’’پولو‘‘

قطب الدین ایبک سمیت کئی بادشاہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے
ا س میں نت نئی جدتیں پیدا کی گئی ہیں، پولو شرٹ متعارف کرائی گئی
چترال میں ’’گدھا پولو‘‘ اور یورپ میں ’’واٹرپولو‘‘کو فروغ ملاک

’’پولو‘‘جو ’’چوگان‘‘ کے نام سے بھی معروف ہے،اسے ہاکی کی طرز پر کھیلا جاتا ہے اور اس میں ڈنڈا بردارگھڑ سواروں کی دو ٹیمیں حصہ لیتی ہیں۔ ہر ٹیم چھ سے سات کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے جن کے ہاتھوں میں لمبے لمبے بانس کی طرز کی اسٹکس ہوتی ہیں ،جن سے وہ لکڑی کی سفید گیندپر ضرب لگاتے ہیں۔کیوں کہ یہ کھیل گھوڑوں کی پشت پر بیٹھ کر کھیلا جاتا ہے اس لیے چترالی زبان میں اسے’’ استوڑ غاڑ‘‘ یعنی گھوڑوں کا کھیل کہتےہیں۔ اس کی گیند کو’’ پڑنجو‘‘ اور جس ڈنڈے سے اس پر ہٹ لگاتے ہیں اسے ’’غاڑوخون‘‘ کہا جاتا ہے۔ تبت کے باشندے اس کی ابتدا ء اپنے علاقے سے ہونے کے دعوے دار ہیں اور اس کے لیے ان کی دلیل ہے کہ ’’پولو‘‘ کا لفظ بانس کے درخت کی جڑ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ابھی بھی بعض ملکوں میں پولو کے ٹورنامنٹس کے لیے گیند کی تیاری میں بانس کی لکڑی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کہ کھیلوں کے مورخین کے مطابق اس کی تاریخ قریباً ڈھائی ہزار سال قدیم ہے۔ اس کھیل کی ابتداء چھٹی صدی قبل مسیح میں’’ فارس‘‘ سے ہوئی اور ایرانی شہنشاہ ’’شاہ پور ثانی‘‘ نے صرف سات سال کی عمر سے اس میں عبور حاصل کیا۔اسی دور میں یہ کھیل ایران سے نکل کرترکی کی بازنطینی سلطنت میں متعارف ہوا اور وہاں کے شہنشاہ نے اس میں دل چسپی لیتے ہوئے اسے سیکھنا شروع کیا۔ اس کھیل کے لیے شہنشاہ تھیوڈوسس ثانی نے بازنطائن کے شاہی محل میں ایک اسٹیڈیم تعمیر کرایا،جب کہ ایران کے بادشاہ عباس اول نے سترھویں صدی میںپولو کے کھیل کے لیے اصفہان میں ’’نقش جہاں اسکوائر‘‘ بنوایا۔سولہویں صدی میں’’ تانگ ‘‘ بادشاہوں کے زمانے میں یہ کھیل چین کے شہر جنگان پہنچا، وہاں کی خواتین میں اسے مقبولیت حاصل ہوئی جوعرصے تک مردانہ لباس پہن کر یہ کھیل کھیلتی رہیں۔
ابتد میں فارس کے بادشاہوں نے اس کھیل کو اپنی فوجوں کی ورزش اور صحت برقرار رکھنے کے لیے شروع کیا بعد میں یہ باقاعدہ ایک روایتی کھیل کی شکل اختیار کرگیا اور ایرانی قبائل آپس کے تنازعات میں خوں ریزی سے بچنے کے لیے اس کھیل کا سہارا لینے لگے۔ ایران سے یہ کھیل ترکی، چین اور ہندوستان میںآیا اور مقبولیت اختیارکر گیا۔ افغانستان میں بھی اس سے ملتا جلتا کھیل طویل عرصے سے کھیلا جارہا ہے۔پولو صرف گھوڑے دوڑانے اور گیند گول کے اندر پھینکنے کا ہی کھیل نہیں ہےبلکہ اس میں شطرنج کی طرز کی ذہانت اور قوت فیصلہ درکار ہوتی ہے۔ مخالف ٹیم کےکھلاڑیوں کی حرکات و سکنات اور چالوںپر نظر رکھنا ہوتی ہے اور انتہائی مختصر وقت میں فیصلہ لینے کے بعد اپنے ساتھی کھلاڑیوں کی مدد سے ان چالوں کا توڑکرنا ہوتا ہے۔مغل شہنشاہ اورنگ زیب ، پولو کے مقابلوں کا انعقاد کرکے اس کھیل میں پھرتی ، مستعدی اور چالاکی کا مظاہرہ کرنے والےسپاہیوں میں سے فوج کے کمانڈروں کا انتخاب کرتے تھے۔پاکستان میں یہ امیروں اور طاقت ور لوگوں کا کھیل ہے۔ ملک کے بڑے بڑے جاگیردار اس کھیل کا باقاعدہ اہتمام کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے مخصوص قسم کے قیمتی گھوڑے خریدے جاتے ہیں۔ ان گھوڑوں کو اس کھیل کی تربیت دینےکے لیے تجربہ کار ملازمین رکھے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اشرافیہ کے علاوہ فوجی افسران کا بھی یہ پسندیدہ کھیل ہے۔ ملک میں اس کھیل کے فروغ کے لیے1947ء میں پاکستان پولو ایسوسی ایشن کا قیام عمل میں آیا جس کا فیڈریشن آف انٹرنیشنل پولو سے الحاق ہے۔

چترال اور گلگت میںیہ کھیل نہایت مقبول ہے۔ ’’پولو‘‘ کوبلتستان کا قدیم اور قومی کھیل کہا جاتا ہے، اور بلتی باشندوں کے مطابق یہ ان کے علاقے سے شروع ہوا بعد میں دنیا کے دیگر ملکوں میں مقبول ہوگیا۔ اپنے دعوے کو درست ثابت کرنے کے لیےان کا کہنا ہے کہ’’ پولو‘‘ بلتستان کی زبان کا لٖفظ ہے جس کے معنی گول چیز کے ہیں۔ یہ کھیل آج بھی گلگت بلتستان میں بہت مقبول ہے اور یہ وہاں کی ثقافت کا ایک حصہ ہے، اسےروایتی کھیل کے طور پر کھیلا جاتا ہے اور شندور کے سالانہ میلے میں اس کھیل کا خصوصی انعقاد کیا جاتا ہے، جس میں دنیا بھر سے کھلاڑی اور شائقین شرکت کرتے ہیں۔ ضلع چترال میں واقع شندورکے پولو گراؤنڈ کا شمار دنیا کے بلند ترین کھیل کے میدان میں ہوتا ہے جو دنیا کی چھت پر 12200فٹ کی بلندی پر ہے۔ یہ کھیل یہاں 1936ءسے کھیلا جارہا ہے اور جولائی کے پہلے ہفتے میں اس کا انعقاد ایک میلے کے طو پر کیا جاتا ہے، جس کی ابتدا، علاقائی رقص و موسیقی سے ہوتی ہے۔

گھوڑوں کی ٹاپوں، ہاتھیوں کی چنگھاڑ، گدھے کی ڈھینچوں، سائیکل کے پیڈل کی آوازیں اوراسکوٹر کے انجن کے شورکے ساتھ یہ کھیل پوری دنیا میں کھیلا جاتا ہے۔ آج یہ کھیل عوام اور خواص ، دونوں طبقات کا مقبول ترین کھیل ہے۔گوکہ یہ کھیل مختلف طریقے سے کھیلا جاتا ہے، لیکن اس کی سب سے اوّلین اور مقبول شکل وہی ہے، جوقدیم دور سے چلی آرہی ہے، یعنی ’’ہارس پولو’’، جو گھوڑے کی پشت پر بیٹھ کر کھیلا جاتا ہے۔ وسطی ایشیا میںیہ کھیل قبل از مسیح سے رائج ہےجب کہ پاکستان میں گلگت کے علاقے میںیہ کھیل انگریزوں نے 1850ء میں شروع کیا۔ انگلستان کی برسراقتدار جماعت کے ایک رکن میجرایولن ایچ کوب کی تجویز پر ضلع چترال میں شندورکے مقام پر پہلے ٹورنامنٹ کا آغاز کیا گیا۔ان کی سوچ کے مطابق کیوں کہ سطح زمین سے ہزاروں فٹ بلندی پر ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ چاند سے قریب ہے اس لیے یہاں شب کی تاریکیوں میں بھی چاندکی وجہ سے اتنی روشنی ہوتی ہے کہ پولو کا کھیل کھیلا جاسکتا ہے۔شروع میں اس کھیل کے قاعدے، قانون نہ ہونے کی وجہ سے کئی افراد ہلاک ہوگئے لیکن کچھ عرصے بعداس کھیل کا وحشیانہ طرز اس کی انفرادیت قرار پایا اورتماش بینوں کی دل چسپی کا باعث بن گیا۔ شندور کے گردونواح کے علاقے، گلگت اورچترال میں اب بھی اس کھیل کو اسی انداز میں کھیلا جاتاہے۔ ہندوستان پر قبضے کے بعد جب انگریزوں نے وہاں کے راجا اور مہا راجاؤں کو یہ کھیل کھیلتے دیکھا تو انہیں بھی اسے سیکھنے کا شوق پیدا ہوا، جس کے بعد انہوں نے اسے برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کے علاوہ اپنی نوآبادیات ارجنٹائن، آسٹریلیا اور جنوبی افریقامیں متعارف کرایا۔ اس وقت یہ کھیل دنیا کے تقریباًً 60 سے زائد ممالک میںکھیلا جاتا ہے۔

’’ہارس پولو ‘‘کا میدان 360 میٹر لمبا اور اس کی چوڑائی 160 میٹر ہوتی ہے، کھیل میں سات سات منٹ کے 4 سے 8 ہاف ہوتے ہیں، جنہیں ’’چکر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ہر چکر کے درمیان سات منٹ کا وقفہ ہوتا ہے، جب کہ ہرٹیم سات گھڑ سوار پر مشتمل ہوتی ہے۔پولو کا کھیل جن گھوڑوں کی پشت پر بیٹھ کر کھیل کھیلا جاتا ہے، ان کا انتخاب ان کی مضبوط جسامت اور سخت جاں طبیعت کے مطابق کیاجاتا ہے۔ اس کھیل کے قوانین بہت سخت بنائے گئے ہیں، اس میں بے ایمانی کی گنجائش نہیں ہے، ضوابط کی خلاف ورزی پر جرمانہ کیا جاتا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں ایک ٹیم کی جانب سے گھوڑوںکو میدان میں دیر تک تازہ دم رکھنے کے لیے طاقت کی ادویہ اور انجکشن کے استعمال کا انکشاف ہوا، جس کے بعد اس کے قوانین مزید سخت بنادیئے گئے۔پولو کا کھیل پہلے رنگ بہ رنگے لباس میں کھیلا جاتا تھا، لیکن انیسوی صدی عیسوی میںہندوستان میں انگریز حاکموں نے گرمی کی وجہ سے اس کھیل میں ہلکے رنگ پہننے کو ترجیح دی اور سفید رنگ کی پتلون پہن کر کھیلنے کی روایت پڑی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید جدتیں پیدا کی گئیں،گھوڑوں کی پشت پر بیٹھ کر کھیلتے وقت کالر اڑنے کی وجہ سے کھلاڑیوں کو کافی الجھن محسوس ہوتی تھی اور کھیل سے ان کا دھیان بہک جاتا تھا۔ اس مشکل کے حل کے لیے 1869ء میں ایک میچ کے دوران امریکا سے تعلق رکھنے والے ، جون ری بروکس نے ’’بٹن ڈاؤن شرٹ‘‘ تیار کی، جس میں کالر کے ساتھ اضافی بٹن لگائے گئے جس کی وجہ سے شرٹ کے بٹن ،کالر تک بند رہتے تھے۔ یہ ’’پولو شرٹ ‘‘ کی حیثیت سے معروف ہوئی، بعد ازاں یہ جدید فیشن کا حصہ بن گئی۔

اس کھیل کی دوسری قسم ’’ایلی فنٹ پولو ‘‘ہے، جسے ہاتھی کی پشت پر بیٹھ کر کھیلا جاتا ہے ۔ اس کا آغاز بیسویں صدی میںہندوستان سے ہوا، مگر اسےموجودہ شکل نیپال میں میگھائولی کے مقام پر ملی۔ کھیل کا یہ انداز نیپال، سری لنکا، تھائی لینڈ اور بھارت کے شہر راجستھان میں مقبول ہے۔سری لنکا کے گال شہر میں اس کےسالانہ ٹورنامنٹ کا انعقادکیاجاتا ہے ایلی فینٹ پولو کا گراؤنڈ، ہارس پولو کے مقابلے میں تین چوتھائی بڑا ہوتاہے۔ یعنی میدان کی لمبائی 140 میٹر اور چوڑائی 70 میٹر ہوتی ہے۔ کھیل میں ہر ٹیم تین تین ہاتھیوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ہر ہاتھی پر ایک مہاوت اور ایک کھلاڑی سوار ہوتا ہے۔ مہاوت کھلاڑی کے کہنے پر ہاتھی کو دائیں سے بائیںاورآگے پیچھے دوڑاتا ہے۔ کھلاڑی کے ہاتھ میں6 سے 10 فٹ لمبی لکڑی کی چھڑی ہوتی ہے، جس کے سرے پردھات کی ایک ٹی لگی ہوتی ہے، جس سے جھک کر وہ گیند کو ضرب لگا کر گول پوسٹ تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے۔ ایلی فنٹ پولو کی گیند بھی مضبوط اور معیاری بنائی جاتی ہے اور ضرب لگنے سے وہ متاثر نہیںہوتی۔ مذکورہ کھیل دس دس منٹ کے دو ہاف یعنی چکر پر مشتمل ہوتا ہے۔ دونوں ہاف کے درمیان 15 منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے تاکہ کھلاڑی اور ہاتھی ، دونوں کچھ دیرسستا کر تازہ دم ہوسکیں۔ میدان کے درمیان 10 میٹر قطر کا نیم دائرہ بنا ہوتا ہے جہاں سے میچ ریفری دائرے میں گیند پھینک کر کھیل شروع کراتا ہے۔ میدان کی ڈی 20 میٹر یعنی نصف قطر، پر محیط ہوتی ہے اور میدان کے دونوں جانب گول پوسٹ بنی ہوتی ہیں، جہاںکھلاڑی گیند جال میں پھینک کر گول کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ’’ہاتھی پولو‘‘کی عالمی چیمپئن شپ نیپال میں ’’ٹائیگرٹاپس‘‘ کے مقام پر منعقد کی جاتی ہے۔ نیپال اور تھائی لینڈمیں اس کھیل کی نگرانی ’’ورلڈ ایلی فینٹ پولو ایسوسی ایشن ‘‘کے قوانین کے تحت کی جاتی ہے، جس میں ہاتھیوں کی عمر، صحت ، دماغی کیفیت اور کھیل کی بہتری کے حوالے سے سخت اقدامات کیے جاتے ہیں۔ اس کھیل میں ہاتھی کی ذہنی ہم آہنگی پولو کے کھیل سے ہونا ضروری ہے، نیپال میں ایلی فنٹ پولو ٹورنامنٹ کے ایک میچ کے دوران ایک ہاتھی مشتعل ہوکرپولو گراؤنڈ سے نکل کر سڑک کی طرف بھاگا اور اس نے اپنے راستے میں آنے والی اسپینی ٹیم کی منی بس کو ٹکر مار کر تباہ کردیا جب کہ دو اافرد کو اپنی سونڈ میں لپیٹ کر دور پھینک دیا جس سےوہ شدید زخمی ہوگئے۔

پولو کی تیسری شکل ’’سائیکل پولو‘‘ہے۔ اس طرح کے کھیل کاخاکہ سب سے پہلے 1891ء میںوکلوکائونٹی آئرلینڈ کے ریٹائرڈ سائیکلسٹ رچرڈ جے میکریڈی نے پیش کیا اور اس کے پہلے میچ کا انعقاد’’ دی اسکلپ‘‘ اور’’ دی اوہنے سی سی‘‘ کے درمیان ہوا۔ 19ویں صدی کے اختتام پر یہ کھیل برطانیہ، فرانس اور امریکا میںمقبول ہوگیا۔ برطانیہ اور آئرلینڈ کے درمیان اس کا پہلا بین الاقوامی میچ 1910ء میں منعقد ہوا۔ 1908ء میں لندن اولمپکس میں اسے رسمی طورپر شامل کیا گیا۔ آئرلینڈ نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئےجرمنی کی مضبو ط ٹیم کوشکست دےکر طلائی تمغہ حاصل کیا۔ 1996ء میں امریکا میںاس کی پہلی عالمی چیمپئن شپ کا انعقادہوا۔ بھارتی ٹیم کا شمار دنیا کی بہترین سائیکل پولو کی ٹیموں میں ہوتا ہےاور اس کھیل کے 8ین الاقوامی مقابلوں میں سے 4میچ جیتنے کا اعزاز بھارت کو حاصل ہے جب کہ سائیکل پولو کاپہلا عالمی کپ بھی بھارت نے ہی جیتا تھا۔

اس کھیل کی ایک اور شکل واٹر پولو کی ہے جو ایک بڑے تالاب میں پیراکی کرتے ہوئےکھیلا جاتا ہے۔ اس کھیل میں آٹھ آٹھ منٹ کے چار ہاف ہوتے ہیں۔ ہر ٹیم میں سات کھلاڑی ہوتے ہیں۔ جن میں سے ایک گول کیپر ہوتا ہے۔ واٹر پولو میں گھڑی اُس وقت تک چلتی رہتی ہے جب تک گیند کھلاڑیوں کے درمیان حرکت میں رہتی ہے۔ جوں ہی کوئی فاؤل یا کسی وجہ سے گیند کھلاڑیوں کے ہاتھ سے باہر چلی جاتی ہے تو گھڑی روک دی جاتی ہے۔’’ا سٹاپ واچ‘‘ کایہ انداز باسکٹ بال جیساہے۔ اگر میچ کا فیصلہ مقررہ وقت میں نہ ہو تو پھر تین تین منٹ کے دو مزید راؤنڈہوتے ہیں۔ اِن میں بھی فیصلہ نہ ہوسکے تو پنالٹی لگائی جاتی ہیں۔ میچ میں شریک کھلاڑیوں کو سوئمنگ کی تمام تیکنکس کا حامل ہونا ضروری ہوتا ہے تب ہی کوئی کھلاڑی اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔واٹر پولو کا پہلا میچ13؍جولائی 1936ء میں ’’واٹر ہینڈ بال‘‘ کے طورپر برطانیہ میں’’ بورن ماؤتھ‘‘ کے مقام پر کھیلا گیا۔ اس مقابلے کا انعقاد پریمیر روئنگ کلب کے اراکین کے درمیان ہوا۔ مذکورہ میچ شام 6؍بجے شروع ہوا اور صرف پندرہ منٹ کے مختصر کھیل کے بعد گیند میں سوراخ ہونے کی وجہ سے ختم ہوگیا۔ 1900ء میں اسے اولمپک مقابلوں میں شامل کیا گیا۔ آج کل یہ برطانیہ، اسکاٹ لینڈیونان، اسپین، امریکا، کینیڈا، اور آسٹریلیا میں بہت مقبول ہے۔

پولوکا ایک انداز ’’اسکوٹر پولو‘‘ہے، کھلاڑی اسے گھوڑوں یا ہاتھی کی پشت پر بیٹھنے کی بجائے دو پہیوں والی اسکوٹرپر کھڑے ہو کر کھیلتے ہیں ۔ اسے ’’سچوے‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ اس کھیل میں کھلاڑی خود کار توازن رکھنے والے اسکوٹر پر سوار گیند کو لکڑی کی ایک بھاری اسٹک کی مددسے مخالف ٹیم کےگول میں پھینکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔مذکورہ ا سکوٹر کی حدرفتار ساڑھے بارہ میل فی گھنٹہ متعین کی گئی ہے ، سیجوے پولو کافی مقبول ہو رہا ہے اوریورپ میں اس کی چیمپئن شپ کا انعقاد کیا جاتاہے۔

پولو کا کھیل، گھوڑے جیسے پروقار اور مہنگے جانور کی پیٹھ پر بیٹھ کرتو کھیلا جاتاہی ہے ، مگر جب گھوڑا دستیاب نہ ہو تواس سے گدھے پر بیٹھ کربھی محظوظ ہو سکتے ہیں۔ اس بات کووادی چترال کے پسماندہ قصبات کے باسیوں نے سچ ثابت کردیا ہے۔ وہاں کے لوگ قیمتی گھوڑے خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے کے باعث پولوکا کھیل گدھے پر بیٹھ کر کھیلتے ہیں، اس وجہ سے اس کھیل کا نام ’’گدھا پولو‘‘ مشہور ہوگیا ہے۔ یہ کھیل چترال کے مختلف علاقوںاور’’بروغل‘‘ میںخصوصی طور سے کھیلا جاتا ہے ، گدھا پولو کو مقامی زبان میں ’’گوردوغ غال’’ کہا جاتا ہے۔ اس کھیل میں عموماًنو عمر بچے حصہ لیتے ہیںاور نہایت مہارت سے گدھے پر سوار ہوکر بغیر مہار یا رسی کے گدھے کو قابو میں رکھتے ہوئے پولو کھیلتے ہیں ۔فری اسٹائل ’’گدھا پولو‘‘ بروغل وادی اور چترال کا نہایت مقبول کھیل بن گیا ہے۔ اس کھیل کے لیےخصوصی طور پر گدھے پالے جاتے ہیں جن کی اس کھیل کی مناسبت سےتربیت بھی کی جاتی ہے، ہر ٹیم میں کم از کم چھ چھ کھلاڑی ہوتے ہیں ۔ اس کھیل میں’’ہارس پولو ‘‘کی طرح زیادہ بڑے میدان کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ اس کے نصف حصےمیں گدھا پولو کھیلا جاتا ہے تاکہ گدھے کو زیادہ دور تک نہ بھاگنا پڑے۔ اس کھیل کے دوران اس وقت دل چسپ صورت حال پیدا ہوتی ہے جب کوئی کھلاڑی گدھے سے نیچے گرتا ہے جسے دیکھ کر تماشائی انتہائی محظوظ ہوتے ہیں۔اس دلچسپ کھیل کو دیکھنے کیلئے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاح بھی چترال کا رخ کرتے ہیں۔ ابھی پولو کے کھیل کی یہ جہت صرف پاکستان کے بالائی علاقےمیں رائج ہے، ہوسکتا ہے چند سالوں بعد یہ یہاں سے نکل کرملک کے دیگر حصوں اور غیر ممالک تک بھی پہنچ جائے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 213 Articles with 222974 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.