ڈاکٹر ظہیر اپنے کیبن میں بیٹھے ہوئے تھے ۔۔۔۔ انکے سامنے
جدید لیپ ٹوپ رکھا ہوا تھا جس کے کی پیڈ پر ان کی انگلیاں تیزی سے حرکت کر
رہی تھیں ۔۔۔۔ میلو نوما (جلدی کینسر ) پر اپنی رسیرچ کو لفظوں میں ڈھال
رہے تھے ۔۔۔ کچھ عرصے بعد جلدی امراض پر ایک سمینار منعقد ہونے والا تھا
۔۔۔ اس سمینار کا مقصد عوام میں مختلف جلدی امراض سے متعلق شعور بیدار کرنا
تھا ۔۔۔۔ اور عمو ماً میلونوما ٹائپ کینسر کے کیسز پاکستان میں کم نظر آتے
تھے مگر اب سن دوہزار بیس کے بعد سے ان کی تعداد پاکستان میں کافی بڑھ چکی
تھی ۔۔۔ اسی موذی مرض پر انہیں بھی اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی تھی ۔۔۔۔
ابھی وہ اپنی رسیرچ کے اہم نکات کو اپنی تقریر میں شامل کر ہی رہے تھے کہ
ان کا سیل فون بج اُٹھا ۔۔۔۔ جو لیپ ٹاپ کے قریب ہی میز پر رکھا ہوا تھا
۔۔۔ اُٹھا کر دیکھا تو اس کی چھوٹی سی اسکرین پر ان کی عزیز ازجان دادو کا
سیل نمبر بلنک کر رہا تھا ۔۔۔۔
اسلام علیکم دادو ۔۔۔۔۔
وعلیکم اسلام ۔۔۔ بیٹا آج واپسی کب تک ہے تمہاری ۔۔۔۔
جی ابھی ایک سرجری سے فارغ ہوا ہوں ۔۔۔۔ خیریت تو ہے ناں دادو ۔۔۔۔ آپ کی
طبیعت کیسی ہے ۔۔۔۔ دادا جانی تو ٹھیک ہیں ناں ۔۔۔
تمہارے دادا جانی کو کچھ نہیں ہوا اور میں تو آلویز سلم اینڈ ہیلدی سو ڈونٹ
ورری اباؤٹ اس ۔۔۔ فکر تو تمہاری لگی ہوتی ہے یا پھر شانی کی ۔۔۔۔ اگر آج
کوئی سرجری نہیں ہیں اور نہ کسی پیشنٹ کو تمہیں دیکھنا ہے تو پلیز آج جلدی
آجاؤ ۔۔۔۔
جو حکم میم ۔۔۔۔
تھینکس لیکن سلو ڈرائیو کرنا اوکے ۔۔۔۔
جی ۔۔۔۔
ان کی آخری بات پر لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی تھی ۔۔۔۔ دادو ہمیشہ انہیں سلو
ڈرائیو کی تاکید کیا کرتی تھیں ۔۔۔ حالانکہ وہ بڑے محتاط ڈرائیور تھے ۔۔۔۔
اور یہ بات دادو کو بھی پتہ تھی ۔۔۔۔۔
اپنے لکھنے کو موءخر کر کے وہ لیپ ٹاپ بند کر کے اپنے کیبن سے باہر نکل گئے
۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد انکی نیو ہونڈا اکارڈ سڑک پر دوڑ رہی تھی ۔۔۔ اس وقت
شام کے چار بج چکے تھے ۔۔۔۔ مگر سڑکیں سنسان تھیں اِکا دُکا گاڑیاں ہی سڑک
پر نظر آرہی تھیں ۔۔۔ ویسے بھی انکا پرائیویٹ ہسپتال شہر سے ذرا دور ہی تھا
۔۔۔۔۔ ابھی ان کی گاڑی کچھ میل ہی چلی ہوگی کہ وہ اپنی گاڑی کے قریب سے
تیزی سے گزرتی ہوئی گاڑی کو دیکھ کر چونک گئے تھے ۔۔۔۔ ان کے چونکنے کا سبب
پیچھے بیٹھی وہ لڑکی تھی جو اپنے آگے بیٹھے شخص سے الجھ رہی تھی اور اس نے
اس کے سختی سے بال پکڑ لئے تھے ۔۔۔۔ ڈرائیونگ کرتا شخص اپنے ساتھی کو اس
لڑکی سے چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔۔ جس کے سبب گاڑی آڑی ترچھی چل رہی
تھی ۔۔۔۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ معاملہ کچھ گڑ بڑ ہے ۔۔۔ اس لئے اس گاڑی کا
پیچھا کرنے لگے ۔۔۔۔ اب تھوڑی دور جا کر وہ گاڑی ایک دم دو جھٹکے کھا کر رک
گئی تھی ۔۔۔ تو ڈاکٹر ظہیر نے بھی اپنی گاڑی روک دی اور اپنا لیگل پستول
اپنی گاڑی کے ڈروور سے نکال کر باہر نکل آئے ۔۔۔۔۔ جیسے ہی محتاط انداز میں
اس گاڑی تک پہنچے ہی ہونگے کے ۔۔۔۔ دو لڑکوں اور ایک لڑکی کی غصے بھری آواز
ان کے سماعتوں سے ٹکرائی ۔۔۔۔۔
ابے سالی تجھے ایسا مزا چھکاؤنگا کے ساری عمر یاد رکھے گی ۔۔۔۔۔
کلو خدا کی قسم ۔۔۔۔ تجھے میں زندہ نہیں چھوڑونگی ۔۔۔۔
دیکھ خالد (کلو) یہاں گاڑی روکنا خطرناک ہے ۔۔۔ ہم کچے راستے سے نکلنے کی
کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔ پھر اس نجو سے حساب بے باق کر لینا ۔۔۔۔
لڑکے کے گاڑی اسٹارٹ کرنے پر ڈاکٹر ظہیر چونکے تھے ۔۔۔ پھر گاڑی کے پچھلے
دونوں ٹائروں کا نشانہ لے کر فائر کردیا ۔۔۔ سائیلنسر لگے ہونے کی سبب فائر
کی آواز نہیں گونجی ۔۔۔ لیکن پُھس کی آواز کے ساتھ دونوں ٹائر فلیٹ ہوگئے
۔۔۔
×××××××××××××××
اسے اب پوری طرح ہوش آچکا تھا ۔۔۔۔ اور جب اسے یہ پتا چلا کہ سر ابرار اس
کے گھر اس دن آئے ہوئے تھے جب اس نے خودکشی کی کوشش کی تھی تو شرمندگی کے
مارے وہ ان سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا ۔۔۔۔۔ سر ابرار اس کی کیفیت کو
سمجھ رہے تھے ۔۔۔۔ جب شبنم کسی وجہ سے وارڈ سے باہر گئی تب وہ اس کے قریب
پڑی کرسی پر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔ اور اپنا ہاتھ اس کے شانےپر رکھ دیا ۔۔۔ تو
وہ چونک کر انہیں دیکھنے لگا ۔۔۔۔ اور پھر اس کی حسین آنکھوں میں آنسو آگئے
تھے ۔۔۔۔
تمہیں بہت جلد ڈسچارج کردیا جائے گا ۔۔۔۔ ویسے میں نے تمہارا اگزامینیشن
فارم جمع کرا دیا ہے ۔۔۔ سو پلیز اب اپنی پڑھائی پر فوکس کرو ۔۔۔۔
لیکن میں اب آگے پڑھنا نہیں چاہتا ۔۔۔
کیوں؟
بس ۔۔۔۔ اب من نہیں کرتا ۔۔۔۔
ہممم ۔۔۔۔ (تھوڑے وقفے کے بعد اسے بغور دیکھتے ہوئے ) مگر میں چاہتا ہوں کہ
تم نہ صرف ایم بی اے کرو بلکہ آگے بھی اپنی اسٹڈیز کو کنٹینیو کرو ۔۔۔۔
تمہارا فیوچر بہت برائیٹ ہے اور میں تمہیں اسے خراب کرنے کی اجازت نہیں دے
سکتا ۔۔۔۔
سر پڑھ لکھ کر مجھے کیا کرنا ہے ۔۔۔۔ ویسے بھی ہم جیسوں کو نوکری کہاں ملنی
ہے ۔۔۔۔۔
وہ اس کی بات سن کر مسکرائے تھے ۔۔۔ اور پھر کرسی سے اُٹھ کر اس کے بیڈ کے
سامنے اس بڑی سی کھڑکی کے قریب جا کر کھڑے ہوگئے اور اس کی طرف پشت کرکے
کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے گویا ہوئے ۔۔۔
جانتے ہو شہباز کامیابی کبھی کسی مایوس انسان کو نہیں مل پاتی ۔۔۔ کیونکہ
وہ پہلے سے ہی خود کو باور کرالیتا ہے کہ وہ کچھ بھی کرلے وہ کامیاب نہیں
ہوسکتا ۔۔۔۔ اسی لئے وہ ہر فیلڈ میں ناکام اور نامراد ہی رہتا ہے ۔۔۔ مگر
اگر وہ مایوسی کے اندھیروں سے نکل آئے اور اللہ پر اور اپنی محنت پر بھروسہ
کرلے تو پھر اللہ آگے اس کے لئے راہیںکھولتا جاتا ہے ۔۔۔۔ مگر شرط ایک ہی
ہے یقین کی اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے خود پر اعتبار کی اپنی محنت اور لگن
کے کامیاب ہونے کی ۔۔۔
اپنی بات کے مکمل ہونے پر وہ اس کی طرف پلٹے تھے ۔۔۔ اور چھوٹے چھوٹے قدم
اُٹھاتے ہوئے اس کی طرف آئے تھے ۔۔
میں نے تمہارے اندر ایک عجیب سی لگن اور جستجو دیکھی ہے ۔۔۔۔ تمہارے
اسائینمنٹس ۔۔۔ تمہاری ڈبیٹ کا انداز ۔۔۔ تمہارے سوچنے اور چیزوں کو سمجھنے
کا انداز سب سے مختلف اور زبردست ہے ۔۔۔۔ پروفیسر غفور سے دو دن پہلے ہی
میری بات ہورہی تھی جن کا کہنا تھا کہ تم جیسا اسٹوڈنٹ انہوں نے اپنے چالیس
سالہ پروفیسری میں نہیں دیکھا ۔۔۔۔ اور رہی بات تمہارے تیسری صنف سے تعلق
رکھنے کی تو تم خود بتاؤ کس انسان کو اللہ نے مکمل بنایا ہے ۔۔۔ کسی کو بھی
نہیں اگر اللہ نے تمہیں ایک کمزوری کے ساتھ پیدا کیا بھی ہے تو تمہیں بے
حساب نوازا بھی ہے ۔۔۔ اس لئے اس کا شکر ادا کرو ۔۔۔۔ گلے شکوے کرنے کی
بجائے اس کی دی ہوئے ذہانت کو کام میں لاؤ ۔۔۔
وہ انکی باتیں بڑے غور سے سن رہا تھا ۔۔۔۔ اتنے میں شبنم بھی وارڈ میں واپس
آگئی تھی ۔۔۔۔ تو پروفیسر ابرار خاموش ہوگئے ۔۔۔۔۔
ابھی نرس سے بات ہوئی ہے ۔۔۔ بول رہی تھی کہ کل ہی ڈسچارج کردینگے ۔۔۔۔ آپ
کا بہت بہت شکریہ صاحب ۔۔۔ اللہ آپ کو اچھا رکھے ۔۔۔ سکھ کے جھولے میں
جھولو صاحب ۔۔۔۔ ابھی گرو جی کا بھی فون آیا تھا ۔۔۔۔ آنے کا کہہ رہی تھی
میں نے منع کردیا ۔۔۔ اب کل چھٹی تو مل ہی رہی ہے ۔۔۔۔ باجے تاشے بجائینگے
بول رہی تھی ۔۔۔۔ درگاہ پر چادر بھی چڑھا دی تھی منت کی اس نے ۔۔۔۔ مگر
میرا شہباز تو ان چیزوں کو مانتا ہی نہیں ۔۔۔۔
ہمممم ! چلیں اچھا ہے ۔۔۔۔ مگر کل آپ اپنے گھر نہیں جائینگے ۔۔۔ اور شہباز
تو قطعی نہیں ۔۔۔۔
کک کیا مطلب صاحب ۔۔۔۔۔
شبنم حیرت سے بولی تھی ۔۔۔۔ شہباز نے بھی چونک کر انہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔
زمانے بھر کی حیرت دونوں کی آنکھوں سے چھلک رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔
×××××××××
وہ کچھ بے چین سی گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی بار بار زیبو کا چہرا اس کی
نظروں میں گھوم رہا تھا ۔۔۔۔ کتنی محنت کرتی تھی وہ اپنی ساری تنخواہ لاکر
اماں کے ہاتھوں پر رکھ دیتی تھی ۔۔۔۔ ابا تو پھوٹی کوڑی نہیں دیتے تھے ۔۔۔۔
دمے کا بہانہ بنا کر ویسے بھی دو دو دن دکان پر جاتے ہی نہیں تھے ۔۔۔۔۔ اگر
کبھی گھر پر کچھ دے دلا بھی دیا تو کئی دن تک اکڑے اکڑے پھرتے ۔۔۔۔۔ اور
اماں اور زیبو کی کمائی پر اپنا پورا حق جمانا نہیں بھولتے تھے ۔۔۔۔ ابا کی
گھر سے لاپرواہی اور ان خی خود غرضی کی بدولت ہی بعض دفع کھانے کے لالے پڑ
جاتے ۔۔۔۔ مگر انہیں کوئی فکر ہی نہیں تھی فقت خود کا پیٹ بھرا ہو اور بس
۔۔۔۔۔ وہ انہیں باتوں کو سوچ رہی تھی اپنی بہن کے ساتھ گزارے پل دماغ کی
اسکرین پر کسی فلم کی طرح چل رہے تھے تبھی غور ہی نہیں کرپائی کے گاڑی شہر
سے باہر نکل چکی ہے اور سنسان سڑک پر دوڑنے لگی ہے ۔۔۔۔ جب بے خیالی میں
کھڑکی سے باہر دیکھا تو چونکی تھی ۔۔۔۔
یہ تم کہاں لے جارہے ہو ہمیں ۔۔۔۔ لیاقت ہوسپٹل تو بہت پیچھے رہ گیا ۔۔۔۔۔
وہ غصے سے بولی تھی ۔۔۔۔ تب خالد(کلو) اور شاہد مکروعہ ہنسی ہنسنے لگے ۔۔۔۔
میری جان ۔۔۔۔ ہم تمہیں ایسی نگری لے جارہے ہیں ۔۔۔۔۔ جہاں ہم دونوں ہونگے
اور تم ۔۔۔۔ اوہ ہاں چھیکے کو ہم چوکیداری پر رکھ لیتے ہیں ۔۔۔۔ کیوں شاہد
۔۔۔۔۔
ذلیل ۔۔۔۔ کمینے ۔۔۔۔۔ میں تمہارا خون پی جاؤنگی ۔۔۔۔۔۔
وہ ایک دم ان کی توقع کے برخلاف اچانک اپنے آگے بیٹھے شاہد پر حملہ آور
ہوئی تھی اور سختی سے اس بال پکڑ لئے تھے اس کی دیکھا دیکھی چھیکے نے بھی
گاڑی چلاتے کلو پر حملہ کردیا اور اپنے کمزور ہاتھوں سے اس کی گردن پکڑ لی
۔۔۔۔ اس افتاد سے دونوں ہی گھبرا گئے تھے مگر کلو کا بھاری ہاتھ اس نحیف
اور مینٹلی رٹارڈت بچے پر گھونسے کی صورت پڑا تو وہ بیک سیٹ پر گر تے ہی بے
ہوش ہوگیا ۔۔۔۔ مگر نجو تو نجو تھی شاہد کے بالوں کو ایسے سختی سے جکڑا تھا
۔۔۔ کہ شاہد چھڑا نہیں پا رہا تھا ۔۔۔۔۔ کلو نے مدد کرنے کی کوشش کی مگر
گاڑی ڈولنے لگی تبھی اس نے سنسان جگہ پر گاڑی روک دی اور پلٹ کر نجو کو ایک
تھپڑ رسید کردیا ۔۔۔۔ مگر ہمت تھی اس لڑکی کی اس پر بھی اس نے شاہد کے بال
نہ چھوڑے بلکے گرفت اور مضبوط کر لی ۔۔۔۔ تبھی کلو نے اس کے سر پر گھونسا
ماردیا ۔۔۔ جس پر وہ پیچھلی سیٹ پر گری تھی ۔۔۔
ابے سالی تجھے ایسا مزا چھکاؤنگا کے ساری عمر یاد رکھے گی ۔۔۔۔۔
کلو خدا کی قسم ۔۔۔۔ تجھے میں زندہ نہیں چھوڑونگی ۔۔۔۔
دیکھ خالد (کلو) یہاں گاڑی روکنا خطرناک ہے ۔۔۔ ہم کچے راستے سے نکلنے کی
کوشش کرتے ہیں ۔۔۔۔ پھر اس نجو سے حساب بے باق کر لینا ۔۔۔۔
اچھا تو اسے سنبھال میں گاڑی چلاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔
اتنا کہہ کر اس نے گاڑی اسٹارٹ کی ہی تھی کے پھس کی آواز آئی تھی ۔۔۔۔ ابھی
وہ سنبھل بھی نہ پائے تھے کے ایک بھاری آواز گونجی تھی ۔۔۔۔
تم دونوں شرافت سے ہاتھ اوپر اُٹھا کر باہر نکل آؤ ۔۔۔۔ ورنہ تمہیں گولیوں
سے بھون دیا جائے گا ۔۔۔۔۔
اس آواز پر ان دونوں کے ساتھ وہ بھی چونکی تھی ۔۔۔۔۔ مگر قریب آڑھے ترچھے
بے ہوش پڑے بھائی پر نظر پڑی تو اس پر جھک کر اسے اوپر اُٹھانے کی کوشش
کرنے لگی ۔۔۔۔ وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے لگے تھے ۔۔۔۔ خوف اور پولیس کی
دہشت ان دونوں کے چہروں پر چھا گئی تھی ۔۔۔۔۔
ایک منٹ کی محلت دیتا ہوں ادر وائیس آئی ویل اوپن دی فائر ۔۔۔۔ ون ٹو ۔۔۔۔
ایک دم ہی دروازہ کھلا تھا دونوں سائیڈ کا اور وہ دونوں ہاتھ اوپر اُٹھا کر
باہر نکل آئے تھے ۔۔۔۔ مگر سامنے ایک ہی شخص کو بغیر وردی کے پستول ہاتھ
میں لئے کھڑے دیکھا تو ایک سکینڈ نہیں لگایا وہاں سے بھاگنے میں ۔۔۔ مگر دو
قدم پر ہی گر پڑے اور ہائے ہائے کرنے لگے ۔۔۔۔۔ دونوں کے پیروں سے خون
نکلنے لگا تھا ۔۔۔۔ ڈاکٹر ظہیر نے ان کے پیروں کا نشانہ لے کر فائر کردیا
تھا ۔۔۔۔ ان دونوں کی طرف سے اطمینان کرلینے کے بعد وہ تیزی سے گاڑی کے
قریب آکر اس کی پچھلی سیٹوں کی طرف جھانکا تھا ۔۔۔ جہاں وہ اٹھارہ انیس سال
کی لڑکی ایک وجود پر جھکی اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہی تھی ۔۔۔
××××××××××××
باقی آئندہ ۔۔۔۔۔
|