تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی توجہ دیجیے

سبھی والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اپنی اولاد کی بہترین پرورش کریں اور جب بات تعلیم کی آتی ہے تو والدین اس معاملے میں مزید حساس واقع ہوتے ہیں اور یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دیں اور اس مقصد کیلیے اچھے اسکول کا انتخاب کریں پھر چاہے انہیں اپنی اس کوشش کیلیے اپنی کتنی ہی ضروریات کی قربانی دینی پڑے لیکن وہ اپنی اولاد کے بہترین مستقبل کی امید پر اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے ہیں ۔

نظام تعلیم کی کمزوریوں پر عمومی طور پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور یہ اس مضمون کا موضوع بھی نہیں ہے۔ لیکن جس موضوع پر شائد کوئی بات نہیں کرتا یا کرنا ہی نہیں چاہتا وہ ہمارے تعلیمی اداروں میں 'تربیت' کی ناگفتہ بہ صورتِ حال ہے۔

سبھی والدین اپنے بچوں کے متعلق بہت محتاط ہوتے ہیں اور معاشرے کی اونچ نیچ سے واقف ہونے اور زندگی بھر کا تجربہ ہونے کے سبب اچھے برے کی پہچان رکھتے ہیں اور اپنے بچوں کوحتیٰ المقدور برائیوں اور غلط عادات وغیرہ سےبچانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ بہت سے والدین تو اپنے بچوں کو گلی محلے میں کھیلنے اور دوسرے بچوں سے گھلنے ملنے سے روکتے ہیں کہ بچے غلط عادات یا بری صحبت کا شکار نہ ہوجائیں۔یہاں تک کہ اگر ان کے اپنے رشتہ داروں میں سے بھی کوئی بچہ کسی برائی کا شکار نظر آئے تو والدین بچوں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

لیکن جب اسی بچے کو کسی اسکول وغیرہ میں داخل کرنے کا مرحلہ آئے تو کتنے والدین ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں؟

وہ بچہ کہ جس کو والدین ایک لمحے کے لیے بھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے، اسی بچے کو دن کے کم و بیش آٹھ گھنٹے کے لیے ایک اجنبی ماحول اور اجنبی افراد کے پاس چھوڑ آتے ہیں،صرف اس امید پر کہ ہمارا بچہ اسکول میں کچھ سیکھے گا ۔

لیکن کیا کبھی بھی آپ نے سوچا کہ آپ اپنے بچے کو جس ماحول میں اور جن افراد کے بیچ چھوڑ آتے ہیں وہ خود کیسے ہیں؟ انکا اخلاق، کردار، دین اور عقائد کیسے ہیں؟ کیا وہ اس لائق ہیں کہ آپ اپنی جان سے پیاری اولاد کو آٹھ گھنٹے تو کیا آٹھ منٹ کے لیے بھی ان کے پاس بیٹھنے دیں؟آپ کا بچہ اپنے جن ساتھیوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے کیا وہ اس لائق ہیں کہ آپ اپنے بچے کو اس سے میل جول رکھنے کی اجازت دیں؟ ایک طرف مادر پدر آزاد میڈیا نے معاشرے کو بگاڑنے میں ویسے کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی اور دوسری طرف کولہو کےبیل کی طرح کام کرتے والدین ہیں جنکو فکرِ معاش نے اولاد کی تربیت سے لاپرواہ کر رکھا ہے، ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہمارے تعلیمی ادارے ہی اپنے طور پر معاشرتی بگاڑ کے آگے بند باندھنے کی کوشش کرتے لیکن جب تعلیم ہی کاروباربن چکی ہو توایسی امید رکھنا بیکار ہے۔

جب تعلیم حاصل کرنے کا مقصد ڈگری اور نوکری حاصل کرنا اور تعلیم دینے کا مقصد پیسہ کمانا اور تھوک کے حساب سے سرمایہ دارانہ نظام کیلیے نوکر پیدا کرنا ہو تو دین، اخلاق اور کردار کی طرف توجہ ہی کون دے گا؟

آج کسی بھی تعلیمی ادارے میں استاد کی بھرتی کیلیے اسکی ڈگریوں اور تعلیمی قابلیت کی جانچ پڑتال کے ساتھ کیا اسکے دین،عقائد اخلاق، کردار کو بھی جانچا جاتا ہے ؟ جس استاد کی اپنی دینی اور اخلاقی حالت ہی ناگفتہ بہ ہو وہ نئی نسل کی کیا تربیت کرے گا؟ وہ اپنی تعلیمی قابلیت کی وجہ سے آپکے بچے کوامتحان میں اچھے نمبر تو دلا دے گا لیکن دین، اخلاق اور کردار کے معاملے میں فیل ہی کروائے گا۔

اس لیے بچوں کی تربیت کو اچھے نمبروں اور ڈگری کی خاطر داؤ پر مت لگائیے اور بچوں کواسکول میں داخل کر کے ان کی تربیت کی ذمہ داری سے فرار اختیار کرنے کی بجائے تربیت پر خاص توجہ دیجیے وقتاً فوقتاً بچوں سے ادارے کے ماحول، اساتذہ اور ساتھیوں کے متعلق معلومات لیجیے ان کی عادات اور طرز گفتگو پر نظر رکھیے کیوں کہ بچے اپنے ماحول سے بہت کچھ سیکھتے ہیں اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ بچوں کو کیسا ماحول فراہم کرتے ہیں۔ یاد رکھیے تربیت کی اصل ذمہ داری والدین کی ہے اس لیے گھر اور اسکول وغیرہ ہر جگہ اولاد کی تربیت کا خاص خیال کیجیے، یہ آپ کا فرض اور آپکی اولاد کا آپ پر حق ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَائِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحریم۔06)
مومنو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل عیال کو آتش (جہنم) سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں اور جس پر تند خو اور سخت مزاج فرشتے (مقرر) ہیں جو ارشاد خدا ان کو فرماتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم ان کو ملتا ہے اسے بجا لاتے ہیں۔

اس لیے اولاد کے معاملے میں سب سے پہلی ترجیح دین کو دیجیے ، اور نظر دنیوی مستقبل پر نہیں بلکہ اخروی مستقبل پر رکھیے اور دنیوی مال و متاع کی بجائے حقیقی متاع ایمان کی حفاظت یقینی بنائیے۔

عبید اللہ
About the Author: عبید اللہ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.