کسی نے خوب کہا کہ میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل
مگر لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا اس شعر کو لکھنے کا مقصد یہ کہ
جس میں چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار فرماتے ہیں کہ مفاد عامہ کے
کیسز تحریک کی شکل میں چلائے جائیں گے لوگ اور وکلاء ساتھ دیں گے تو بہتری
ممکن ہے میں اکیلا کچھ نہیں کرسکتا یہ بات اپنی جگہ بلکل درست ہے کہ بذات
انسان اکیلا کچھ نہیں کرسکتا لیکن یہاں یہ بھی ضروری ہے کہ ایک انسان
انسانیت کی تکلیف اور اس کے دکھ درد کو محسوس کرتا ہے اورسمجھ کر پہل کرتا
ہے تو اﷲ تعالی اس کاحامی و ناصر ہوتا ہے اورپھر خود بخود لوگ اس اکیلے شخص
کی ساتھ ہولیتے ہیں آپ کی جانب سے اہم مسائل کی طرف توجہ دیے جانے پر ان
اقدامات کو لوگ سراہا رہے ہیں اور عوام آپ کے لئے دعا گو ہیں اور اپنی اس
ذمہ داری سے سرخرو ہوں گے عوام کیا چاہتی عوام یہی چاہتی ہے کہ ان کے حقیقی
مسائل کی طرف کو ئی متوجہ ہوں جو کہ آپ اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے انجام
دے رہے ہیں سپریم کورٹ آف پاکستان نے حالیہ دوران عوام کی امنگوں کے مطابق
فیصلے کئے جن میں انسانی زندگی سے کھیلنے والوں کو للکارا گیا گیا گزشتہ
روز سپریم کورٹ رجسٹری میں سمندری آلودگی اور شہروں میں گندے پانی کی
فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں ۴ رکنی لارجر بینچ
میں جسٹس عمر بندیال ، جسٹس فیصل عرب، جسٹس سجاد علی شاہ شامل تھے اس موقع
پر کراچی رجسٹری میں چیف سیکرٹری رضوان میمن، ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضا
زیدی، سیکرٹری محکمہ صحت فضل اﷲ پیچوہو ، ایڈیشنل اٹارنی جنرل سلمان طالب
الدین، ایڈو کیٹ جنرل سندھ ضمیر گھمرو، پراسیکیوٹر شہادت اعوان اور درخواست
گزار شہاب سہتو بھی موجود تھا چیف سیکرٹری سندھ نے رپورٹ پیش کی رپورٹ کے
مطابق کراچی میں ۵۵۰ ملین گیلن پانی یومیہ کینجھر جھیل سے آتا ہے جبکہ
کراچی میں ۱۰۰ ملین گیلن پانی یومیہ حب ڈیم سے آتا ہے اس موقع پر واٹر بورد
کی تیار کردہ وڈیو بھی عدالت میں دکھائی گئی دوران سماعت چیف جسٹس میاں
ثاقب نثار نے کہا معاملہ انسانی زندگیوں کا ہے رات بارہ بجے تک سماعت کرنا
پڑی تو کرینگے انہوں نے کہا کہ واٹر کمیشن نے مسائل کی نشاندہی کی اور
اسباب بھی بتائے لیکن سندھ حکومت نے واٹر کمیشن رپورٹ پر اعتراض نہیں
اٹھایا وزیر اعلی سندھ کو بھی اس لیے بلایا کہ ٹائم فریم دیں۔ چیف جسٹس
میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پانی کی قلت سے واٹر مافیا
مضبوط ہوتی ہے جس پر ایم ڈی واٹر بورڈ نے کہا کہ پانی کی چوری کی مستقل
نگرانی کررہے ہیں جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کام کرنا چاہیں تو مخیر
حضرات بھی مل جائیں گے ایم ڈی واٹر بورڈنے عدالت کو بتایا کہ گندے پانی کی
وجہ زیر زمین لائنوں میں غیر قانونی کنکشن اور لیکچ ہے کینجھر جھیل سے آنے
والا پانی صاف ہے ساڑھے چار ہزار ٹینکر یومیہ چلتے ہیں۔جس میں چیف جسٹس آف
پاکستان سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار جنہوں نے انسانی زندگی سے کھیلنے والوں
کو للکار تے ہوئے کہا کہ عوام کو صاف پانی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے
سندھ حکومت پر واضح کردینا چاہتے ہیں ہمارے پاس توہین عدالت کا اختیار بھی
ہے آئین کے تحت انسانی حقوق کا تحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے اس بات سے انداہ
ہی نہیں یقین جاننا اور سمجھنا ضروری کہ جب ا نسانیت موجود ہے تو ہمیں بلکل
یقین کرلینا چاہیے کہ کوئی تو ہے جو انسانیت کو تڑپتے نہیں دیکھ سکتا لہذا
عوام کی دلی خواہش ہے کہ آئین وقانون کے مطابق فیصلے صادر ہوں اور ملک میں
انصاف کا بول بالا ہواس سے عوام میں بھی قانون کی بالادستی کا شعور اجاگر
ہو نا یقینی ہوتا جائیگا عوام کی نظر بھی صرف اور صرف آپ یعنی عدالت پر لگی
ہوئی ہے اس بات پر ہمارا ایمان ہے کہ معاشرے میں جب انسانیت کا درد رکھنے
والے موجود ہوں تو انہیں اکیلا محسوس نہیں سمجھنا چاہیے کیوں کہ اس کے ساتھ
کارواں خود بخود بن جاتا ہے ہر زمانے میں اچھے اور برے لوگ پائے جاتے رہے
ہیں اور حق اور سچ کی صدائیں بلند کرنے والوں کو تنقید کا بھی سامنا پڑا
مگر وہ اپنے ضمیر کے مطابق انسانی حقوق کے لئے آواز اٹھاتے رہے وہ ہمیشہ
سرخرو ہوئے اس لیے آپ کے جرات مندانہ فیصلے کے پیش نظر یہ کہنا ہے کہ چیف
جسٹس قدم بڑھاؤ انصاف کے متلاشی لوگ ساتھ ساتھ ہیں جس نے خوب کہا وہ شاعر
ہیں مجروح سلطانپوری جن کی ایک غزل جس میں ایک مشہور زمانہ شعر بھی شامل
ہیں پیش خدمت ہے
جب ہوا عرفان تو غم آرام جاں بنتا گیا٭ سوز جاناں دل میں سوزدیگراں بنتاگیا
رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسم چمن٭ دھیرے دھیرے نغمہ دل بھی فغاں بنتا گیا
اب وہ مشہور زمانہ شعر جو وقت پر مقصود جانا میں نے عرض ہے
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر٭ لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اس غزل کے چند اشعار اور جس میں شاعر کہتا ہے
میں تو جب جانوں کہ بھر دے ساغر ہر خاص و عام٭ یوں تو جو آیا وہی پیرمغاں
بنتا گیا
جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایان شوق٭ خار سے گل اور گل سے گلستان بنتا گیا
شرح غم تو مختصر ہوتی گئی اس کے حضور٭ لفظ جو منہ سے نہ نکلا داستاں بنتا
گیا آخر میں شاعر خود کو کہتا ہے
دہر میں مجرح کوئی جاوداں مضموں کہاں٭ میں جسے چھوتا گیا وہ جادواں بنتا
گیا |