گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے میڈیا
ٹاک کے آخر پر کسی صحافی نے سوال کیا۔۔۔ کیا اگلے وزیر اعظم آپ ہوں گے؟ تو
شہباز شریف نے جواب میں بہت خوشی سے یہ کہاکہ۔۔۔۔ اﷲ آپ کی زبان مبارک کرے
اور اُٹھ کر چلے گئے۔۔۔۔ یہ ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہو گیا
ہے۔۔۔میں نے جب یہ کلپ دیکھا تو مجھے ایک چھوٹی سی مگر بڑی سبق آموز کہانی
یاد آگئی۔۔۔۔ سوچا کہ یہ کہانی آپ سے بھی شیئر کر دوں اور ہو سکتا ہے کہ یہ
کہانی شہباز شریف صاحب تک بھی پہنچ جائے۔۔۔ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ ۔۔۔۔
ایک گلی میں کوئی مجذوب جذب کی حالت میں بیٹھا تھا۔۔۔۔۔ یہ صبح سویرے کا
وقت تھا۔۔۔۔ اسی گلی میں ایک پولیس حوالدار کا گھر تھا۔۔۔ حوالدار صبح صبح
پولیس کی وردی پہنے بہت غصے کی کیفیت میں اپنے گھر سے نکلا۔۔۔ جب مجذوب کے
پاس سے گزرنے لگا تو مجذوب نے حوالدار کو مخاطب کر کے کہا کہ۔۔۔ حوالدار
میاں اﷲ کے نام پر مجھے کچھ پیسے دے دو۔۔۔۔ حوالدار جو کہ پہلے ہی بہت
زیادہ غصے میں تھااُس کو مجذوب کی بات سن کر مزید غصہ آگیا۔۔۔۔ شدید غصے کی
حالت میں حوالدارنے مجذوب کو ایک زوردار لات ماری اور کہا کہ تمہیں شرم
نہیں آتی کہ بھیک مانگتے ہو۔۔۔ محنت کر کے خود کماؤ ناں۔۔۔ مجذوب نے ایک
نظر آسمان کی طرف اُٹھائی اور پھر حوالدار کی نظروں میں نظریں ڈال کر کہا
جا اﷲ تجھے تھانیدار بنا دے۔۔۔۔ حوالدار مجذوب کی بات سنتے ہوئے اپنے
متعلقہ تھانے یا دفتر چلا گیا۔۔۔۔۔ حوالدار اپنے دفتر پہنچ کر اپنی کرسی پر
ابھی بیٹھا ہی تھا کہ ایک اہلکار نے آکر اُسے مبارک باد دیتے ہوئے اُس کا
پروموشن لیٹر دیا کہ آپ کی ترقی ہو گئی ہے آپ تھانیدار بن گئے ہیں لہذا
فورََا مٹھائی کھلانے کا بندوبست کریں۔۔۔۔ حوالدار نے چونک کر اُس اہلکار
کے ہاتھ سے اپنا پروموشن لیٹر لیا اور پڑھتے ہی فورََا اپنی کرسی سے اٹھا
اور اس مجذوب کی طرف تیزی سے چل پڑا ۔۔۔۔ مجذوب نے حوالدار کو تیزی سے اپنے
قریب آتے دیکھا تو اُٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔ حوالدار نے مجذوب کے پاس پہنچتے ہی
اُس کے پاؤں پکڑ لیئے اور بہت شرمندگی کیساتھ معافی مانگتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔
حضور آپ مجھے معاف کردیں میں نے آپ کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے لیکن اس کے
باوجود آپ نے مجھے دُعا دی اور آپ کی دعا فورََا قبول ہوئی ہے۔۔۔۔ آج میں
تھانیدار بن گیا ہوں لہذا اس وقت میرے پاس یہ جتنے بھی پیسے ہیں یہ آپ قبول
فرمائیں۔ مجذوب نے ایک قہقہ لگایا اور حوالدار سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اب
مجھے اِن پیسوں کی ضرورت نہیں رہی ۔۔۔ بس تم مجھے شہر کے قبرستا ن لے چلو
میں وہاں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔۔۔۔ حوالدار نے اطاعت کرتے ہوئے مجذو
ب کو لیا اور قبرستان پہنچ گیا ۔۔۔۔۔ قبرستان پہنچ کر مجذوب نے حوالدار کو
ایک قبر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سرہانے کی طرف سے اس قبر کو کھو دو۔۔۔۔
حوالدار نے جُو اَب تھانیدار بن چکا تھا نے قبر کھودی اور جونہی سرہانے کی
طرف سے تختہ نُما پتھر کی پلیٹ کو ہٹایا تو قبر کے اندر موجود مرد کی درد
ناک چیخ سُن کر فورََا پیچھے کی طرف ہٹ گیا۔۔۔۔۔ مجذوب نے تھانیدار کو ہاتھ
سے پکڑا اور تسلی دیتے ہوئے قبر کے اندر دیکھنے کو کہا۔۔۔۔ تھانیدار نے جب
قبر کے اندر دیکھا تو مُردے کو بہت خوفناک سانپ اور زہریلے بچھو ڈس رہے تھے۔۔۔
یہ خوفناک منظر دیکھ کر تھانیدار پر کپکپی طاری ہو گئی اور وہ بے ہوش ہو
گیا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد مجذوب نے تھانیدار کے منہ پر پانی کے چھٹے مارے تو وہ
ہوش میں آگیا تب اُس نے مجذوب سے پوچھا کہ حضور یہ کیا ماجرہ ہے اور مجھے
یہ سب دِکھانے سے آپ کی کیا مُراد ہے۔؟
مجذوب نے تھانیدار کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا کہ میری بات بہت توجہ سے
سُنو ۔۔۔۔ یہ دُنیا فانی ہے۔۔۔ یہاں پیدا ہونے والا ہر انسان ایک کمزور اور
مجبور مسافر ہے۔۔۔ ہم سب کمرہ امتحان میں ہیں اور یہ دنیا ہی کمرہ امتحان
ہے۔۔۔اﷲ تعالٰی نے ہمیں دو سوالیہ پرچے دیے ہیں کسی کو غربت، مجبوری اور
محکومی کا پرچہ دے کر ہمیشہ صبر کرنے کی تلقین کر کے گھر کے اندر خاموش
بِٹھا دیا ہے اور ساتھ ہی فرمایا ہے کہ اے صبر کرنے والے میں تمہارے ساتھ
ہوں اِس لیے اس عارضی اور مختصر زندگی کی وقتی مشکلات سے گھبرانا نہیں۔۔۔
میں اس عارضی دنیا میں بھی اور آخرت کی ہمیشہ رہنے والی زندگی میں تمہیں
جنت کے اندر لازوال اور بے مثال نعمتوں سے نوازوں گا۔۔۔۔۔۔کچھ لوگوں کو اﷲ
تعالٰی نے شکر کا پرچہ دیا ہے۔ ایسے لوگوں کو دنیا کی اس ناپائیدار اور
فانی زندگی میں نعمتوں کی فراوانی دے دی۔۔۔ حکم حکومت، اختیار اور دولت دے
کر فرمایا ہے کہ اے انسان ہم نے تجھے وہ سب کچھ دے دیا جس کو تم حاصل نہیں
کر سکتے تھے لہذا اب ان نعمتوں کا شکر ادا کر اور ان نعمتوں کا شکر ادا
کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ یہ نعمتیں اُن لوگوں کی خدمت میں استعمال کرو جن کے
پاس یہ نعمتیں نہیں ہیں۔۔۔۔ اپنے اردگِرد بسنے والوں کی زندگی میں جو لوگ
ایسی جس نعمت سے محروم ہیں اُن کو اپنی اُس نعمت میں شریک کرو۔۔۔۔ تو نہ
صرف اﷲ تم پر راضی رہے گا بلکہ تیری نعمتیں محفوظ ہوں گی اور ان میں اضافہ
ہو گا۔۔۔۔۔مجذوب نے تھانیدار کو بتایا کہ دیکھو اﷲ نے مجھے صبر اور تمہیں
شکر کا پرچہ دیا ہے۔ میں نے تم سے اُس نعمت کے حصول کا سوال کیا جو اﷲ نے
تمہیں دی ہے اور تم نے اپنی طاقت ، مرتبے اور جوانی کے غرور میں مجھے زور
دار ٹھوکر ماری۔۔۔۔ ہم عاجز فقیر لوگوں کو کِسی بھی انسان کو اُس کے بُرے
عمل اور رویے کے باوجود بَد دُعا دینے کی اجازت نہیں ہوتی اسلئے ہم جب کسی
سے دُکھی ہوتے ہیں تو اُس کو اِسطرح ہی دعا دیتے ہیں جیسے کہ تمہیں دی۔۔۔۔۔۔تم
میری دُعا کے نتیجے میں ملنے والی جس ترقی پر بہت خوش ہو اُس کے راز سے
آگاہی کیلیے میں تمہیں اس قبرستان میں لے کر آیا ہوں۔۔۔۔ یہ قبر جو تم نے
کھولی ہے اور جس مُردے کو عذاب کی حالت میں دیکھا ہے یہ ایک پولیس حوالدار
کی قبر ہے۔۔۔ یہ بھی تمہاری طرح اپنے مرتبے کے رُعب میں اپنی ڈیوٹی کے
فرائض کو پور ا نہیں کرتا تھا۔۔۔ آج تم نے جب اس کا یہ حال دیکھا ہے تو بے
ہوش ہو گئے ہو لیکن سوچو کہ تم تو اب اس سے بھی بڑے عہدے پر تھانیدار بن
گئے ہو تمہارا کیا حال ہو گا۔۔۔۔؟ کیونکہ جو انسان جتنے بڑے مرتبے پر فائز
ہو گا اُس سے اتنی ہی بڑی باز پُرس ہوگی۔۔۔ اُمید ہے اس کہانی سے آپ کو یہ
بات سمجھنی آسان ہو جائے گی کہ اس وقت شہباز شریف وزیر اعلٰی پنجاب ہیں اور
اُن سے پنجاب کی تقریبََا ساڑہے نو کروڑ انسانوں کے حقوق و فرائض کے بارے
میں پوچھا جائے گا جبکہ اُن کی خوائش ہے کہ اُن کو وزیر اعظم پاکستان کا
مرتبہ مل جائے۔۔۔۔ شائد میاں شہباز شریف نے یہ حدیث نبوی ﷺ نہیں پڑی یا
سُنی جس کا مفہوم یوں ہے کہ ـــ’’کبھی بادشاہ بننے کیلئے دعا نہ کرنا
کیونکہ اگر دعا کی قبولیت کے نتیجے میں تمہیں بادشاہی مل گئی تو اُس
بادشاہی کے اندر ہونے والے ہر ظلم کی ذمہ داری تم پر ہو گی‘‘ میں نے جب سے
یہ حدیث مبارک پڑی ہے اﷲ کریم کا بے شمار شکر ادا کرتا ہوں کہ میں وزیراعظم
یا وزیراعلٰی بلکہ کسی بھی عوامی مرتبے پر فائز نہیں ہوں اور یقینََا آپ سب
بھی شکر کریں گے کیونکہ انسان کے لیے اپنی ذات کے حقوق کی جواب دہی بھی بہت
مشکل ہو گی۔۔۔ یاں تک کہ اسے ملک اور قوم کے حقوق کی جوابدہی کرنی پڑے۔۔۔۔۔۔۔
ہر انسان کی موت اُس کے انتہاہی قریب اُس کی نگرانی کر رہی ہے جو کہ اپنے
وقتِ مقررہ جو کہ قریب کا لمحہ ہے میں ہر ایک حفاظت کے باوجود اپنا شکار
بنا لے گی۔۔۔۔ اگر شہباز شریف صاحب کو بھی کسی مجذوب نے وزیرِاعظم بننے کی
دُعا دی ہے تو وہ ہو سکتا ہے قبول ہو جائے اور میاں شہباز وزیراعظم بن
جائیں۔۔۔ لیکن اگر اُنہیں حوالدار کی قبر کا منظر یاد رہا تو وہ صحافی کو
نہ کہیں گے کہ اﷲ آپ کی زبان کو مبارک کرے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |