جب موسی علیہ السّلام نے سامری سے پوچھا کہ تجھے کس نے اس
بات پر آمادہ کیا کہ تو ایک بچھڑا بنائے جو لوگوں سے باتیں کرے اور ان کو
ان کی قسمت کا حال بتائے ان کو یہ بھی بتائے کہ انھوں آج کیا کیا کھایا ہے
ان کے دل میں آج کیا ہے کہ وہ کیا کیا سپنے دل میں لیے پھر رہے ہیں تو
سامری نے کہا کہ مجھے شیطان نے یہ کام کرنے پر ایسے اکسایا کہ میرے لیے یہ
کام مزیّن بنا دیا تھا اس نے مجھے جادو کی تعلیم دی کہ ایسے کرو گے تو
بچھڑا لوگوں سے باتیں کرے گا اور ان کو ان کے دلوں کا حال بتائے گا تو موسی
علیہ السلام نے اس کو بددعا دی کہ تو ایسا ہو جائے کہ جو کوئی بھی تیرے
قریب آئے تم اسے کہو کہ مجھے چھونا مت میرے قریب نا آنا تو ایسا ہی ہوا کہ
وہ ایسا پاگل ہوا کہ جو کوئی بھی اس کے قریب آتا اس سے وہ ایسی بدتمیزی
کرتا کہ وہ اس سے نفرت کرتے ہوئے چلا جاتا اس طرح سے وہ بھوکا رہ رہ کر
بھٹک بھٹک کر رل رل کر مرگیا -
قارئین محترم : آپ لوگوں نے بچھڑے کی پوجا کا واقعہ تو قرآن میں پڑھا ہی
ہوگا یا کسی عالم دین سے سنا تو ہوگا یا گھر کے یا رشتے داروں کے بڑے
بوڑھوں سے سنا ہوگا کہ کس طرح سے وہ قوم جو برسوں تک فرعون اور اس کی قوم
کے ظلموں کا نشانہ بنتے رہے -
اور اللہ تعالی نے موسی علیہ السلام کے ذریعہ سے ان کی مدد کی اور ان فرعون
اور اس کی قوم سے نجات دی اور ان کے لیے پانی میں راستے بنائے تاکہ وہ
بحفاظت پار نکالا اور فرعون اس کی قوم کو سمندر میں ڈبو دیا اور ان کو غرق
کر دیا فرعون بھی اس وقت جہالت کا بادشاہ تھا اس نے اپنی حکومت کو مضبوط
رکھنے کے لیے ساحروں کی فوج تیار کر رکھی تھی وہ روزبروز نت نئے جادوئی
تجربات کرتے تھے اور سامری نے یہ سب باتیں دیکھ رکھی تھیں فرعون اور اس کی
قوم کا بنی اسرائیل پرظلم ان سے زبردستی گھروں میں کھیتوں میں کام کرانا
مال مویشیوں کو چارہ ڈلوانا اور ان کی بے عزّتی کرنا اور ان کے بچوں کو مار
ڈالنا اور بچیوں کو زندہ رکھنا اپنی لونڈیاں بنانے کے لیے فرعون کی جہالت
کا اس بات سے اندازہ لگا لینا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو سب سے بڑا رب کہلواتا
تھا اور اپنی عبادت کرواتا تھا اور اس کے دربار میں بڑے دانشور موجود رہتے
تھے جو اس کے سب سے بڑا رب ہونے کے بڑے بڑے دلائل رکھتے تھے اور جو اس کو
سب سے بڑا رب نہیں مانتا تھا اس کو تڑپا تڑپا کر مار دیا جاتا تھا اتنے
ظلموں میں رہے تھے بنی اسرائیل والے تو شیطان نے سامری کو بہکا دیا اور اس
کے لیے جادو گر بننا مزیّن کر دیا تھا نا جانے کیا کیا سپنے دکھائے ہوں گے
شیطان لعین نے سامری کو کہ تم اس کے ذریعے بادشاہ بن جاو گے سب لوگ موسٰی
علیہ السّلام کو چھوڑ کر تمھاری پیروی کرنے لگیں گے اور تم بادشاہ بن جاو
گے -
اور ایسا ہی ہوا کہ موسیٰ علیہ السلام کو 30 دنوں کی بجائے 40 دن لگ گئے
اور قوم کے اکثر لوگ سامری کے پیچھے لگ کر سونے کے بچھڑے کی پوجا کرنے لگے
جب موسیٰ علیہ السّلام واپس آئے تو قوم کو دیکھا کہ لوگ مشرک ہو چکے ہیں تو
اللہ تعالیٰ نے پہاڑ کو ان پر گھڑا کر دیا کہ اگر تم لوگوں نے موسیٰ علیہ
السّلام کو دکھ دیا اور توبہ نا کی تو اللہ تمھیں اس پہاڑ کے نیچے پیس دے
گا اور بنی اسرائل کے سرداروں نے جہوں نے اللہ کی تجلّی کو دیکھا جو کوہ
طور پر پڑی تھی انہوں نے بھی موسیٰ علیہ السّلام کی گواہی دی کہ واقعی یہ
اللہ کے سچّے پیغمبر ہیں ان کی نافرمانی سے ہمیشہ ہمیشہ کی جہنّم تمھارا
مقدّر بن جائے گی تو قوم نے توبہ کی اور کئی مشرکوں کو قتل کیا گیا تو اللہ
نے ان کی توبہ قبول کر لی -
آج کے جدید دور میں سکولوں میں اسی جہالت کی تعلیم ایسے دی جاتی ہے کہ کسی
کو معلوم نا ہونے دیا جائے کہ ہمیں جادو سکھایا جارہا ہے تاکہ جب جاہلوں کی
اکثریت ہو جائے گی تو حکومت ہماری ہو جائے گی یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ
آج کل کے جادو گر کہتے ہیں کہ جو کام سامری نہیں کر سکا تھا ہم کریں گے
کیوں کہ شیطان کے پاس آج بھی اس سے بھی کہیں زیادہ جادو موجود ہیں جو اس
وقت تھے کہ کس تیز رفتاری سے اس نے قوم کے اکثر و بیش تر لوگوں کو بے دین
بنا دیا تھا -
بلکل ایسے آج کے دور میں ہر فرد کو مدّنظر رکھ کر گمراہ کیا جارہا ہے اور
جاہل بنایا جارہا ہے کیوں کہ جادو کی تعلیم حاصل کرنا بہت بڑی جہالت ہے اس
جہالت کا خاتمہ کرنا سب مسلمانوں پر فرض ہے اور سب مسلمانوں کو اس بات میں
الجھا دیا گیا ہے کہ وہ وقت آنے والا ہے کہ امام مہدی علیہ السّلام یا رضی
اللہ تعالیٰ عنہ آئیں گے اور سب ٹھیک کر دیں گے اس طرح سے شیطان لوگوں کے
لیے جہالت کو مزیّن کر دیتا ہے آج کے دور میں کوئی بھی شخص مرد یا عورت یہ
بات ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں
جہالت کی تعلیم دی جارہی ہے اور جادو سکھایا جاتا ہے اور گمراہی کی تعلیم
دی جاتی ہے استاد بچّوں کو یہ تک سکھاتے ہیں کہ جب استاد کلاس میں آتا ہے
تو تمام کلاس ادب سے گھڑی ہوجاتی ہے تو یہ قیام ہو جاتا ہے اسلام کے مطابق
تو قیام نماز کا اہم حصّہ ہے تو اس طرح سے ساری کلاس اسلام کے مطابق تو
مشرک گئی ہے اب اسلام توّہم پرستی والا اور بیک ورڈ مذہب ہوا یا نہیں اس
طرح سے اسلام کے خلاف شک کا معصوم ذہنوں میں بیج بو دیا جاتا ہے اب رہے
مدرسے تو ان میں بھی سکول کی تعلیم کا لازمی ہونا شرط بنا دیا گیا ہے کہ
بچّے کو ہم اس لیے داخل کریں گے کہ وہ کم از کم سکول کی پانچ آٹھ یا دس
کلاسیں پڑھا ہوا ہو
میری اس گفتگو سے کئی سارے سوالات سامنے آتے ہیں کہ سکولوں کالجوں اور
یونیورسٹیوں میں پڑھنا جادو کیسے ہے جہالت کیسے ہے اس معاملے میں میری بہت
سارے اساتذہ سے گفتگوئیں ہوئی ہیں جس سے ان کو پتا چل گیا کہ یہ بندہ تو
انگریزوں اور دنیا کے دیگر کافروں کی سازشوں کو سمجھ گیا ہے اسی وجہ سے
میرے ساتھ ظلم کا نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور جب میں یہ باتیں کھل
کھلا کر لوگوں میں بیان کرتا ہوں تو میرے بھائی بہنیں بیوی بچّے عزیز رشتے
داروں کے ذریعہ سے مجھے پاگل خانے میں بھیج دیا جاتا ہے وہاں مجھ پر ٹارچر
کیا جاتا ہے کہ اگر تم انگریزوں کے ہاتھ چڑھ گئے تو وہ تمھیں اس قدر ٹارچر
کریں گے تم سوچ بھی نہیں سکتے ہو کہ تم نے ہماری اتنی مہنگی پالیسیوں کو
ناکام کرنا چاہتے ہو جس کے ہم نے لاکھوں کروڑوں ڈالر دے رکھّے ہیں
یہ ہمارا کاروبار ہے جو ہم نے برسوں کی نسل در نسل محنتوں سے دنیا بھر میں
چلایا ہے یہ ایک الگ موضوع ہے اس پر ہم بعد میں بحث کریں گے جہاں تک سوال
ہے میری کیا کیا گفتگوئیں ہوئیں ہیں ڈاکٹروں سے پروفیسروں سے استاذوں سے تو
سیدھی اور سادی بات یہ ہے کہ جب میں اسلام کی حقانیت کے دلائل دیتا ہوں تو
مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ اسی وجہ سے بنی اسرائیل کے پیغمبروں کو قتل کیا
جاتا تھا جو تمھارے اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ اے بنی اسرائیل والوں تم
وہ وقت یاد کرو کہ تم نے مراد تمھارے آباواجداد نے کتنے ہی پیغمبروں کو قتل
کیا تھا تم بھی وہی باتیں کرتے ہو اس طرح سے میں اکثر سوچتا رہ جاتا ہوں کہ
شیطان نے جہالت پھیلانے والوں کو کتنا گمراہ کر دیا ہے کہ اللہ کے دین کی
تبلیغ کو یہ اپنی پالیسیوں کی ناکامی قرار دیتے ہیں اللہ پناہ جہالت کی
تعلیم کے شر سے آمین --------------------- جاری ہے
|