مشکل راستے قسط نمبر 59

چندہ پھو پھو ریشم گلی بازار میں میرا ہاتھ پکڑے بڑے مزے سے گھوم رہی تھیں ۔۔۔۔ میرے منع کرنے کے باوجود ڈھیر ساری شاپنگ میرے لئے کرلی تھی ۔۔۔۔ بقول انکے حیدر آباد میں کافی اچھے شاپنگ مالز بھی موجود ہیں مگر انہیں ریشم گلی بازار کے علاوہ کسی اور جگہ سے شاپنگ کرنا پسند ہی نہیں ۔۔۔۔

چلو رش بڑھنے سے پہلے ہی ہماری شاپنگ ختم ہوگئی ۔۔۔ ورنہ یہاں شام تک ایک طوفانِ بدتمیزی شروع ہوجاتا ۔۔۔ (تھوڑی دیر کو رک کر ) مجھے ایک بات نہیں سمجھ آتی خواتین سے زیادہ مرد حضرات کی تعداد یہاں زیادہ کیوں ہوجاتی ہے ۔۔۔۔ جبکے یہ بازار عورتوں کے ملبوسات اور زیبائش کی چیزوں سے بھرا پڑا ہے ۔۔۔۔۔

میں چپ کر کے ان کی بات سن رہی تھی ۔۔۔۔ دوپہر کے دو بج چکے تھے گرمی بھی اپنے عروج پر تھی ۔۔۔ ابھی ہم بازار سے باہر نکل ہی رہی تھیں کہ چندہ پھو پھو دور کھڑی ایک خاتون کو دیکھ کر رک گئی تھیں ۔۔۔ اور پھر تیزی سے ان کے قریب پہنچی تھیں ۔۔۔۔

تم شکیلہ ہو ناں ۔۔۔۔۔۔

خاتون نے چونک کر انہیں دیکھا تھا ۔۔۔ اور پھر خوشی سے ان سے لپٹ گئیں ۔۔۔۔ میں بھی ان کے قریب پہنچ کر ان دونوں کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔ خاتون کالے برقعے میں ملبوس تھیں ۔۔۔۔ چہرا کھلا تھا البتہ میری ہی طرح کا ایک پلین گراے سکارف سر پر پہنے ہوئے تھیں ۔۔۔۔

اتنے سالوں بعد تمہیں دیکھ رہی ہوں ۔۔۔۔ کیا حال کر لیا ہے تم نے اپنا شکیلہ ۔۔۔۔۔ اتنی دبلی ہوگئی ہو ۔۔۔۔

اور تم کتنی موٹی ہوگئی ہو ۔۔۔۔

اچھا اب میری صحت کو نظر تو نہ لگاؤ ۔۔۔۔

چندہ پھو پھو ہنس کر بولیں تو وہ بھی ہنس دیں ۔۔۔۔۔۔

ارے یہ اتنی پیاری سی لڑکی کون ہے ۔۔۔۔۔۔

مجھ پر نظر پڑی تو چونک کر مجھے دیکھا تھا ۔۔۔۔ اور ستائیشی انداز میں چندہ پھو پھو سے پوچھا تھا ۔۔۔۔

میری بہن کی بچی ہے ۔۔۔۔۔ اچھا تم کیا ساری تفصیل یہیں کھڑے کھڑے پوچھ لو گی ۔۔۔۔ چلو میرے ساتھ بازار سے تھوڑے فاصلے پر ہی گاڑی کھڑی ہے ۔۔۔۔۔ خالہ بی بھی تمہیں دیکھ کر خوش ہوجائینگیں ۔۔۔ کل ہی تمہارا اور میمونہ کا ذکر باتوں میں نکلا تھا ۔۔۔۔ اور دیکھو کتنی لمبی عمر ہے تمہاری آج ہی اتنے سالوں بعد تم سے ملاقات ہوگئی ۔۔۔۔۔

چندہ پھو پھو شروع ہوئیں بولنا تو بولتی ہی چلے گئیں اور محبت سے ان خاتون کا ہاتھ پکڑے بازار سے باہر نکل گئیں ۔۔۔ ڈرائیور نے جو ہمیں دیکھا تو گاڑی قریب لے آیا ۔۔۔۔۔ ہم تینوں بیٹھ گئیں ۔۔۔۔ راستہ بھر چندہ پھو پھو اور آنٹی شکیلہ پرانے قصے اپنے یاد کرتے رہیں ۔۔۔۔ دونوں پکی سہیلیاں تھیں اسکول سے کالج لائیف تک ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں ۔۔۔۔۔ پھر جب چندہ پھو پھو کی شادی حیدر آباد سے باہر ہوگئی تو کچھ عرصہ خط وکتابت کا سلسلہ چلا پھر وہ بھی شکیلہ آنٹی کی شادی کے بعد ختم ہوگیا ۔۔۔۔ زندگی کے جھمیلوں نے پھر انہیں ایسا ایک دوسرے سے دور کیا کے سال پر سال گزر گئے ایک دوسرے کی شکل دیکھے ہوئے ۔۔۔۔۔ گھر پہنچ کر سیدھا اپنی سہیلی کا ہاتھ پکڑ کر خالہ بی کے کمرے میں پہنچیں تو خالہ بی بھی انہیں دیکھ کر کافی خوش ہوئیں ۔۔۔۔۔ میں ان سب کو وہیں خوش گوار موڈ میں چھوڑ کر اوپر اپنے کمرے میں آگئی تھی ۔۔۔۔ سچی بات تو یہ تھی کہ اپنی زندگی میں میں نے کبھی بھی اپنے لئے شاپنگ نہیں کی تھی ۔۔۔۔ یا تو اماں بی میرے لئے شاپنگ کرتی تھیں یا سنئیہ ۔۔۔ سنئیہ تو مجھے چِڑاتی بھی تھی کہ فیشن ڈزائیننگ کی ڈگری ہولڈر ہوکر بھی میں اس کے اور اماں بی کی پسند کئے ہوئے کپڑے جوتے پہنتی ہوں ۔۔۔۔۔ ابھی میں یہی سب کچھ سوچ رہی تھی کہ شاہدہ دستک دے کر اندر کمرے میں داخل ہوئی تھی ۔۔۔۔

نائلہ باجی ۔۔۔۔ وہ جی چندہ پھو پھو آپ کو نیچے بلا رہی ہیں ۔۔۔۔۔

اچھا ۔۔۔ چلو میں ابھی فریش ہوکر آتی ہوں ۔۔۔

اس کے جانے کے کچھ دیر بعد ہی منہ ہاتھ دھو کر میں بھی نیچے اتر گئی ۔۔۔۔ سامنے دیکھا تو لاؤنج میں سوفہ ٹائیپ کرسیوں پر وہ تینوں براجمان تھیں ۔۔۔۔ میں بھی سامنے پڑی ویسی ہی فون اور رسٹ رنگ کی ایک سوفہ ٹائیپ کرسی پر بیٹھ گئی ۔۔۔

اور سناؤ تمہارے بچے کتنے ہیں اور زندگی کیسی گزر رہی ہے ۔۔۔۔

ماشااللہ سے دو بیٹیاں ہیں ۔۔۔۔ مگر بڑی بیٹی کی طبیعت آج کل کچھ خراب چل رہی ہے ۔۔۔۔ بس دعاؤں کی ضرورت ہے ۔۔۔۔

اللہ اسے شفا دے ۔۔۔ مگر اسے ہوا کیا ہے ۔۔۔

خالہ بی اس کی بیماری نہ ڈاکٹروں کو سمجھ آرہی ہے اور نہ ہمیں ۔۔۔۔۔ اس پورا چیک اپ ہوا تھا ۔۔۔ سب کچھ ٹھیک ہے ڈاکٹرز نے بولا تھا ۔۔۔ سائیکٹرس کو دکھا یا تو اسکزوفرنیا بتا رہے ہیں ۔۔۔۔ ۔۔۔ حالت یہ ہوگئی ہے کہ اسے باندھ کر رکھنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔ مگر پتا نہیں کیسے بندھی رسیاں کھل جاتی ہیں ۔۔۔۔۔

وہ بڑے صبر اور حوصلے سے اپنی بچی کے بارے میں بتا رہی تھیں ۔۔۔۔ مگر آنسو ان کی آنکھوں سے چھلک پڑے تھے ۔۔۔۔۔

مجھے کچھ اور ہی معاملہ لگ رہا ہے شکیلہ ۔۔۔ تم نے اس کا روحانی علاج کرایا ۔۔۔۔۔

جی کرایا تھا ۔۔۔۔ مگر وہ پیر صاحب جالی نکلے ۔۔۔۔۔ اس کے کمرے میں داخل ہوئے تو اُلٹے پاؤں ہم سے معافیاں مانگتے گھر سے ہی نکل گئے ۔۔۔۔

اوہ ۔۔۔ مگر ہر کوئی جالی تو نہیں ہوتا ۔۔۔ ہممم ۔۔۔۔ (خالہ بی کچھ دیر سوچ کر پھر گویا ہوئیں) میں تمہارے ساتھ چلتی ہوں ابھی اور اسی وقت ۔۔۔۔

آآپ ۔۔۔۔ مم مگر ۔۔۔۔۔

ہاں ہم ۔۔۔ ذرا دیکھوں تو تمہاری بچی کو کس نے گھیرا ہے ۔۔۔۔

شکیلہ آنٹی کے ساتھ میں بھی حیرت سے انہیں دیکھنے لگی تھی ۔۔۔۔۔ ہماری حیرت پر وہ مسکرائیں تھیں اور اپنی عینک درست کرتے ہوئے اُٹھ گئیں تھیں ۔۔۔۔

شاہدہ ڈرائیور کو کہو ابھی گاڑی نکالے ہمیں ایک ضروری کام سے جانا ہے ۔۔۔۔۔

جی نانی جان ۔۔۔۔ مگر چائے ۔۔۔۔

چائے ہم شکیلہ کے گھر پیئنگے ۔۔۔۔

مسکرا کر بولی تھیں شاہدہ سے اور مڑ کر مین ڈور کی طرف بڑھ گئیں ۔۔۔۔

ایک منٹ ٹہرئے خالہ بی ۔۔۔ آپ کے ساتھ میں بھی چلتی ہوں ۔۔۔۔۔

میرے بولنے پر مڑ کر دیکھا تھا حیرت سے ۔۔۔۔

مگر تم وہاں جاکر کیا کروگی ۔۔۔۔

پتہ نہیں مگر آپ کی پروٹیکشن کے لئے میرا وہاں رہنا ضروری ہے ۔۔۔۔۔

میرے کہنے پر بغور مجھے دیکھا تھا ۔۔۔۔ پھر مسکرائیں تھیں ۔۔۔۔۔

میری حفاظت کے لئے اللہ کافی ہے ۔۔۔

جانتی ہوں ۔۔۔ مگر میں آپ کو اکیلے نہیں جانے دونگی ۔۔۔۔

اچھا چلو ۔۔۔۔ راحت جہاں تم گھر پر ہی پھر رکو ۔۔۔ ذکی آئے گا واپس تو پریشان ہوجائیگا ۔۔۔۔۔ ایک کا رکنا ضروری ہے ۔۔۔۔

یہ کہہ کر وہ میرے اور شکیلہ آنٹی کی ہمراہی میں باہر نکل گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

معوذتین اور آیت الکرسی پڑھ کر دم کرلو خود پر ۔۔۔۔۔ اگر بسمہ اللہ الذی یاد ہے تو وہ بھی تین دفع پڑھ لو آپ دونوں ۔۔۔۔

مجھے اور شکیلہ آنٹی کو ہدایت دی تو ہم دونوں نے ان کی ہدایت پر فوراً پڑھ کر خود پر دم کیا تھا ۔۔۔ اس کے بعد میں نے سورہ بقراء کی آہستہ آواز میں تلاوت شروع کردی تھی تو مجھے خالہ بی نے مسکرا کر بڑے غور سے دیکھا تھا ۔۔۔۔ گاڑی شکیلہ آنٹی کے گھر کی جانب تیزی سے بڑھ رہی تھی ۔۔۔۔

××××××××××××××××

ایس ایچ او ذیشان احمد ابھی ڈی ایس پی شاہد کی جھاڑ کھا کر اپنے کیبن میں واپس آیا تھا ۔۔۔۔۔ چہرا غصے کے سبب لال ٹماٹر جیسا ہو رہا تھا ۔۔۔۔ اگر اس کا بس چلتا تو اس رشوت خور آفیسر کی گردن مروڑ ڈالتا ۔۔۔۔ مگر مجبور تھا کچھ کر نہیں سکتا تھا ۔۔۔ ابھی بیٹھا سر ٹکائے کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ مخصوص بِپ کی آواز پر چونکا اُٹھا تھا ۔۔ اور آستین سے اٹیچڈ چھوٹے سے پاکٹ سے وہ باریک سی پتلی سی فون ٹائپ ڈوائیس نکالی تھی ۔۔۔۔ اور ڈوائیس کی سائیڈ پر نکتے کی طرح کا بٹن پش کیا تھا ۔۔۔ تو ٹک ٹک کی باریک آواز گونجنے لگی ۔۔۔۔ وہ بغور اس ٹک ٹک کو سنتا رہا پھر اس کے سانولے وجہیہ چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ پھیل گئی تھی ۔۔۔۔۔ آواز کے ختم ہونے پر ڈوائیس کو آستین کی مخصوص پاکٹ میں واپس رکھ کر اب وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تھا ۔۔۔۔ اسی وقت فون کی بیل بجی تھی تو فون اٹھا لیا ۔۔۔۔۔

یس سر ۔۔۔ جی بالکل ۔۔۔۔

آر یو ریڈی فور دِس مشن ینگ مین ۔۔۔۔۔

یس سر ۔۔۔۔ بٹ آئی ہیو ٹو ٹیل مائی فیملی فرسٹ سر ۔۔۔

اوکے ۔۔۔۔

لیکن ۔۔۔۔

لیکن کیا ۔۔۔۔ آئی جی سندھ کی آواز اُبھری تھی ۔۔۔۔

اس ڈی ایس پی شاہد کا کیا کروں سر ۔۔۔۔۔

اس کا تم مجھ پر چھوڑ دو ۔۔۔۔ اس کی چاروں اور بھی ہم گھیرا تنگ کر رہے ہیں ۔۔۔۔ ثبوت اکھٹے ہو چکے ہیں ۔۔۔
بس کچھ عرصے بعد ڈی ایس پی شاہد کا نام و نشان بھی مٹا دیا جائے گا ۔۔۔۔

اوکے سر ۔۔۔۔

کچھ کوڈ ورڈز میں اسے اس کے مشن کے بارے میں سمجھا کر ڈی آئی جی آف سندھ نے فون آف کردیا تھا ۔۔۔ اب وہ پر سکون انداز میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔ نانی جان اور چندہ پھو پھو سمجھتی تھیں کہ وہ ایک معمولی تھانے کا ایس ایچ او ہے اور بس ۔۔۔ مگر اس کی اصل جاب کے بارے میں کسی کو کچھ نہیں پتا تھا سوائے پاکستان کے مخصوص چیدہ افراد کے جن کا تعلق پاکستان کی سیکرٹ سروسز سے تھا ۔۔۔۔

××××××××××××××××

گاڑی شکیلہ آنٹی کے گھر کے دروازے کے باہر ڈرائیور نے روک دی تھی ۔۔۔۔ بیک سیٹ کا دروازہ کھول کر میں باہر نکلی تھی اور پھر خالہ بی میرے پیچھے اتری تھیں ۔۔۔ یہ ایک چھوٹا سا دوسو گز پر بنا دو منزلہ بنگلہ تھا ۔۔۔۔۔ شکیلہ آنٹی نے بیل بجائی تو ایک ادھیڑ عمر کے شخص نے دروازہ کھولا تھا ۔۔۔۔

اسلام علیکم شکیلہ ۔۔۔۔ اتنی دیر لگا دی تم نے ۔۔۔۔

وعلیکم اسلام اندر تو آنے دیں احمد ۔۔۔۔ میرے ساتھ خالہ بی بھی ہیں ۔۔۔۔۔۔

اوہ اچھا ۔۔۔۔ اسلام علیکم ۔۔۔۔۔۔

وعلیکم اسلام ۔۔۔۔ جیتے رہو ۔۔۔۔ اچھا شکیلہ بچی کا کمراہ دکھاؤ ہمیں ذرا ۔۔۔۔

جی ضرور آئیے ۔۔۔۔

وہ ادھیڑ عمر شخص کبھی اپنی بیوی کو اور کبھی خالہ بی کو حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ شکیلہ آنٹی ان کی حیرت سے انہیں دیکھنے کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنی بیٹی کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھیں ۔۔۔۔ بند کمرے کو کپکپاتے ہاتھوں سے کھولا تھا انہوں نے ۔۔۔۔۔ انکے پیچھے خالہ بی اور میں بھی اندر داخل ہوگئیں تھیں ۔۔۔۔ میری نظر بے خبر آڑھی ترچھی عجیب سے انداز میں سوتی ان کی بیٹی پر پڑی تھی تو میں اس پر ایک کالا سایہ سا دیکھ کر چونکی تھی ۔۔۔۔ جو اس کے جسم سے لپٹا اسی کے انداز میں سویا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ اس کے دونوں ہاتھ بیڈ کے پائینتوں سے بندھے ہوئے تھے اور پیر بھی ۔۔۔۔۔۔ ایک دم اس وحشت زدہ وجود میں حرکت ہوئی تھی اور رسیاں کھل گئی تھیں ۔۔۔۔ اور وہ ایک دم اپنے پنجوں پر کھڑی ہوگئی تھی ۔۔۔ اور خونخوار نظروں سے خالہ بی کو گھورنے لگی ۔۔۔۔ اس کے اس طرح خالہ بی کو گھورنے پر پتہ نہیں مجھے کیا ہوا میں ایک دم خالہ بی کے پیچھے سے نکل کر خالہ بی اور اس کے درمیان خالہ بی کی ڈھال بن کر کھڑی ہوگئی تھی ۔۔۔۔۔ پہلے تو وہ لڑکی چونکی تھی پھر مجھے اپنی بڑی بڑی وحشت زدہ نظروں سے گھورا تھا اور ایک دم وہ دو قدم بیڈ پر پیچھے ہٹی تھی ۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں واضح خوف اور گھبراہٹ میں نے دیکھی تھی ۔۔۔۔۔

نائلہ پیچھے ہٹو بیٹا ۔۔۔

خالہ بی نے چیخ کر مجھ سے کہا تھا ۔۔۔۔ اور پیچھے سے بازو پکڑ کر مجھے پیچھے کرنے کی کوشش کی تھی ۔۔۔۔

تت تم کون ہو ۔۔۔۔

ایک عجیب مردانہ کھر کھراتی آواز میں مجھ سے پوچھا تھا اس لڑکی نے ۔۔۔۔

چھوڑ دو اس لڑکی کو ۔۔۔۔۔

میں سخت لہجے میں بولی تھی اس سے ۔۔۔۔۔۔

مر جاؤنگا! مگر اسے نہیں چھوڑ سکتا ۔۔۔۔۔

اچھا میں مسکرائی تھی اس کی بات سن کر ۔۔۔۔

ایسا ہے تو ایسے ہی سہی ۔۔۔۔

اور اس کی طرف مسکراکر چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔۔ سورہ بقراء کی تلاوت زبان پر جاری تھی ۔۔۔۔ مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر وہ عجیب خوف اور غصے کی کیفیت میں آگئی تھی ۔۔۔ چہرا ایک دم بھیانک سا ہوگیا تھا ۔۔۔۔ نچلا ہونٹ لٹک کر گردن تک آگیا تھا ۔۔۔۔ اس سے پہلے کے میں اس تک پہنچتی اس نے مجھ پر حملہ کردیا تھا ۔۔۔۔ اپنی جگہ سے اچھل کر وہ مجھ پر گری تھی ۔۔۔ مگر میں نے اسے وہیں مجھ پر گرنے سے پہلے ہی دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کر پکڑ لیا تھا ۔۔۔۔۔ وہ مچلی تھی ۔۔۔۔

چھوڑدے مجھے چھوڑدے ۔۔۔۔

مگر میں اسے اسی طرح اُٹھائے اس کے بیڈ تک لے آئی تھی ۔۔۔ پھر اسے بیڈ پر پٹخا تھا ۔۔۔۔ اور اس کالے ہیولے کو اللہ کا نام لے کر اس لڑکی کے جسم سے کھینچا تھا ۔۔۔ اور وہ میرے ہاتھوں میں لپٹا اس کے جسم کو چھوڑتا چلا گیا ۔۔۔ اب میری سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا اس وقت کے اب کیا کروں ۔۔۔۔ وہ کالا ہیولا میرے ہاتھوں میں مچل رہا تھا ۔۔۔۔ اس کی غرابٹوں سے کمراہ گونج رہا تھا ۔۔۔۔ مگر میں اس میں اناڑی تھی ۔۔۔۔۔ پتا نہیں وہ کونسی طاقت تھی جس نے مجھ سے اتنا سب کچھ کرا لیا تھا ۔۔۔ مگر آگے اس کالے ہیولے کا کیا کرنا ہے میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا ۔۔۔۔ اچانک مجھے دھکا لگا تھا ۔۔۔ اس نے پوری قوت سے مجھے دھکا دیا تھا ۔۔۔ جس کی بدولت میں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکی اور زمین پر گر گئی میری گرفت کمزور ہوگئی تھی تو وہ ایکدم میرے چنگل سے نکل کر تیزی سے کمرے سے باہر نکل کر غائب ہوگیا ۔۔۔۔۔ میں کپڑے جھاڑتے ہوئے اُٹھ بیٹھی ۔۔۔ جب نظر خالہ بی اور شکیلہ آنٹی اور ان کے شوہر پر پڑی تو ان سب کو حیرت سے خود کو دیکھتے پایا ۔۔۔۔۔ ان کے ساتھ ایک اور لڑکی کھڑی تھی ۔۔۔ جس کو دیکھ کر میں چونکی تھی ۔۔۔۔۔ وہ بھی حیرت سے مجھے دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔

تم ٹھیک ہو ۔۔۔۔۔

خالہ بی نے آگے بڑھ کر میرے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا تھا ۔۔۔

جج جی ۔۔۔۔

ہمممم ! شکیلہ بچی کے ہوش میں آتے ہی فوراً اسے نہلا دھلا کر نماز پڑھاؤ اور سورہ بقراء کی تلاوت پورا گھر ہی کرے تو بہتر ہے ۔۔۔ تاکے ایسے اللہ کے دشمنوں سے بچا جا سکے ورنہ پھر غفلت میں دیکھ کر وہ پھر سے حملہ کرسکتا ہے ۔۔۔۔

جی ضرور ۔۔۔ ازمینہ چائے تو بناؤ ۔۔۔۔

نہیں اب میں چلتی ہوں ۔۔۔ کل پھر آؤنگی انشاء اللہ ۔۔۔۔

یہ کہتے ہوئے خالہ بی میرا ہاتھ پکڑ کر گھر سے نکل گئیں ۔۔۔۔ گاڑی میں خاموشی سے بیٹھ گئیں ہم دونوں تو ڈرائور کو گھر چلنے کا کہہ کر میری طرف بہت غور سے دیکھا تھا انہوں نے ۔۔۔۔۔

میں سچ سننا چاہتی ہوں نائلہ ۔۔۔۔۔

جج جی ! کک کونسا سچ ۔۔۔۔

میں نے گھبرا کر انہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔

وہی سچ جو نائلہ اسفند کے لبادے میں تم نے چھپا کر رکھا ہے ۔۔۔۔ بیٹا اب جھوٹ نہیں بولنا ۔۔۔۔ اور ویسے بھی تم مجھ پر پورا بھروسہ کرسکتی ہو ۔۔۔۔۔ اب بتاؤ تم کون ہو ۔۔۔۔۔

میں یک ٹک انہیں دیکھے گئی ۔۔۔۔ دل بہت تیزی سے دھڑکنے لگا تھا ۔۔۔۔

×××××××××××

باقی آئندہ ۔۔۔۔۔۔
 

farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 230247 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More