زیارت مزرات صالحین

حضور نبی کریم رؤف الرحیم امام الانبیاء والمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنفسِ نفیس شہداء اور صالحین کی قبور پر تشریف لے جا کر دعا فرمائی اور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم کا بھی یہ معمول رہا۔

’’حضرت محمد بن ابراہیم التیمی سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سال کے آغاز میں شہداء کی قبروں پر تشریف لاتے تھے اور فرماتے : تم پر سلامتی ہو تمہارے صبر کے صلہ میں آخرت کا گھر کیا خوب ہے۔ روای نے کہا : حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔المصنف، 3 : 573،امام عبدالرزاق (م 211ھ) عمدة القاري، 8 : 70،عينی،’’جامع البیان فی تفسیر القرآن (13 : 142)‘‘ امام طبری (م 310ھ)،’’تفسیر القرآن العظیم (2 : 512)‘‘ امام ابنِ کثیر (م 774ھ)،الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور (4 : 641)‘‘ امام سیوطی (م 911ھ)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : چلو حضرت اُم ایمن کی زیارت کر کے آئیں جس طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے۔‘‘
مسلم،فضائل الصحابة، باب من فضائل أم أيمن، 4 : 1907، رقم : 2454
ابن ماجة، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاته ودفنه، 1 : 523، رقم : 1635

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’میری محبت واجب ہو گئی : میری خاطر آپس میں محبت کرنے والوں، میری خاطر مجلسیں قائم کرنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں اور میری خاطر خرچ کرنے والوں کے لئے۔
المستدرک، 4 : 186، رقم : 7314 ،حاکم،
الموطأ، 2 : 953، رقم : 171۔امام مالک

حضرت ادریس خولانی بیان کرتے ہیں کہ میں مسجد دمشق میں داخل ہوا تو اچانک میں نے ایک خوبصورت چمکتے ہوئے دانتوں والا نوجوان دیکھا جس کے ساتھ کچھ لوگ تھے (ایک روایت میں ہے : اس نوجوان کے ساتھ بیس صحابہ اور ایک روایت میں تیس صحابہ تھے) جب وہ کسی چیز میں اختلاف کرتے تو اس کی طرف متوجہ ہوتے اور اس کے اقوال سے مدد لیتے۔ میں نے اس نوجوان کے بارے میں پوچھا تو کہا گیا یہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں، جب اگلا دن ہوا تو میں جلدی سے مسجد پہنچا وہاں میں نے اس نوجوان کو خود سے پہلے وہاں پہنچا ہوا اور نماز پڑھتے ہوئے پایا۔ آپ کہتے ہیں : میں نے ان کا انتظار کیا یہاں تک کہ وہ نماز سے فارغ ہوئے۔ پھر میں ان کے پاس ان کے سامنے سے آیا۔ میں نے انہیں سلام کیا، اور پھر عرض کیا : خدا کی قسم! میں آپ سے اللہ تعالیٰ کے واسطے محبت کرتا ہوں۔ انہوں نے فرمایا : کیا واقعی اللہ تعالیٰ کے لیے؟ میں نے کہا : ہاں اﷲ تعالیٰ کے لیے۔ انہوں نے پھر پوچھا : اللہ تعالیٰ کے لیے؟ میں نے کہا : ہاں اﷲ تعالیٰ کے لیے۔ انہوں نے میری چادر کا کنارہ پکڑا (اور ایک روایت میں ہے میری چادر کے دونوں کنارے پکڑے) اور مجھے اپنی طرف کھینچ کر فرمایا : تمہیں خوشخبری ہو، میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میری خاطر محبت کرنے والوں، میری خاطر آپس میں بیٹھنے والوں، میری خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرنے والوں اور میری خاطر ایک دوسرے پر خرچ کرنے والوں کے لیے میری محبت واجب ہے۔
المسند، 5 : 233، رقم : 22083 ،امام أحمد بن حنبل،

حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
جنت کے اندر کئی قیام گاہیں ایسی ہیں جن کی بیرونی زیب و زینت اندر سے اور اندرونی خوبصورتی باہر سے دیکھی جاسکتی ہے۔ یہ اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے تیار فرمائے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی رضا کے لئے ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں، اُسی کی خاطر ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور اسی کی خوشنودی کے لئے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔
الترغيب والترهيب، 3 : 248، رقم : 3896 ،منذری

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ایک شخص اپنے مسلمان بھائی سے ملنے کسی دوسرے گاؤں چلا گیا تو اﷲ تعالیٰ نے اس کے راستہ میں ایک فرشتہ اس کے انتظار میں بٹھا دیا۔ جب وہ اس کے پاس سے گزرا تو فرشتہ نے پوچھا، تیرا ارادہ کہاں جانے کا ہے؟ اس نے جواب دیا : اس بستی میں میرا ایک بھائی ہے اس سے ملنے کا ارادہ ہے۔ فرشتہ نے پوچھا، کیا تم نے اس پر کوئی احسان کیا تھا جس کا بدلہ حاصل کرنے جا رہے ہو؟ اس نے کہا : نہیں بلکہ مجھے اس سے صرف اﷲ تعالیٰ کے لئے محبت ہے۔ تب اس فرشتہ نے کہا : میں تمہارے پاس اﷲ تعالیٰ کا یہ پیغام لایا ہوں کہ جس طرح تم اس شخص سے محض اﷲ تعالیٰ کی رضا کی خاطر محبت کرتے ہو اسی طرح اﷲ تعالیٰ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔
مسلم،کتاب البر والصلة، باب في فضل الحب في اﷲ، 4 : 1988، رقم : 2567

ائمہِ احناف میں سے علامہ عبدالرحمٰن عمادی حنفی زیارتِ صالحین کو مقبولِ بارگاہ عمل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں
بے شک صالحین کی زیارت بلند درجہ باعث ثواب عمل ہے۔ یہ ان آزمودہ اعمال میں سے ہے جن کے ذریعہ برکات کی بارش ہوتی ہے۔ ہمیں (ان کی برکات کے) عطیات کو حاصل کرنے کا حکم ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کی قیام گاہیں قبولیتِ دُعا کے لئے مجرب جگہیں تصور کی جاتی ہیں۔
الروضة الريا فيمن دفن بداريا، 1 : 55
’’حصولِ برکت کے لیے قبورِ صالحین کی زیارت مستحب عمل ہے کیونکہ صالحین کی برکات جس طرح ان کی زندگی میں فیض رساں ہوتی ہے اسی طرح ان کی موت کے بعد بھی جاری رہتی ہے اور صالحین کی قبروں کے پاس دعا کرنا اور ان سے شفاعت طلب کرنا ائمۂ دین اور علماءِ محققین کا معمول رہا ہے۔
المدخل، 2 : 255 ،علامہ ابن الحاج ، ’’سفینۃ النجاء لاھل الالتجاء،امام ابو عبداﷲ بن نعمان

’’متعلم کے لئے ضروری ہے کہ ان اولیاء و صالحین کی زیارت سے اپنے آپ کو علیحدہ نہ کرے جن کی زیارت سے مُردہ دل اس طرح زندہ ہوتے ہیں جس طرح زمین موسلادھار بارش سے زندہ ہوتی ہے۔ ان کی زیارت سے پتھر دل نرم و کشادہ ہوتے ہیں۔ ان کی زیارت کی برکت سے مشکل اُمور آسان ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ اﷲ تعالیٰ جو کریم اور منان ہے اس کی بارگاہ میں حاضر رہتے ہیں۔ وہ ان کے ارادوں کو رد نہیں فرماتا اور ان کے ہم مجلس، ان کی پہچان رکھنے والوں اور ان سے محبت کرنے والوں کو ناکام و نامراد نہیں کرتا۔ اس لئے کہ وہ اﷲتعالیٰ کا بابِ رحمت ہیں جو اس کے بندوں کے لئے کھلا رہتا ہے۔ پس جو بندۂ خدا ایسی صفات سے متصف ہو اس کی زیارت اور اس کی برکت سے مستفیض ہونے کے لئے جلدی کرنی چاہیے کیونکہ ان میں بعض ہستیوں کی زیارت کرنے والے کو ایسا فہم، برکت اور حافظہ نصیب ہوتا ہے کہ بیان کرنے سے باہر ہے۔ اسی معنی کی بدولت آپ بہت سے ایسے لوگوں کو دیکھیں گے کہ ان کو علم و حال میں کثیر برکت ملی۔ اس نعمت کی قدر کرنے والا خود کو اس عظیم خیرو برکت سے علیحدہ نہیں کرتا لیکن شرط یہ ہے کہ جس کی زیارت کی جائے وہ ان تمام اُمور میں سنت کا محافظ اور تابع شریعت ہو۔
المدخل، 2 : 139 ،علامہ ابن الحاج الفاسی المالکی (م 737ھ)

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ
’’اُن کی قبر مبارک پر قبہ بنایا گیا، اس کی زیارت کی جاتی ہے اور اس سے برکت حاصل کی جاتی ہے۔
التحفة اللطيفة في تاريخ المدينة الشريفة، 1 : 307 ،امام شمس الدین سخاوی (متوفی 902ھ)

امام شافعی، امام ابو حنیفہ (متوفی 150ھ) کے مزار کی برکات کے بارے میں خود اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’میں امام ابو حنیفہ کی ذات سے برکت حاصل کرتا ہوں اور روزانہ ان کی قبر پر زیارت کے لیے آتا ہوں۔ جب مجھے کوئی ضرورت اور مشکل پیش آتی ہے تو دو رکعت نماز پڑھ کر ان کی قبر پر آتا ہوں اور اس کے پاس (کھڑے ہوکر) حاجت برآری کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں۔ پس میں وہاں سے نہیں ہٹتا یہاں تک کہ (قبر کی برکت کے سبب) میری حاجت پوری ہوچکی ہوتی ہے۔
تاريخ بغداد، 1 : 123 ،خطیب بغدادی (463ھ)،
رد المحتار علي الدر المختار، 1 : 41،ابن عابدين شامی
الخيرات الحسان في مناقب الإمام الأعظم : 94 ،ابن حجر هيتمی

امام احمد رحمۃ اللہ علیہ بن حنبل
کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ محمد بن یوسف الفریابی کی زیارت کے لئے سفر کر کے ملک شام گئے تھے۔
’’المقصد الارشد (1 : 193)علامہ ابنِ مفلح

امام ابنِ حبان رحمۃ اللہ علیہ ،امام علی رضی اللہ عنہ رضا کے مزار پر
مشہور محدّث امام ابنِ حبان (م 354ھ) فرماتے ہیںمیں حضرت امام علی رضا بن موسیٰ علیہ السلام کے مزار مبارک کی کئی مرتبہ زیارت کی ہے، شہر طوس قیام کے دوران جب بھی مجھے کوئی مشکل پیش آئی اور حضرت امام موسیٰ رضا رضی اللہ عنہ کے مزار مبارک پر حاضری دے کر، اللہ تعالیٰ سے وہ مشکل دور کرنے کی دعا کی تو وہ دعا ضرور قبول ہوئی، اور مشکل دور ہوگئی۔ یہ ایسی حقیقت ہے جسے میں نے بارہا آزمایا تو اسی طرح پایا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور نبی اکرم اور آپ کے اہلِ بیت صلی اﷲ وسلم علیہ وعلیہم اجمعین کی محبت پر موت نصیب فرمائے۔
کتاب الثقات، 8 : 457، رقم : 14411،ابن أبي حاتم رازی
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1292180 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.