ہمارے ایک دوست کی بڑی عجیب عادت ہے ،جب بھی ملتے ہیں
سیاست کی گٹھڑی کھول کر بیٹھ جاتے ہیں۔سیاست دانوں کی الف ، بے ایسے پڑھتے
ہیں محسوس ہوتا ہے بندہ منٹو کے افسانے پڑھ رہاہو۔ہمیں ان کے چٹکلے بڑے
بھاتے ہیں۔کہنے لگے موت ایک ناقابل فہم چیز ہے،اور یہ ہمارے ملک میں تین
طریقوں سے دیکھی اور سمجھی جاسکتی ہے۔طبعی طریقہ سے،اس کے لئے پریویٹ
اسپتال ہی کافی ہیں ۔ایسا لگتا ہے مریض کپڑے تبدیل کرنے جاتاہے ۔گھر کے
کپڑوں میں گیا اور سفید کپڑوں میں لوٹا۔دوسری حادثاتی موت ہے۔یہ ملک میں
عام پائی جاتی ہے۔تیسری وہ ہے جو نسل در نسل سیاست دانوں کے رگ و ریشہ میں
سرایت کر چکی ہے۔وہ ہے کام نہ کرنے کی موت ۔
وہ ہمیں متوجہ پا کر کہنے لگے سال 2017 رخصت ہورہا ہے۔سوچ رہاہوں اسے ماتم
سے وداع کروں، یا آنے والے سال کا جشن مناؤں۔نیشنل ایکشن پلان (نیپ) کی
سالانہ ریپورٹ کہتی ہے کہ ملک میں 2017 دہشت گردی کے واقعات میں27 فیصد کمی
رکارڈ کی گئی۔ 436 دہشت گردی کے واقعات کے ساتھ 2017 ،گزشتہ سال سے بہتر
رہا ۔کئی آپریشن کامیاب ہوئے،اور ہزاروں دہشت گرد وں کو گرفتار کیا گیا ۔حساس
ادروں کے مابین معلومات کے تبادلے کے نتیجے میں 4655 واقعات کو ناکام بنایا
گیا ۔ہم نے کہا محترم! یہ بات درست ہے کہ دہشت گردی کولگام دی گئی ہے،کیوں
کہ اگر پچھلے ڈیڑھ عشرے کوکھنگھالیں تو ہم نے دہشت گردی کو کافی حد تک قابو
کیا ہے۔رینجرز اور حساس اداروں نے ملک دشمن عناصر کا قلع قمع کیا ہے ۔2001
میں 110 دہشت گردی کے واقعات ہوئے تھے۔2006 میں امن دشمنوں نے 1444 مرتبہ
خون کی ہولی کھیلی۔2007 میں 1820 ، اورسال 2008 میں 1575 واقعات رونما
ہوئے۔2009 میں 1938 ، اور 2010 میں 2061 دفعہ دہشت گرد ی کے حملے ہوئے۔سال
2011 میں 1080 حملے ہوئے۔2012 میں 1361 مرتبہ زمین لال ہوئی۔2013 میں 1517
،اور 2014 میں 1616 مرتبہ دہشت گردوں نے ملک و قوم کو خون کے آنسو
دیئے۔2016 ملک میں دہشت گردی میں نمایاں کمی محسوس کی گئی،اور 12 مہینوں
میں 785 واقعات رونما ہوئے،اس طرح سال 2017،436 واقعات سے اچھا رہا۔
گوکہ حکومت کئی طرح کے عالمی و ملکی مسائل میں پھنسی رہی ۔حکمراں جماعت پر
اہم مقدمات کے بھوت منڈلاتے رہے۔مختلف چیلنجزکاسامنا رہا ۔وزیر اعظم کو
ناہل قرار دیا گیا ۔اہم عدالتی فیصلوں کی زد میں حکمراں جماعت رہی۔مگر ملکی
دفاع میں گورنمنٹ نے کوئی کسر نہیں چھوڑی،اوردہشت گردوں کو ہر محاظ پر شکست
فاش کیا ،اور فوج کے تعاون سے ان شاء اﷲ اس جن پر بھی جلدی قابو پالیا جائے
گا۔
ہمارے دوست نے بھی امید بھرا ان شاء اﷲ کہا اور ہمیں دیکھنے لگے ،ایسے جیسے
ان کی آنکھوں میں درد وکرب ہو،قلب میں سوز ہو ۔ہم نے چائے کی پیالی انہیں
تھمائی اور کہا کچھ کہنا چاہ رہے ہیں ؟ دوست نے ہاں کہا اور ایک ٹھنڈی سانس
لے کر بولے : سال میں 12 مہینے ،365 دن اور تقریباََ8760 منٹ ہوتے ہیں۔وقت
جس تیزی سے جا رہا ہے ،کیا اتنا ہی تیزی سے ہم نے دہشت گردی پر گرفت مضبوط
کی ہے۔نہیں بالکل نہیں۔مجھے تو پورا سال لہو لہان نظر آتا ہے۔جنوری 6
سکیورٹی فورسز کے جوانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔فروری سب سے بھاری رہا،6
حملوں میں 60افراد جاں بحق اور122 افراد زخمی ہوئے۔مارچ میں 25 افراد جاں
بحق اور 54 زخمی ہوئے۔اپریل کا مہینہ 27لوگوں کونگل گیا،اور 14 زخمی تاحال
اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔مئی میں دہشت گردی کی نظر ہونے والوں میں 29
شہید اور 35 زخمی ہوئے۔جون میں 86 بے گناہ شہری بے دردی سے شہید اور 115
افراد زخمی کئے گئے۔جولائی میں ہونے والے حملوں میں26افراد زندگی کی بازی
ہار گئے،اور 68 زخمی ہوئے۔اگست بھی دہشت گردی سے نہ بچ سکا اور 23 لوگ
زندگی سے آزاد ،37 زخمی ہوئے۔اکتوبر 18 لوگوں کو لے گیا ،حملوں میں 24زخمی
ہوئے۔نومبر 26شہید اور 21 زخمی ہوئے۔دسمبر بھی 20 شہیدوں اور 73 زخمیوں کے
ساتھ دہشت گردحملوں کی لسٹ میں موجود رہا ۔
ہم نے ہاں میں ہاں ملائی تو انہوں نے آگے کہنا شروع کیا، اس وقت ملک کا
حکمراں طبقہ آپسی جھگڑوں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے ،دشنام درازی پر
اترا ہوا ہے۔سیاست دانوں کو یہ نہیں معلوم کہ دشمن نے پسِ پردہ (CPEC)کو ہی
نشانے پر رکھا ہوا ہے۔اگر ہم حملوں کا محور دیکھیں تو سب سے زیادہ حملے سی
پیک کے تناظر میں نطر آتے ہیں۔بلوچستان 6 حملوں کے ساتھ سرِفہرست ہے۔پھر
لاہور کا نمبرآتا ہے۔سب سے زیادہ حملے سکیورٹی فورسز اور فوجی جوانوں پر
کئے گئے۔فوج جو ملک کا سب سے باوقار ادارہ ہے اپنی مدد آپ کے تحت دشمن کے
سامنے ڈٹا ہوا ہے۔حکومت نے کسی حد تک دہشت گردوں کے لئے زمین تنگ ضرور کی
ہے، مگراصل امتحان ابھی باقی ہے ۔ہمیں مکمل طور پر عالمی دنیاکے سامنے خود
کو منوانا ہوگا ،اور اسلامی دہشت گردی کا طوق نکالنا ہوگا۔
ہمارے دوست نے چائے کی آخری چسکی لی اور اس یقین اور دعا کے ساتھ الوداع کہ
کر چلے گئے کہ آنے ولا سال ملک کے لئے امن لائے۔ |