چند دن پہلے چیف جسٹس آف پاکستان جناب ثاقب نثار نے بار
سے خطاب کے دوران ایک بابے رحمت کا ذکر کیا۔بابا رحمت لاہور کا ایک علامتی
کردار ہے جو لوگوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرتا ہے۔چیف جسٹس صاحب
کہتے ہیں کہ لوگ فیصلے کے لئے بابا رحمت کے پاس آئیں اور بابا اپنی سوچ اور
فہم کے مطابق دیانتداری سے فیصلہ دے دے تو پھر بابے کو گالیاں دینے اور برا
بھلا کہنے کا کیا جواز۔پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔کوئی بابے کے بارے
کچھ غلط نہیں بولتا تھا۔
جناب چیف جسٹس ! اتفاق سے میں بھی آپ ہی کی طرح لاہور کا پرانا باسی
ہوں۔میرا بچپن اور بڑھاپا اسی شہر کے محلوں اور گلی کوچوں میں گزرے ہیں۔میں
یہاں کے ماحول اور کلچر سے پوری طرح آشنا ہوں۔ یہاں کے ہر گلی کوچے میں
موجود بہت سے بابا رحمت میرے بزرگ تھے۔ میں ان کے ہر انداز اور ہر ادا سے
واقف ہوں ۔میرے جاننے والے بابا رحمت آپ کے بابا رحمت کی طرح اس قدر ادھورے
نہیں تھے ۔میں جس محلے میں رہتا تھا وہاں کا بابا رحمت وہ شخص تھا کہ جیسے
لوگوں کے بارے اقبال نے کہا تھا،
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان
مجھے یاد ہے بابا کا پلنگ بہت بڑا تھا ۔ وہ پلنگ جس پر دس پندرہ آدمی آسانی
سے بیٹھ سکتے تھے۔ وہ پلنگ آدھا گلی میں اور آدھا بابا کے ڈیرے کے اندر
تھا۔بابا سارا دن پلنگ کے ایک کونے پر گلی میں بیٹھے ہوتے۔پلنگ کے سرھانے
بابا کے پاس ایک بڑی لٹھ پڑی ہوتی ۔ یہ لٹھ اٹھنے بیٹھنے اور چلنے ، پھرنے
میں بابا کی مدد گار تو تھی ہی مگر بابا کے ہاتھ میں یہ بابا کی دہشت کا
بھی نشان تھی۔ہر وقت بابا کی نظر پورے محلے پر ہوتی تھی یوں لگتا بابا
یونانی دیوتا جینس ،جس کے نام پر جنوری کا مہینہ ہے،کی طرح آگے اور پیچھے
دونوں طرف دیکھ سکتا ہے۔بڑھاپے میں بھی بابا کی آواز کی کھنک اور کڑک قائم
تھی۔ کہیں بچوں کے لڑنے کی آواز آئی تو بابا کی کڑکتی آواز محلے میں گونجتی۔
کون لڑرہا ہے۔لڑتے ہوئے بچے یوں غائب ہوتے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ کسی
گھر کے باہر کچھ انجان لوگ کچھ دیر کھڑے نظر آتے تو بابا خود اٹھ کر وہاں
پہنچ جاتے۔ بیٹا اتنی دیر سے کیوں کھڑے ہو، کس سے ملنا ہے۔ سامنے پلنگ پر
بیٹھو میں بلاتا ہوں۔کیا مجال کہیں سے کوئی انجان آ کر کسی گھر کے سامنے
زیادہ دیر کھڑا ہو جائے۔محلے کی بہو بیٹیاں بابا کی موجودگی کہیں آتے جاتے
خود کو بہت محفوظ خیال کرتیں۔
محلے میں کچھ بد معاش بھی تھے۔ کبھی کسی بد معاش نے کسی کو تنگ کرنا تو
شکایت پر بابا نے دونوں کو بلا بھیجنا، کسی کی تاخیر کرنے کی جرآت نہ تھی،
بابا نے بڑے پیار سے دونوں کی بات سننی، اپنی سوچ کے مطابق ہر چیز پرکھنی
اور فیصلہ دے دینا۔ دونوں سر جھکا کر فیصلہ قبول کرتے اور پورے احترام کے
ساتھ بابے کی نصیحتیں سنتے رخصت ہو جاتے۔ ایک آدھ دفعہ ایسا ہوا کہ کسی نے
اپنی بدمعاشی یا پہلوانی کے زعم میں بابے کا فیصلہ سن کر سر کو جھٹک دیاتو
بابے کا بھاری ہاتھ گھومتا اس کے منہ پر پڑتااور کڑک دار آواز گونجتی
،’’آکڑ دکھانا ایں‘‘یعنی اکڑ دکھاتے ہو، بد تمیزی کرتے ہو۔تمھاری ساری بات
سنی ہے جو غلط ہے وہ غلط ہے یہ میرا فیصلہ ہے، سر جھٹک کر کیا کہنا چاہتے
ہو۔ وہ کوئی بدمعاش ہوتا ، کوئی پہلوان ہوتا یا کوئی اور۔بابے کے پاؤں
پکڑلیتا۔معافی مانگتا ، اس کے ساتھ آئے ہوئے سبھی لوگ معذرت خواہ ہوتے اور
چپ چاپ رخصت ہو جاتے۔ اک عرصے تک ان میں سے کسی فریق کو دوبارہ کوئی بھی
جھگڑا کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ بابے کی لٹھ ہمیشہ بابے کے پاس ہوتی مگر میں نے
اس لاٹھی کو استعمال کرتے کبھی بابے کو نہیں دیکھا۔البتہ کبھی بہت غصے میں
ہوتاتو لٹھ زور سے چارپائی پر مارتاتو سامنے والا تھر تھر کانپنے لگتا، اس
لٹھ کی دہشت ہی اس قدر عجیب اور خوفناک تھی۔
بابے کی شخصیت میں بڑی خوبیاں تھیں۔ وہ ہر شخص کی بات سنتا۔ مرضی اپنی کرتا۔
اسے اپنی ذات پر پورا اعتماد تھا۔ کوئی بھاری بھرکم شخص یا کوئی اس کے
قریبی عزیز بھی اس کے فیصلے پر حاوی نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ اپنے دروازے اپنے
عزیزوں کے لئے کھلے رکھتا اور جائز مدد بھی کرتا۔ وہ چھپتا نہیں تھا، ہر
حال میں حالات کا سامنا کرنا جا نتا تھا۔ اس کے فیصلے کسی مجبوری کے طابع
نہیں ہوتے تھے۔کسی کی بیماری، کسی کی پریشانی یا کسی دوسرے مسئلے کا سن کر
بابا خود بھی پریشان ہو جاتا اور اس کا مسئلہ جیسے بھی ممکن ہو حل کرانے کی
کوشش کرتا۔بابے کی مخلصی، محلے داروں سے پیار اور کسی مشکل کے حل کی تگ و
دو پر کسی کو کوئی شک نہیں تھا۔ بابا پورے محلے کی جان تھا اور پورے محلے
میں بابا کی جان تھی۔بابا ایک شجر سایہ دار تھا کہ جس کے ٹھنڈی چھاؤں سارے
محلے کے لئے ایک نعمت تھی۔
آج لوگ اس شجر سے محروم ہیں۔وہ پیار اور وہ خلوص اب مفقود ہے ۔ اب نہ وہ
بابے ہیں اور نہ ہی لوگوں کی آنکھوں میں وہ حیا۔آج شجر کاٹنے کا دور ہے،
لوگوں نے جنگلوں کو کاٹ کاٹ کر میدانوں میں بدل دیا ہے۔اوریہ بات اب درختوں
تک محدود نہیں رہی، اس دور میں وہ انسان جو کبھی شجر کی مانند تھے، اب اپنی
حیثیت برقرار نہیں سکے۔جناب چیف جسٹس نے جس بابے رحمت کا ذکر کیا ہے وہ اس
ڈوبتے وقت کا بابا رحمت ہے جو بہت ادھورا ہے۔ جو اپنا وقار قائم رکھنے کی
کوشش تو کر رہا ہے مگر اپنے کمزور رویے کے سبب ناکام ہے۔ وہ اس طرح شجر
سایہ دار نہیں ،اس کی آواز میں کڑک نہیں۔ اب اس کے ہاتھ میں لٹھ نہیں اور
اگر ہے بھی تو اس میں وہ کرشمات نہیں کہ لوگ اس سے دہل جائیں یا شایدبابا
اس لٹھ کی تاثیر سے خود واقف نہیں رہا۔
جناب چیف جسٹس ، آپ کہتے ہیں ہمارا صبر اور حوصلہ دیکھیں۔ہم نے کسی بات کا
جواب نہیں دیا۔ جناب آپ نے ظلم کیا۔اخبارات کے مطابق 2017 میں توہین عدالت
کی اٹھائیس ہزار پانچ سو (28500) درخواستیں ہائی کورٹ کو وصول ہوئیں۔جسے
بلایا گیا۔ اس نے غیر مشروط معافی مانگ لی اور کورٹوں نے کمال فراغدلی سے
معافی دے دی۔ہر سرکاری افسر کو پتہ ہے کہ کورٹ توئین عدالت پر کچھ نہیں
کہتا۔ غیر مشروط معافی کا سن کر خوش ہو جاتا ہے۔ تو وہ یہ لفظ کہنا سیکھ
لیتا ہے مرضی اپنی کرتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ صرف LDA کے سربراہ پر توہین
عدالت کے پچاس کیس ہیں مگر اسے پرواہ نہیں۔سپریم کورٹ صبر اور تحمل سے اس
ملک میں بربادی کی روایات تشکیل دے رہا ہے۔ سپریم کورٹ اگر توئین پر کوئی
کاروائی نہیں کرے گا تو ماتحت عدالتیں اس سر درد کو کیوں مول لیں گی۔
جناب چیف جسٹس آپ کے اس تحمل کا نقصان عام آدمی کو ہو رہا ہے۔ کوئی سرکاری
افسر اس کی بات نہیں سنتا۔اسے با ربار کورٹ آنا پڑتا ہے اور ہر بار وکیل کی
بھاری فیس اس کے اعصاب کو تباہ کرتی ہے۔ وہ مایوسیوں کا شکار ہوتا ہے۔ وہ
ذہنی طور پر روز قتل ہوتا ہے اور اس کا قاتل کوئی اور نہیں ،اعلیٰ عدلیہ کا
غیر ضروری صبر اور حوصلہ ہے۔ کاش ججوں کو عام آدمی کے جذبات کا احساس ہو
جائے اور صحیح معنوں میں بابا رحمت بن کر دکھائیں۔ ادھورا بابارحمت تو رحمت
نہیں قوم کے لئے ایک زحمت ہے۔ |