تحریر: مہوش کنول، کراچی
بے شک اﷲ پاک نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن یہ بات بھی اپنی
جگہ درست ہے کہ انسان سے غلطیاں اور کوتاہیاں سر زد ہوتی رہتی ہیں۔ جوانسان
کی عملی زندگی کا ایک حصہ ہیں۔مکمل تو کوئی بھی انسان نہیں ہے، ہر انسان
میں بہت سی خوبیوں کے ساتھ بہت سی خامیاں بھی پائی جاتی ہیں۔ ہر انسان کی
اپنی ایک زندگی ہے جسے وہ اپنی مرضی کے حساب سے اور من پسند طریقوں سے
گزارنا چاہتا ہے لیکن ہر بار ہر کام میں کامیابی حاصل ہونا بھی ممکن نہیں۔
کبھی کبھی انسان بہت سوچ سمجھ کر کام کرنے کے باوجود بھی ناکامی کا شکار ہو
جاتا ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔ شاید وہ کام عملی طور پر انجام
دینے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں پر مکمل سوچ بچار نہ کیا گیا ہو۔ یا شاید
کہیں کسی مشورے کی ضرورت پڑی ہو لیکن کوئی مشورہ دینے والا میسر نہ ہو یا
پھر کوئی میسر ہو بھی تو اپنی ذاتی انا آڑے آگئی ہو۔ یا راز داری برتنے کی
وجہ سے انسان کسی سے مشورہ نہ کر پایا ہو، یا شاید وہ کام مکمل ذہنی آمادگی
کے ساتھ نہ کیا گیاہو جس کے باعث ناکامی کا منہ دیکھنا پڑ گیا ہو ۔
ان تمام ہی صورتوں میں ناکامی اُس انسان کا مقدر بنی ہو ۔۔لیکن ایسے میں
اگر وہ انسان ان غلطیوں کو گلے کا طوق بنا کر بیٹھ جائے اور یہ سوچے کہ مجھ
سے یہ ایک کام ٹھیک نہیں ہوا تو میں مستقبل میں کیا کر پاؤں گا۔ اب تو میرا
کچھ نہیں ہو سکتا۔ میرا تو مستقبل ہی خراب ہو گیا۔ ان تمام سوچوں کے ساتھ
وہ کبھی آگے نہیں بڑھ سکے گا اورنا ہی مستقبل میں کبھی ترقی کی راہوں پر چل
سکے کیونکہ اسے تو اپنے ماضی کی ایک غلطی ہی کی فکر کھائے جا رہی ہے تو وہ
مستقبل کے بارے میں کیسے سوچے گا۔
اس کے بر عکس ایک ایسا انسان جو اپنی اس غلطی کو مثبت انداز سے سوچے اور یہ
جاننے کی کوشش کرے کہ غلطی کی وجوہات کیا تھیں اور میں کیا کر کے اس غلطی
پر قابو پا سکتا تھا ۔یا یہ ایک غلطی تھی جس کی وجہ سے مجھے ناکامی کا
سامنہ ہوا تو آئندہ زندگی میں یہ غلطی نہیں کروں گا توکامیابی ضرور میرا
مقدر بنے گی۔ ماضی کی غلطیاں بھی ہماری استاد ہوتی ہیں اور ہمیں زندگی
گزارنے کا اور ہر کام کو انجام دینے کا ایک صحیح اور واضح طریقہ کار سکھا
جاتی ہیں ۔
اردو زبان کا ایک محاورہ ہے کہ ’’انسان خطا کا پتلا ہے‘‘اور ایک بہترین
انسان وہی ہے جو اپنی غلطیوں اور خطاؤں سے کچھ سبق حاصل کرے اور آئندہ
زندگی میں اس غلطی کو نا دہرانے کا عہد کرلے کیونکہ ماضی پر جلنے کڑھنے اور
خود کو قصور وار ٹھہرانے سے صرف انسان کا وقت اور قوت ہی ضائع ہوتی ہے اور
حاصل ہوتا ہے تو صرف ذہنی انتشار اور بے سکونی۔
|