زندگی کا اصول

آج سے چند ماہ قبل میں نے موبائل پر لڈو سٹار گیم انسٹال کی اور باتھ روم سے لے کر بیڈ تک، ڈائننگ ٹیبل سے لے کر ورک ٹیبل تک، جب بھی فارغ وقت ملتا، لڈو کھیلنا شروع کردیتا۔
اس گیم کی کرنسی کوائنز ہیں اور گیم کھیلنے کیلئے ان کی مخصوص تعداد کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ جب آپ یہ گیم انسٹال کرتے ہیں تو اتنے کوائنز لوڈڈ ملتے ہیں کہ آپ گیمز کھیلنا شروع کردیں اور پھر جوں جوں آپ جیتتے جاتے ہیں، سکوں کی تعداد بڑھتی جاتی ہے۔
شروع شروع میں تو مجھے جیت ہار سے زیادہ گیم کھیلنے میں دلچسپی ہوا کرتی تھی، چنانچہ میں گیمز ہارتا زیادہ اور جیتتا کم، جس سے میرے پاس موجود سکے کم ہوتے گئے۔ اس وقت میرے لئے یہ گیم ایک شغل ہوا کرتا تھا اور مجھے جیتنے سے زیادہ مخالف کی گوٹیاں مار کر یا اسے تنگ کرنے کا مزہ آتا تھا۔
پھر یوں ہوا کہ میرے پاس سکوں کی تعداد اتنی کم ہوگئی کہ مجھے مزید گیم کھیلنے کیلئے یا تو یہ سکے خریدنے پڑنے تھے یا پھر ایپ کے اندر ایک ویڈیو کلپ کو دو منٹ تک واچ کرنا تھا جس سے مجھے کچھ سکے مل جاتے۔ یہ ویڈیو ایک پیڈ کانٹینٹ تھا جس کو دیکھنے سے لڈو سٹار کو پیسے ملتے ہیں۔
بڑی مشکل سے کچھ سکے اکٹھے ہوئے تو میں نے سوچا کہ اب سنجیدگی کے ساتھ ان میں اضافے کا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ میں نے لڈو گیم جیت کی نیت سے کھیلنا شروع کردیں۔ ہر گیم کھیلتے وقت نروس ہوتا، ہر چال چلنے سے پہلے کئی دفعہ سوچتا، جب گیم آخری لمحات میں داخل ہوتی تو ہاتھ پاؤں پھولنا شروع ہوجاتے کہ کہیں ہار ہی نہ جاؤں۔
ان دنوں میں غالباً 500 یا 1000 سکوں کی بازی لگایا کرتا تھا اور جیت کی شکل میں یہ سکے مجھے مل جاتے جبکہ ہارنے پر یہ میرے اکاؤنٹ سے منفی ہوجاتے۔
پھر آہستہ آہستہ مجھے جیتنے کی ٹیکنیک آتی گئی۔ اب میری جیت کا تناسب بڑھنا شروع ہوگیا،سکوں کی تعداد چند سو سے بڑھ کر ہزاروں میں اور پھر ایک لاکھ ہوگئی۔
پھر ایک دن میں نے سوچا کہ رسک لیا جائے اور بڑی بازی لگائی جائے۔ میں نے 50 ہزار سکوں کی بازی لگائی اور جیت گیا جس سے میرے اعتماد میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔
پھر میں نے بڑی بازیاں لگانی شروع کردیں۔ ایک دن آیا جب میں نے دل بڑا کرکے ڈھائی لاکھ سکوں کی بازی لگائی اور وہ بھی جیت گیا۔ اب میرے پاس دس لاکھ سکے ہوچکے تھے۔ اب میں 500، 1000 یا 10 ہزار کی بازیاں کھیلنے والوں میں سے نہیں رہا تھا۔ اب میں بڑی بڑی بازیاں کھیلنا شروع ہوگیا۔
ہار اور جیت دونوں ملتی گئیں لیکن چونکہ میں رسک بڑے لیتا تھا، اس لئے جیت کا تناسب بھی بڑا ہوتا گیا۔
آج کل میرے پاس کئی بلین کوائنز موجود ہیں۔ لڈو میں اب بھی کھیلتا ہوں لیکن وہ پہلے جیسا جوش نہیں رہا۔ اب میری ہر بازی 10 ملین یعنی ایک کروڑ سکوں کی ہوتی ہے۔ اب گیم کھیلنے کے دوران نہ تو ہاتھ پاؤں پھولتے ہیں اور نہ ہی سانسوں کی ترتیب آگے پیچھے ہوتی ہے۔
اب گیم جیتنے پر نہ تو بے انتہا خوشی ہوتی ہے اور نہ ہی ہارنے پر افسوس۔ کئی دفعہ تو میں خود ہی گیم چھوڑ کر چلا جاتا ہوں کیونکہ سامنے والا اپنی بازی چلنے میں کچھ دیر لگا دیتا ہے۔
لڈو سٹار کا یہ اصول زندگی پر پوری طرح سے اپلائی ہوتا ہے۔
جب تک آپ کے پاس وسائل اور پیسے کم ہوتے ہیں، آپ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو بھرپور انجوائے کرتے ہیں۔ اگر آپ اپنا فوکس وسائل میں اضافے کی بجائے خوشیوں کو انجوائے کرنے میں صرف کریں تو آپ کے پاس وسائل تو نہیں بڑھیں گے لیکن زندگی بڑی بھرپور گزرے گی۔
وسائل بڑھانے ہیں تو اکنامکس کے اصول کے مطابق بڑا رسک لینا پڑے گا جیسے میں نے لیا اور پھر میرے پاس کوائنز کی تعداد اربوں میں چلی گئی۔
لیکن جب وسائل میں اضافہ ہوجائے تو زندگی بور ہونا شروع ہوجاتی ہے، پھر وہ چھوٹے چھوٹے ایونٹس بڑی بڑٰی خوشیاں نہیں دیتے۔ چھوٹی سی خوشی کیلئے بھی آپ کو کوئی بہت بڑے ایونٹ کا انتظار کرنا پڑتا ہے اور پھر بھی کوئی گارنٹی نہیں کہ آپ کی زندگی میں اسی طرح کا جوش واپس آئے گا جو کم وسائل میں دستیاب خوشیاں دیا کرتی تھیں۔
انسان کا سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ اسے یہ پتہ لگ جائے کہ اسے زندگی میں کتنے وسائل چاہئیں جن سے وہ بھرپور خوشیاں حاصل کرسکے۔ اگر آپ کو یہ پتہ ہے تو پھر فوکس اتنے وسائل کو حاصل کرنے پر ہی رکھیں جن سے آپ کو مطلوبہ خوشیاں مل سکیں، زیادہ کی طرف جائیں گے تو خواری ہی ملے گی

Muhammad Shoaib Tanoli
About the Author: Muhammad Shoaib Tanoli Read More Articles by Muhammad Shoaib Tanoli: 67 Articles with 109951 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.