یہ بات ہم سب کو اچھی طرح معلوم ہے کہ شہر قائد جیسے
روشنیوں اور پر رونق شہر میں دن بہ دن اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں اضافہ
ہوتا چلا جارہا ہے۔ اور اب یہ اسٹریٹ کرائم بہت ہی عام طور پر ہوتا ہوا
واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ اس کو یوں کہا جائے کہ ایک نا معلوم فرد
چھلاوے کی طرح آتا ہے اور عوام کی اشیاء لوٹ کر دھویں کی طرح غائب ہو جاتا
ہے یہاں صرف شہر قائد ہی نہیں بلکہ ملک کا کوئی کونہ نہیں جہاں اسٹریٹ
کرائم کی وارداتیں نہ ہوتی ہوں۔ پر ان تمام شہروں میں سب سے زیادہ طور پر
کراچی شہر کا نام آتا ہے، کراچی جسے عوام روشنیوں کا شہر تصور کرتی تھی اور
اب کرائم کا شہر تصور کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔
نہ صرف چوری کی وارداتیں بلکہ اب تو عورتیں بھی اس کھلی فضاء میں سانس لینے
سے گھبراتی ہیں۔ جس کا اندازہ عوام کو بہت اچھے اور نمایاں طریقے سے ہمارے
میڈیا کے بڑے اور چھوٹے چینیلز پر دیکھنے کو ملا ہے کہ ایک نا معلوم چھلاوا
آتا ہے اور عورت کے اوپر پیچھے سے چاقو کا وار کرکے بلا جھجک اوربے خوفی سے
گن سے نکلی ہوئی گولی کی طرح غائب ہوجاتا ہے لیکن کوئی اسے روکنے والا
نہیں۔ پوری حکومت سندھ ایک خاموش تماشائی بنی ہوئی ایک مجسمے کی طرح کھڑی
ہوئی روڈوں پر دکھائی دیتی ہے۔ اور اس چھلاوے کو ڈھونڈنے میں ابھی تک ناکام
رہی ھے۔ پل بھر میں عوام کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ گھر سے نکلنے کے بعد کیا
وہ صحیح سلامت اپنی منزلوں کے راستوں کو اختیار بھی کر پائیں گے یا نہیں۔
کیوں کہ کراچی جیسے شہر میں اسٹریٹ کرائم جیسے مسائل اب اتنے پیچیدہ ہوگئے
ہیں کہ پلک جھپکتے اب آپ کو خود اندازہ نہیں ہوتاکہ آپ کے ساتھ کیا ہوجائے۔
جس شہر میں لوگ راتوں رات کھلے عام گھوما کرتے تھے وہی اب دن دھاڑے
باہرنکلنے سے کانپتے ہیں کیوں کہ کراچی کے لوگوں کے ذہنوں میں عموما یہی
سوال گھوم رہا ہوتا ہے کہ شہر قائد عوام کے لیے پر امن شہر رہا ہے یا نہیں۔
جسکا جواب شاید کسی کے پاس بھی نہیں ہے ، کراچی کی پولیس اور حکومتی افسران
صرف خاموش بت کی طرح کھڑے روڈوں پر تماشے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ نجانے کتنے
بچے، بوڑھے، نوجوان، عورتیں، ان ظالمانہ حادثات سے گزر کی اپنی زندگیوں سے
ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کوئی ہے جو ان حادثات سے جانے والی ان جانوں کی بھر
پائی کر پائے؟ حکومتی نظام صرف انکے محلوں میں سجے انٹیریر اور انکی جانوں
کے گرد گھومتا پھرتا دیکھائی دیتا ہے جو کہ نہایت ہی افسوس کا مقام ہے۔
عوام نے اب حکومت سے کوئی امید لگانا ہی چھوڑ دی ہے، کیوں کہ حکومتی
نمائندے اپنے فرائض سے بے پرواہ ہو کر اپنی زندگیوں میں مصروف رہنے کو
ترجیح دے رہے ہیں۔ اس چیز کا عوام کو حغم کرنا بہت مشکل ظاہر ہوتا ہے، لیکن
آج بھی عوام کی آنکھیں انصاف کی منتظر نظر آتی ہیں کہ کب پاکستان کی حکومت
ان حادثات پر اپنا غور و فکر ظاہر کرے اور ان معملات کو جلد از جلد حل کرے۔
تا کہ ایک بار پھر لوگ شہر قائد میں پر امن ماحول میں اپنے بچوں اور گھر
والوں کے ساتھ بلا خوف گھوم سکیں۔ |