میری معصوم زینب

پھول کلیوں سے محبت میری فطرت لوگو
بچہ دشمن کا بھی ہو لختِ جگر لگتا ہے
بچوں سے انس و محبت انسانی فطرت میں شامل ہے۔ بچہ چاہے جس نسل ، رنگ ، مذہب عقیدے کا ہو وہ گلشن کے حسین رنگوں اور خوشبوئوں کا امتزاج تصور کیا جاتا ہے۔ بچے بنی نوع انسان کی نسلِ نو ہیں۔ دیگر افرادِ معاشرہ کی طرح بچوں کا بھی ایک اخلاقی مقام اور معاشرتی درجہ ہے۔ بہت سے ایسے امور ہیں جن میں بہ طور بنی نوع انسان بچوں کو بھی تحفظ درکار ہوتا ہے۔ دورِ جدید میں بچوں کے حقوق کا تحفط کرنے والی نمایاں دستاویز
United Nations Convention on the Rights of the Child-1980 ہے جس میں بچوں کے بنیادی انسانی حقوق کا ذکر کیا گیا ہے۔

اسلام نے بچوں کو بھی وہی مقام دیا ہے جو بنی نوع انسانیت کے دیگر طبقات کو حاصل ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا وہ معاشرے میں بچوں کے مقام و مرتبہ کا عکاس بھی ہے اور ہمارے لیے راہِ عمل بھی۔ اسلام میں بچوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اسلام نے بچوں کے حقوق کا آغاز ان کی پیدائش سے بھی پہلے کیا ہے۔ ان حقوق میں زندگی، وراثت، وصیت، وقف اور نفقہ کے حقوق شامل ہیں۔ بچوں کے حقوق کا اتنا جامع احاطہ کہ ان کی پیدائش سے بھی پہلے ان کے حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے دنیا کے کسی نظامِ قانون میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔

بدقسمتی سے پاکستان میں درجنوں ایسے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں جو ہماری سیاسی، معاشرتی اور اسلامی روایات کی کھلم کھلا ضد ہیں۔ معصوم بچوں کا اغواء، تشدد ، زیادتی اور قتل کی لززہ خیز داستانیں ہماری تاریخ کا سیاہ باب ہیں۔ گزشتہ روز پنجاب کے شہر قصور میں انسانی شکل میں پھرنے والے درندوں بھیڑیوں نے سات سالہ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا، اور لاش کچرے میں پھینک دی گئی۔ قرآن پاک کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلنے والی اس معصوم کلی کو راستے میں اغوا کرلیا گیا، بچی کی گمشدگی پر اہل خانہ نے پولیس میں رپورٹ درج کرائی تاہم گزشتہ رات کچرے کے ڈھیر سے بچی کی لاش برآمد ہوئی۔واقعے کے بعد پولیس نے زینب کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے اسپتال منتقل کردیا، ابتدائی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بچی کو ایک سے زائد بار زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔

یہ کیسا سسٹم ہے ؟ کیسی انسانیت ہے جہاں درندگی بھی شرمائے ۔ بے غیرتی بھی جس کے آگے پانی بھرے ، جن وحشیوں نے ایسی ناپاک حرکت کی ہے ان کی صرف مذمت کافی نہیں ہے، انسانیت کے درجے سے بھی یہ سب بہت گرے ہوئے ہیں۔

سات سالہ زینب نے کسی کا کیا بگاڑا تھا ؟ اس نے تو کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ وہ کسی کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ وہ پھول سی بچی ، تعلیم اور والدین کے پیار کی دھن میں مگن، مگر ہمارا معاشرہ ایسے بے غیرت درندوں کی درندگی کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر ہے ۔ ایسے میں جب ہماری معاشرتی روایات کا کباڑہ نکل جائے، ظلم اور بربریت انتہا کو پہنچ جائے تو اس کے بعد انسانوں کا خون ندی نالوں اور راستوں میں پانی کی طرح بہتا ہے اور اسے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ موجود ہ دور میں اس بڑے پیمانہ پر انسانی قتل عام کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ گویا کہ آج انسانی جان کی کوئی اہمیت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ ایک ایک انسان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اسلام نے ایک ایک انسانی جان کو بڑی اہمیت دی ہے۔ اس کے نزدیک کسی ایک شخص کا بھی ناحق قتل گویا کہ پوری انسانیت کا قتل ہے، اور جب ایک معصوم بچے کا قتل کردیا جائے اور لاش کچرے میں پھینک دی جائے تو یقینا انسانیت شرما جاتی ہے۔
دنیا میں قتیل اس کا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

کیا ریاست پاکستان اس واقعہ کا نوٹس لے گی ؟؟ کیا بابا رحمتا یہاں سو موٹو ایکشن لیں گے ؟ سات سالہ معصوم کلی کے خون کا حساب کون دے گا ؟ قاتلوں کو ریاست سزا دے گی یا پھر سیاست ، پیسہ اور اثر و رسوخ اس انصاف کے آڑے آجائے گا ؟ کہاں ہے پنجاب حکومت ؟؟ ۔۔۔ ظالمو! کب تک اس معاشرہ کے ساتھ کھلواڑ کرتے رہو گے ؟ ظلم آخر ایک دن ختم ہوجانا ہے ۔ اتنا ظلم کرو جتنا سہہ سکو ۔۔ سات سالہ معصوم زینب روز محشر درندوں کے گریبانوں سے پکڑ کر کہے گی ــ’’ میرا کیا قصور تھا ‘‘ ، اس وقت تمہارے پاس کہنے کو کچھ نہ ہوگا۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا

واجد نواز ڈھول
About the Author: واجد نواز ڈھول Read More Articles by واجد نواز ڈھول : 60 Articles with 90906 views i like those who love humanity.. View More