ننھی سی ، کومل سی، نیلی آنکھیں، ہنستا مسکراتا چہرہ نا
جانے کس کی نظر لگ گئی، اپنے امی اور ابا کو عمرہ کی ادائیگی کے لیے خوشی
خوشی الوداع کہا اور اپنے ماموں کے کے گھر رہنے لگی، اس امید پر کے اس کے
امی ابو عمرہ کی سعادت حاصل کر کے واپس لوٹیں گے تو وہ انہیں خوشی خوشی
لینے جائے گی، اچھے کپڑے پہن کر، اپنے عزیز رشتے داروں کے ساتھ ۔ دوسری
جانب زینب کے والدین اللہ کے گھر دعائیں کرتے رہے کہ ان کی پیاری سی
گڑیازینب جواب بچپن سے لڑکپن کی جانب رواں دواں ہے کچھ ہی عرصہ میں ہمارا
سہارا ہوگی، وہ اسے بڑا ہوتا دیکھیں گے۔ پھر وہ اسے خوشی خوشی اپنے گھر
رخصت کردیں گے۔ یہ ان کا خواب ہی نہ تھا بلکہ انہوں نے خانہ کعبہ اور مدینہ
منورہ میں یہ آرزو کی ہوگی ، یہ دعائیں مانگی ہوں گی۔ جتنا وقت انہوں نے
مکہ اور مدینہ منورہ میں گزارا ان کی لاڈلی، چہیتی، معصوم سی زینب ان کے
ساتھ نہ سہی لیکن ان کے خیالوں میں ، ان کی دعاؤں میں ان کے ساتھ رہی ہوگی۔
انہیں کیا معلوم تھا کہ جب وہ واپس لوٹ کر اپنے گھر جائیں گے تو ان پر کیا
قیامت ٹوٹ چکی ہوگی، اس معصو م کے ساتھ ظلم کا پہاڑ ٹوٹ چکا ہوگا، درندہ
صفت بھیڑیوں اور درندوں نے ان کی معصوم سے ، پیاری سی گڑیا کے ساتھ کیا کچھ
نہ کیا ہوگا ۔ظلم و بربریت کی انتہا کردی ہوگی ۔ یہ سب کچھ ہوجانے کے بعد
وہ غیرت مندباپ کی غیر ت مند بیٹی اب اس دنیا میں کیسے رہ سکتی تھی، اسے اب
گوارہ ہی نہیں تھا کہ وہ اب اس دنیا میں رہتی جہاں بھیڑیوں ، درندوں،
خبیثوں، بدکاروں، سنگدلوں، پاپیوں، سیہ کاروں، جور وظلم کرنے والوں ،
اوباش، وحشیوں اور بد کرداروں کا راج ہو ، انہیں کوئی لگام دینے والانہ ہو،
اس نے اس دنیا کو چھوڑ چھاڑ اس دنیا میں جانا پسند کیا جہاں کی زندگی ابدی
ہے، پاکیزہ ہے، ہمیشہ رہنے والی ہے اور وہ وہاں چلی گئی جہاں سے کوئی لوٹ
کر واپس نہیں آتا۔
سات سالہ زینب کی فوٹو دیکھ کر اس کا شخصی خاکہ کچھ اس طرح سے ابھرکر سامنے
آتا ہے کہ چہرے پر مونا لیزا کی مسکراہٹ، بیضوی چہرہ، کٹار سے بولتی آنکھیں
، سراہی دار گردن، چوڑا ماتھا، پتلے ہونٹ، کھڑی ناک، تیر کمان ابرو،
کاندھوں تک سیاہ بال ، چہرہ کو کچھ دیر تکتے رہیں تو یہ احساس ہونے لگتا ہے
کہ یہ ننھی سے، پیاری سی گڑیا ابھی بول پڑے گی اور کہے گی کہ میرا غم منانے
والوں میں جنت کے حسین باغ میں بہت خوش ہوں ، البتہ مجھے اپنے امی اور ابا
سے بچھڑنے کا غم ہے۔ میں ان کے دل میں ہمیشہ زندہ رہوں نگی، اوراے میرے
ساتھ ظلم کر کے مجھے مارنے والو سنو ! بہت ممکن ہے تم قانون کی گرفت سے بچ
نکلو اس لیے کہ ہمارے ملک کا نظام ہی کچھ ایسا ہے ، ممکن ہے کہ ہمارے ملک
کے حکمراں تمہیں سزا دلوانے میں اسی طرح سست روی کا مظاہرہ کریں جس طرح وہ
ماضی میں کرتے رہے ہیں، لیکن سنو ! اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے ، میری ماں کی
آہیں خالی نہیں جائیں گی ، میرے باپ کا دکھ رائے گا نہیں جائے گا تمہیں ایک
نہ ایک دن اس سے بھی زیادہ سنگین سزا ملے گی کہ تم اور تمہاری نسلیں یاد
رکھیں گے۔
زینب کی موت نے ہر آنکھ کو نم کردیا ، ہر دل سے آہ نکلی، ہر ماں تڑپ اٹھی،
ہر باپ بے چین و بے قرار ہوگیا۔ باوجود اس کے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہ تھا
لیکن کوئی بھی واقعہ پہلا اور آخری نہیں ہوا کرتا۔ اخبارات میں زینب ہے، ٹی
وی پر زینب ہے ، سوشل میڈیا پر زینب ، ہر لکھنے والے کی سوچ کا مہور زینب
ہے۔ جس کے ذہن میں جو آرہا ہے وہ اپنے جذبات کا اظہار کر رہا ہے۔ یوں تو
بہت سوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ، ویب سائٹ ’دانش ڈاٹ پی کے‘ کی سینئر
ایڈیٹر حبیبہ طلعت نے ایک خط زینب کے نام لکھا جس کا عنوان ہے ’’ایک ماں کا
خط زینب کے نام ‘‘۔ خط زینب کے نام ہے اور ایک ماں کی جانب سے ہے اندازہ
کیا جاسکتا ہے کہ کن جذبات کا اظہار کیا ہوگا، اولاد کا دکھ کیا ہوتا ہے یہ
وہی بہتر جانتے ہیں جن کی چھن جاتی ہے اولاد ۔ حبیبہ طلعت کا خط تو بہت
طویل ہے یہاں اس کا ابتدائی پیراگراف نقل کر رہا ہوں۔
امن و سلامتی کی جنت کی مکیں
ننھی پری زینب !!!
کل سے تمہاری من موہنی سے چھب آنکھوں میں کھب کر رہ گئی ہے اور دل کٹ سا
گیا ہے کہ جو ظلم تمہارے ساتھ ہوا خدا کسی دشمن کی بیٹی کو بھی نہ دکھائے۔
ننھی پری تمہارا نام کتنا مقدس تھا ، ردائے زینب ہمارا ایک مقدس تاریخی
حوالہ ہے جو عزیمت اور حوصلے سے عبارت تھا مگر تم جانتی ہو نا کہ ہم اپنے
تقدس پر خود ایک الزام ہیں ہم وہ ہیں جن کو حیا تک نہیں آتی ، ہم نے خود
اپنے حال تباہ کئے ہیں۔ دیکھو پیاری! لوگ کہہ رہے ہیں بلکہ رو رو کے کہہ
رہے ہیں کہ ہماری قوم کس قدر بد قسمت ہے کہ قوم کے بچے اور بچیاں اپنے
گھروں تک میں محفوظ نہیں رہیں ۔ مگر مجھے معاف کرنا ہم بدقسمت نہیں ہیں کہ
پھر سے ظلم کے نظام کے محافظوں کو ہی رہبر مان لیتے ہیں‘‘۔ (فقط ایک بے بس
ماں)
زینب کی موت پر احتجاج کرنے والے احتجاج کر رہے ہیں ، جن کے ہاتھ میں قلم
ہے وہ اپنے قلم کے توسط سے اس سانحۂ کو ضبط تحریر میں لارہے ہیں۔ میں ایک
ایسی بیٹی کا باپ بھی ہوں جو پیدا ہونے کے بعد صرف چالیس دن دنیا میں رہی
اور پھر چلی گئی۔ وہ طبعی موت تھی لیکن بیٹی کی جدائی کس قدر تکلیف دہ ہوتی
ہے اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیں۔ میں نے اپنے اس دکھ اور غم کو قرطاس
پر منتقل کیا تھا نثر اور نظم دونوں میں ۔ آج جب میں زینب کے لیے کچھ لکھ
رہاہوں تو مجھے اپنی مرحوم بیٹی ’’سحر‘‘ یاد آرہی ہے ۔ میرا یہ مضمون
روزنامہ جنگ میں بعنوان ’’بیٹی: رحمت بھی، نعمت بھی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا
تھا۔ اس میں مَیں نے اپنے جذبات کچھ اس طرح بیان کیے:’’بیٹی رحمت ہے ، بیٹی
نعمت بھی ، بیٹی باپ کا مان ہے ، آنکھ کا نور ، دل کا سرور اور زندہ رہنے
کی پہچان ہے ۔ماں باپ کے لیے بیٹی کا رشتہ کس قدر پیارا ہوتا ہے اِس کا
احساس والدین کے علاوہ کوئی اورنہیں کرسکتا۔ یہ احساس اُس وقت زیادہ شدید
ہوجاتا ہے اگر خدا نہ کرے بیٹی دنیا میں آنے کے بعد جدا ہوجائے۔ بیٹیوں کو
تو ویسے بھی پرائے گھر جانا ہی ہوتا ہے لیکن وہ جانا،اِس جانے سے مختلف ہے
جس میں بیٹی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہوجاتی ہے۔ میری بھی ایک بیٹی 6
جون1980ء کو دنیا میں آئی تھی اور چند دن محبت سمیٹ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے
جدا ہوگئی۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے سوانحی ناول ’کارِجہاں دراز ہے‘ میں
امیر خسرو کے حوالے سے لکھا ہے کہ’ بیٹی اصل میں باپ کی طرف دار ہوتی ہے
بیٹا ماں کا، بیٹا دنیاوی چپکلّس میں پڑ کر بھول بھال جاتا ہے، بیٹیاں باپ
کا ورثہ سینت کر ، بنا سنوار کر دنیا کے آگے سنوارتی ہیں‘‘۔ امیر خسرو کا
ہندی کلام ضائع ہوگیا تھا اسے یہ احساس ہوا کہ اگر اس کی بھی بیٹی ہوتی تو
اس کا یہ کلام محفوظ رہتا ۔ کیوں کہ وہ اس کے ورثہ کو محفوظ رکھتی اور
لوگوں کے سامنے لے آتی۔ میَں بھی اپنی ایک طرف دار سے محروم ہو گیا ہوں ۔اس
مقدس رشتہ میں جو سچائی ہے، اپنائیت ہے، پیار ہے ، چاہت ہے اُسے شاید الفاظ
میں بیان کرنا مشکل ہے‘‘
بیٹی کے بارے میں نبیِ آخر حضرت محمد ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے ’ عورت کے لیے یہ
بہت ہی مبارک بات ہے کہ اس کی پہلی اولاد لڑکی ہو‘، ایک اور حدیث مبارکہ
باپ اور بیٹی کے حوالے سے یہ بیان کی گئی ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا کہ
’جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’اے لڑکی تو زمین
پر اتر میں تیرے باپ کی مدد کرونگا‘‘۔اﷲ تعالیٰ ہمیں اپنی بیٹیوں سے محبت
کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ معروف شاعر احسان دانشؔ جو شاعر مزدور بھی
کہلاتے ہیں کا معروف شعر
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں
زینب کے ساتھ قصور میں جو کچھ ہوا ، وہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ، اس سے قبل
12واقعات ہوچکے جن میں حوس پرستوں اور اوباشوں نے معصوم بچوں کو اپنی حوس
کا نشانہ بنایا اور انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ قصور میں قصور وار کون ہے؟
حکومت کے علاوہ کسے ذمہ دار ٹہرایا جاسکتا ہے، اس میں پولیس ہو، ڈی سی، ڈی
پی او ہو یا کوئی اور ذمہ داری پنجاب حکومت پر جاتی ہے کہ اگر وہ سابقہ
واقعات کے بعد اس حوالے سے سخت اقدامات کرتی، مجرموں کو عبرت ناک سزائیں دی
جاتیں ، تو مجرموں کے حوصلے بلند نہ ہوتے، میڈیا میں رپورٹ ہوا کہ کئی
واقعات کے مجرموں کی ضمانتیں ہوچکی اور وہ آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ یہ بھی
کہا جارہا ہے کہ پے در پے اس قسم کے گھنوانے واقعات کرنے والوں کا تعلق ایک
ہی گروہ سے ہے۔ حکمرانوں کو اپنے اقتدار کی حوس سے ہٹ کر ملک میں ہونے والے
اس قسم کے واقعات پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ زینب کی موت کا چرچا میڈیا پر
چند دن جاری رہے گا پھر کوئی اور موضوع میڈیا کو مل جائے گا، حکومت سانحہ
ماڈل ٹاؤن اور دیگر واقعات کو اس خاموشی اور خوبصورتی سے ہضم کرچکی ہے کہ
اس سے بہتری کی امید نظر نہیں آتی۔ اقتدار حکمرانوں کی اولین ترجیح ہے، اس
کے حصول کے لیے وہ آخری سطح تک جاسکتے ہیں اور جارہے ہیں لیکن ملک کے بچے
محفوظ نہیں ، اپنے گھر میں محفوظ نہیں یہ انہیں نظر نہیں آرہا۔ یہ کب ہوش
کے ناخن لیں گے، معلوم نہیں۔ اللہ انہیں ہدایت دے جس کی امید کم ہی ہے۔ |