دوست شناسی سے پہلے دشمن شناسی ضروری ہے، کسی خالی پلاٹ
پر پڑے ہوےکچرے کے ڈھیر کواٹھائے بغیر وہاں پر دلکش عمارت تعمیر نہیں کی جا
سکتی۔دشمنوں کی شناخت کے بغیر دوستوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اگر
دشمنوں کی شناخت نہیں ہوگی تو دوستوں کی صفوں میں جا بجا دشمن گھس جائیں گے۔
ہم بے شک سارے بلوچوں کو ملک دشمن کہہ کر جیلوں میں ڈال دیں، سارے پختونوں
کو غدار کہہ کر پابندِ سلاسل کر دیں، سارے سندھیوں کو علیحدگی پسند کہہ کر
ٹارچر سیلوں میں جھونک دیں، سارے پنجابیوں پر عدمِ اعتماد کر کے اُنہیں
پانچوں دریاوں میں دریا بُرد کر دیں تو اس کے باوجود اس مُلک میں دہشت گردی
اور شدت پسندی ختم نہیں ہو گی۔
اگر ہم واقعتاً اس ملک سے شدت پسندی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں
سنجیدگی سے یہ سوچنا پڑے گاکہ آخر ہماری نئی نسل شدت پسندوں کی باتوں میں
کیسے آجاتی ہے!؟، ہمارے دینی مدارس اور کالجز کے طالب علم طالبان، القاعدہ
اور داعش کے نظریات سے کیسے متاثر ہوجاتےہیں!؟
ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ اس وقت مسلک وہابیت اور مکتب سلفی کے مرکز سعودی
عرب میں کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، داعش، القاعدہ ، طالبان اور خود
کُش بمباروں کا کوئی کیمپ کیوں نہیں!؟ صرف یہی نہیں بلکہ ہمارے لئے یہ بھی
لمحہ فکریہ ہے کہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں دیوبندی مکتب کا مرکز
دارالعلوم دیوبند موجود ہے، پورے ہندوستان میں بھی کوئی سپاہِ صحابہ، لشکرِ
جھنگوی، داعش، القاعدہ ، طالبان اور خود کُش بمباروں کا کوئی کیمپ کیوں
نہیں!؟
کیا ہم نے کبھی سوچا کہ سعودی عرب یا ہندوستان میں دیوبندی اور وہابی مسالک
کے لوگ کبھی بھی اسلحہ نہیں اٹھاتے ! کیوں آخر کیوں!؟ اسلحہ نہ اٹھانے کی
صرف یہی وجہ ہے کہ ان کی سعودی عرب اور ہندوستان کے ساتھ ایک ہم آہنگی اور
انڈر سٹینڈنگ ہے جو پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ بالکل نہیں۔
پاکستان اور پاکستانی عوام کے ساتھ ہم آہنگی نہ ہونے کی وجہ صاف ظاہر ہے
کہ یہ مکاتب اور تنظیمیں پاکستان بننے کے ہی خلاف تھے، سو پاکستان بن تو
گیا لیکن ان کی مخالفت اپنی جگہ ایک نئے روپ میں ظاہر ہوگئی ہے۔
اب یہ تو ہم جانتے ہی ہیں کہ جیسا بیج بویا جاتا ہے ویسی ہی فصل تیار ہوتی
ہے، اگر ہم اپنی نوجوان نسل کی فصل سے نالاں ہیں تو ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ
ہم اپنی نوجوان نسل کے ذہنوں میں کیا ایسا کیا بیج بو رہے ہیں جس کی وجہ سے
شدت پسندوں کی فصل تیار ہو رہی ہے!اور ہماری نوجوان نسل پاکستان کے دشمنوں
کہ آلہ کار بن رہی ہے۔
اس کے لئے ہمیں اپنی درسی کتابوں پر ایک نظر ڈالنی ہوگی۔ہم نے اپنی نئی نسل
کو قیامِ پاکستان کے دشمنو اور مخالفین سے آگاہ ہی نہیں کیا۔ چنانچہ ہمارا
نوجوان بڑی آسانی کے ساتھ پاکستان کے دشمنوں کے لشکروں میں شامل ہوجاتا ہے
اور اپنے ہم وطن پاکستانیوں پر شبخون مارنے لگتا ہے۔
ہمیں سب سے پہلے اس حقیقت سے پردہ اٹھانا ہوگا کہ قیامِ پاکستان سے پہلے
سلفی و دیوبندی تنظیمیں اور مکاتب قیامِ پاکستان کے خلاف تھیں، صرف خلاف ہی
نہیں تھیں بلکہ کانگرس کے ہم قدم اور ہم خیال تھیں، صرف کانگرس کے ہم قدم
اور ہم خیال ہی نہیں تھیں بلکہ انہوں نے قائداعظم کو کافراعظم کہا اور
پاکستان کو کافرستان کہا!
اِن کانگرس نواز تنظیموں اور مکاتب کو ماضی کی طرح آج بھی سعودی عرب اور
ہندوستان کے ساتھ کوئی مشکل نہیں ہے، اُنہیں اگر کوئی مشکل ہے تو آج بھی
صرف اور صرف پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ہے۔
جولوگ جس طرح قیامِ پاکستان سے پہلے قائداعظم کو کافراعظم کہتے تھے اور
پاکستان کو کافرستان یہ اسی طرح پاکستان بننے کے بعد بھی اپنے موقف پر قائم
ہیں ، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قائداعظم کی ریذیڈنسی کو دھماکوں سے اڑایا
جاتا ہے ، آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں کو خاک و خوں میں غلطاں کیا جاتا
ہے اور پاک فوج کو ناپاک اور پلید فوج کہاجاتا ہے۔
آج ضروری ہے کہ پاکستان کے نصابِ تعلیم میں خصوصاً تاریخِ پاکستان اور
مطالعہ پاکستان میں نئی نسل کو اُن شخصیات، مدارس، مکاتب اور تنظیموں سے
آگاہ کیا جائے جو روزِ اوّل سے ہی قیامِ پاکستان کے مخالف ہیں اور آج بھی
پاکستان کے جوانوں کو دہشت گردی کی تربیت دینے میں مصروف ہیں۔
یہ لوگ ماضی میں بھی کانگرس اور ہندوستان کے دوست اور خیرخواہ تھے اور آج
بھی ہندوستان میں یہ ایک اینٹ تک نہیں اکھاڑتے جبکہ آئے روز پاکستان میں
دہشت گردی اور شدت پسندی کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔ٹی ٹی پی کے متعدد دہشت
گردوں اور کلبھوشن یادو کے اعترافات اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کرتے ہیں کہ
پاکستان کے دشمن در اصل ہندوستان نواز مکاتب اور تنظیموں کے ہی لوگ ہیں۔
چنانچہ یہ ہمارے پالسی میکرز اور تھنک ٹینکس کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان
کے تعلیمی اداروں کے نصاب میں ان مکاتب اور تنظیموں اور شخصیات کا تعارف
کروائیں جو نظریاتی طور پرپاکستان کے دشمن ہیں۔ ہمارے پالیسی میکرز اور
تھنک ٹینکس کو اس تلخ حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ دہشت گردی کی شکل میں
پاکستان کے خلاف مکتبی اور نظریاتی جنگ لڑی جا رہی ہے۔
اگر ہم اپنی نئی نسل کو قائداعظم اور پاکستان کے دشمن مکاتب اور شخصیات سے
آگاہ نہیں کریں گے تو وہ مسلسل پاکستان کے دشمنوں کے آلہ کار بنتے رہیں
گے۔
سی ٹی ڈی صوبہ سندھ کے مطابق اس وقت مدارس کے شدت پسند طلبہ کی جگہ جامعات
کے اعلی تعلیم یافتہ طالبعلم لے رہے ہیں۔
ایس پی راجہ عمر خطاب کے مطابق پہلے جو مدارس سے پڑھتے تھے وہ افغانستان یا
وزیرستان جا کر جہاد کرتے تھے لیکن اب یہ نئی کھیپ جامعات سے تعلیم یافتہ
ہے اور انھوں نے یہ جنگ لڑنی ہے۔انہوں نے کراچی میں داعش کی موجود گی کی
نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ڈیفنس، گلشن اقبال، گلستان جوہر اور ناظم آباد
میں داعش سے متاثر لوگ موجود ہیں اور شدت پسندی اب مدرسے سے یونیورسٹی تک
آگئی ہے۔
کراچی میں سیاسی جرائم اور جہاد پر ناول کے مصنف اور محکم انسدادِ دہشت
گردی کے ایس ایس پی عمر شاہد حامد کا کہنا تھا جامعات کا طالبعلم مدارس کی
جگہ لے رہا ہے۔ یہ جو آن لائن نسل ہے اس کے پاس نظریات و دلائل ہیں یہ
قبائلی علاقے کے مدرسے کے بچے نہیں جو کہیں جاکر خودکش بم حملے کردیں۔
ایس ایس پی راجہ عمر خطاب نے بتایا ایک لڑکے سعد عزیز کی ایک لڑکی سے دوستی
تھی وہ اس کے مطالبے پر پورا نہیں اترا اور اس نے مذہب کا رخ کر لیا، اسکی
خواہش پر والدین نے عمرے پر بھیج دیا۔ واپسی پر اس نے قرآن کی ترجمے کیساتھ
کلاس لینا شروع کی لیکن اس کو تسلی نہیں ہوئی،اس کے بعد اسکی ایک جگہ انٹرن
شپ ہوئی جہاں اسے ایک لڑکا ملا جو اسے القاعدہ کی ایک شخصیت کے پاس لے گیا
اور اس کے دماغ میں یہ بیٹھ گیا کہ اسوقت تک خلافت نہیں آئے گی جب تک
عسکریت نہیں آئے گی۔
انکا کہنا تھا ایک جامعہ کا استاد نیپا چورنگی کے قریب گھریلو ساختہ بم
بناتا تھا اور اس نے یہ تربیت اپنے بیٹے اور بھتیجے کو بھی دی تھی اس وقت
وہ تینوں مفرور اور انتہائی مطلوب ہیں، اسی طرح ایک استاد یونیورسٹی کی
پارکنگ میں القاعدہ کو فنڈ دیتا تھا جس کو گرفتار کیا گیا۔
ایس پی مظہر مشوانی نے بتایا انھوں نے کلفٹن سے ایک یونیورسٹی کے استاد کو
گرفتار کیا جو کمپیوٹر سائنس کا مضمون پڑھاتا تھا، اسکا تعلق حزب التحریر
سے تھا اور لیکچر کیساتھ ساتھ وہ دس منٹ اپنی تبلیغ کرتا، اس کے علاوہ
نمازِ جمعہ کے بعد مساجد کے باہر پمفلٹ تقسیم کیا کرتا تھا لیکن یونیورسٹی
انتظامیہ نے کبھی اس کا نوٹس نہیں لیا ۔
اسی طرح باوثوق ذرائع کے مطابق ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ٹاپ رینکنگ میں
موجود اسلام آباد کی تین اہم یونیورسٹیوں میں داعش کے منظم نیٹ ورک کا
انکشاف ہوا ہے، غیر ملکی طلبہ یونیورسٹیوں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور
رہائشی علاقوں میں بنائے گئے ہاسٹلز میں رہائش پذیر ہیں۔
یونیورسٹیوں میں دہشت گردوں کے تبلیغی نیٹ ورکس کے یہ چند نمونے ہیں ، اگر
ہم نے اپنے تعلیمی اداروں کو دہشت گردی سے پاک کرنا ہے تو پھر ہمیں اپنے
نصابِ تعلیم پر فوری توجہ دینا ہوگی۔
ایک خوشحال اور ترقی یافتہ پاکستان ہم سب کا خواب ہے ، لیکن کسی خالی پلاٹ
پر پڑے ہوےکچرے کے ڈھیر کواٹھائے بغیر وہاں پر دلکش عمارت تعمیر نہیں کی جا
سکتی۔ جب تک ہماری نوجوان نسل دشمن شناس نہیں بن جاتی تب تک پاکستان سے
دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ محکمہ تعلیم کے پالیسی میکرز کو چاہیے کہ وہ
ملک دشمن عناصر کی شناخت کے سلسلے میں نصابِ تعلیم کے ذریعے طالب علموں کی
درست سمت میں رہنمائی کریں۔ |