درج کی جائے ۔
تشریح کوئی مسلمان جو آئین کی دفعہ 260 کی شق (3)کی تصریحات کے مطابق حضرت محمد ﷺ کے خاتم النبین ہونے کے تصور کے خلاف عقیدہ رکھے یا عمل یا تبلیغ کرے وہ دفعہ ہذا کے تحت مستوجب سزا ہوگا ۔
(ج)کہ متعلقہ قوانین مثلا قومی رجسٹریشن ایکٹ 1973ء اور انتخابی فہرستوں کے قواعد 1974ء میں منتخبہ قانونی اور ضابطہ کی ترمیمات کی جائیں ۔
(ر)کہ پاکستان کے تمام شہریوں خواہ وہ کسی بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ٗ کے جان و مال ٗ آزادی ٗعزت اور بنیادی حقوق کا پوری طرح تحفظ اور دفاع کیاجائے گا۔
دستخط ۔ عبدالحفیظ پیرزادہ ۔ مولوی مفتی محمود ۔ مولانا شاہ احمدنورانی صدیقی ۔ پروفیسر غفور احمد ۔ غلام فاروق ۔ چودھری ظہور الہی ۔ سردار مولا بخش سومرو۔
..........................
ختم نبوت کی تحریکات اور جدوجہد کے حوالے سے یہ کتاب اس قدر تحقیق اور محنت کے ساتھ مرتب کی گئی ہے کہ مصنف محمد ثاقب رضا قادری کو داد دیئے بغیر نہیں رہا جاسکتا ۔جو کو اہتمام کے ساتھ شائع کرنے کا کارنامہ جناب مقصود احمد نے نہایت خوبصورتی سے انجام دیا۔ 928 صفحات اس ضخیم کتاب کی قیمت صرف ایک ہزار روپے ہے ۔یہ کتاب دارالنعمان ٗ دکان نمبر 4 ہادیہ حلیمہ سنٹر ٗ غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور فون نمبر 042-37228075 موبائل نمبر 0331-1206301 اور ای میل [email protected]پر رابطہ کرکے منگوائی جاسکتی ہے ۔ یہ کتاب تحریک ختم نبوت میں دلچسپی رکھنے اور قادیانیت کی سرگرمیوں کے بار ے میں جانکاری حاصل کرنے والوں کے لیے بہترین دستاویز ہے جو لائبریریوں میں بھی ضرورموجود ہونی چاہیئے ۔
ء

Muhammad Aslam Lodhi
About the Author: Muhammad Aslam Lodhi Read More Articles by Muhammad Aslam Lodhi: 802 Articles with 784464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.