زینب کے قتل کی خبر ملتے ہی بجھے دل کے ساتھ ہم نے لاہور
سے قصور کا رخ کیا۔ شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی وہاں کی سڑکیں وہاں ہونے
والے واقعات کی آپ بیتی سنا ہی تھیں۔
قصور شہر میں داخل ہونا اپنے آپ میں ایک امتحان تھا۔ کم عمر نوجوان، سکول
کا یونیفارم پہنے، ہاتھوں میں ڈنڈے لیے شہر کے داخلی راستے بند کیے کچھ یوں
کھڑے تھے جیسے سرحد کی حفاظت کر رہے ہوں۔ منت سماجت کر کے، میڈیا کارڈ اور
کیمرہ دکھا کر ہم داخل تو ہوگئے لیکن آگے تو جیسے کوئی میدان جنگ ہو۔
|
|
ڈی سی او آفس کے باہر مشتعل مظاہرین اندر جانے کے جنون میں بپھرے ہوئے تھے۔
مظاہرین کسی کی سننے کو تیار نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب انسان کی
شنوائی نہ ہو رہی تو وہ کب تک چپ بیٹھے؟
انہیں انصاف چاہیے، اب بہت ہوئی، لیکن وہ حکومت سے جواب چاہتے تھے یا اپنی
مایوسی اور غم و غصے کو چھپا رہے تھے، یہ سمجھنے کی کوشش میں حالات تب خراب
ہو گئے جب فائرنگ شروع ہوئی۔ لوگ بکھرنے لگے اور کہیں سے آواز آئی، گولی لگ
گئی۔ کوئی ہسپتال بھاگا تو کوئی جان بچا کر گلیوں میں، تو کوئی حکومتی
املاک کو بچانے کی کوشش کرتا رہا۔
مشتعل ہجوم آہستہ آہستہ تھمنے لگا اور وہ شہر جو کچھ دیر پہلے انصاف کے لیے
انتظامیہ کو جنجھوڑ رہا تھا وہاں کے ماحول میں کشیدگی اور غم و غصے کا
ماحول محسوس تو ہو رہا تھا لیکن سڑکوں سے لوگ کم ہونا شروع ہو گئے جیسے شہر
کو ایک چپ لگ گئی ہو۔
|
|
انجانے شہر میں اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بعد خاموشی کی وجہ پتا چلی کہ سب لوگ
زینب کے جنازے میں شرکت کرنے گئے ہیں۔ تنگ گلیوں میں راستہ ڈھونڈتے،
نمازیوں کے ایک ہجوم کے ساتھ ہم بھی جنازہ گاہ کی طرف بڑھ گئے۔
کالج گراؤنڈ میں پڑھے جانے والے جنازے میں جیسے سارا شہر سما گیا ہو۔ بہت
سے لوگ تو ڈی سی او آفس کے باہر پیش آنے والی قیامت سے ناواقف ایک ہی موت
پر غمزدہ ہو رہے تھے۔ جنازے سے نکلے تو دیکھا ہر گلی کوچے پر کھڑے لوگ زینب
کی زندگی اور موت پر تبصرہ کر رہے تھے۔
ہم نے لوگوں سے پتہ پوچھ کر زینب کے گھر کا رخ کیا تو وہاں بھی گھر کے باہر
ایک مجمع اکٹھا تھا۔ صحافی بھی مجبوری میں گھر کے باہر محلے والوں سے
معلومات اکٹھی کر رہے تھے۔
|
|
میں نے ہمت کر کے زینب کے گھر جانے کا سوچا تو ایک پل کے لیے دل رک سا گیا
کہ انہی سیڑھیوں سے آخری بار خوشی سے کودتی، زندگی سے بھرپور زینب گھر سے
باہر آئی ہو گی۔ اندر جانے کا سوچ کر ہی ڈر سا لگ رہا تھا کہ جن کے گھر کا
فرد ان سے جدا ہو گیا ہو، ان سے آخر کیا پوچھوں گی؟ کہیں وہ رو ہی نہ دیں۔
پھر ہمت کر کے دروازے تک پہنچی تو سوچا گھر والوں سے مل کر دیکھوں گی کہ
بات کروں یا نہیں۔ دروازے پر کھڑے خاندانی محافظوں سے اجازت طلب کی تو
خاتون ہونے کے باعث انھوں نے تھوڑی دیر انتظار کروا کر بھیج دیا۔
اندر پہنچی تو دھیمے لہجے میں ایک خاتون سے تعزیت کی اور اپنا تعارف دینے
کے بعد پوچھا کہ وہ کون ہیں؟ وہ زینب کی چچی تھیں اور مزید معلومات دینے
والے ان کے رشتہ دار۔ اچانک ایک اور خاتون رپورٹر گھر میں داخل ہو گئیں اور
روایتی انداز میں زینب کے بھائی بہنوں سے وہ سوال کرنے لگیں جن کو سن کر
وہاں بیٹھے تمام افراد کا غم تازہ ہو گیا اور خواتین رونے لگیں۔
|
|
ان سوالوں کا متن کچھ یوں تھا۔ دل کیا کرتا ہے، بہن آپ کے پاس نہیں ہے، یاد
نہیں آتی؟ زینب کی لاش دیکھ کر آپ کو کیسا لگا؟ زینب جب آخری بار گھر سے
نکلی تھی تو کیا آپ نے سوچا تھا کہ دوبارہ نہیں دیکھ سکیں گے؟
وہاں موجود تمام افراد کے یہ تاثرات تھے کہ آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ ایسے
سوال کر کہ مرنے والوں کے لواحقین کو جیتے جی پھر مار ڈالتے ہیں۔
سیانے کہتے ہیں کہ رپورٹنگ کرنا ایک باریک پگڈنڈی پر چلنے کے مترادف ہے، جس
پر چلتے ہوئے بہت بار آپ ڈگمگاتے ہیں اور خود کو گرنے سے بچانا ایک ہنر ہے
جو شاید ہر شخص نہیں کر پاتا۔
ایسے واقعات کے اثرات ہمیشہ آپ کی زندگی پر رہتے ہیں۔ خاص طور پر جو مناظر
لوگ دیکھتے ہیں اور جو جزبات محسوس کرتے ہیں۔ بہت بار رونے کا دل چاہتا ہے
لیکن خود کو مضبوط ظاہر کرکے رو بھی نہیں سکتے تو اس گھر میں موجود زیادہ
تر افراد سوچ رہے تھے کہ آنکھوں میں آئے آنسوؤں کا کیا کریں۔
|