ننھی کلیاں کیوں مسلی جا رہی ہیں

 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آج اسلام کے سوائے سب کچھ موجود ہے۔سماج کی بے حسی میں ہمارا معاشرہ کس سمت بڑھ رہا ہے ؟ کیا کسی کو ہوش ہے۔ماضی میں کراچی میں بشرا زیدی کے قتل سے لے کر آج زینب کی بے حرمتی کر کے زندگی سے محروم کر دینے تک پورے پاکستان میں لاکھوں ننھی پریاں وحشی درندوں کی بھینٹ چڑھتی رہی ہیں۔مگر انسان نما درندوں کا آج تک کوئی کچھ بھی بگاڑ نہیں سکا ہے۔ایسے معاملے میں سب سے زیادہ بے حسی پولیس کی دکھائی دیتی ہے۔جو مجرمین کو پکڑنے کے بجائے لیت و لال سے کام لیتی ہے اور ہم اس زہریلے معاشرے میں منہ بسورے پھرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتے ہیں۔ہر با ضمیر یہ سوال تو ضرور کرتا ہے کہ کیا ان درندوں کے گھروں میں بھائی، بہن۔بیٹی،بیٹا، پوتا ،پوتی نواسا، نواسی کی شکل میں اولادیں نہیں ہیں؟

زینب کے والدین اپنے قریبی رشتہ داروں پر بھر کر کے اپنی لخت ِجگر کو چھوڑ کراﷲ ربِ کائنات کے گھر کا طواف کرنے کی غرض سے عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے نکلے ہوئے تھے کہ زینب جیسی معصوم کلی کو،معلومات کے مطابق 5جنوری کو ٹیوشن پڑھنے جاتے ہوئے کوئی درندہ صفت وحشی انسان، اس کو پھسلاکر کسی ایسے مقام پر لے گیا جہاں وہ اپنی وحشیانہ حوس کی آگ میں اور اضافہ کر کے دنیا نہیں تو آخرت کی اپنی بربادی کے ساما ن پیدا کرنے کے لئے لیجا کر ننھی زینب کی عصمت کو تار تار کرکے اپنی بد نامی کو چھپانے کی غرض سے اُُس معصوم کا گلا دبا کر اپنے گناہوں کی سیاہی کو دو چند کر گیا۔اب میں ایک ایسی بات کہنے جا رہا ہوں جس کا شائد ہمارے سماج کی اکثریت اعتبار ہی نہ کرے! ہم سجھتے ہیں کہ اس وحشت ناک کہانی کے پیچھے اُن لواحقین کے خاندان میں سے ہی کوئی منحوص چہرہ ہے ۔جن پر اعتبار کر کے زینب کے والدین عمرے کی سعادت حاصل کرنے کے لئے گئے تھے۔

زینب کے والدین عمرے کی ادائیگی کے بعد جدہ واپسی پرقصور پہنچنے کے بعد یہ ہولناک خبر سنی تو وہ غم و اندھو سے بے قرار ہو گئے۔مگرہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ زینب جیسی ننھی کلی کا کوئی بہت ہی قریبی رشتہ دار ہو سکتا ہے اور حقیقت اس بات سے ہی قریب لگتی ہے۔ کیونکہ ویڈیو فُٹیج میں زینب کی تیز تیز چال بتا رہی ہے کہ وہ اس وحشی کے ساتھ بغیر کسی مزاحمت کے تیزی سے چل رہی ہے۔کوئف کے مطابق وہ ٹیوشن پڑھنے گئی تھی۔ اس کے بعد وہ واپس گھر نہیں پہنچی۔ تو چار دنوں کے بعد اس لاش کشمیر چوک پر واقع کچرا کُنڈی پر پڑی ملی۔جو خاندان کے کسی فرد کی دلی دشمنی کا شاخسانہ بھی ہوسکتا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ بچی کے ساتھ زیادتی کرنے کے بعد گلا دبا کرقتل کیا گیا اور حقیقت بھی اگر یہ ہی ہے تو وحشی درندے کو خاندان کے اُن ہی لوگوں میں تلاش کیا جائے جہاں زینب والدین کی غیر موجودگی میں مقیم تھی۔ہر پاکستانی کا دل اس دل دوز منظر کی وجہ سے خون کے آنسو رو رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کے شہروں سے زیادہ تر دیہاتوں میں ایسے جرائم کی تعداد نسبتاََ بہت زیادہ بتائی جاتی ہے۔ اس قسم کے واقعات گذشتہ ماہ قصور میں دس اورشیخو پورہ میں گیارہ ہوئے تھے۔کہا جاتا ہے کہ سالِ گزشتہ میں ایسے وحشت ناک واقعات پورے پنجاب میں تعداد کے لحاظ سے ہزاروں میں ہیں۔

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ہدایت دیتے ہوئے کہا ہے کہ قصور میں بہیمانہ اقدام کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے ۔وفاقی کابینہ نے قصور میں کمسن زینب کے ساتھ کی گئی بربریت اورزیادتی کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروئی کی ہدایت کی ہے۔سیاسی بازیگروں کے لئے وزیر اعظم نے کہا کہ لوگوں کے جنازوں پر کھیلی جانے والی سیاست کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ کابینہ نے گذشتہ روز کوئٹہ سانحے کے شہداء کی مغفرت کے لئے بھی دعا کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے قصور میں زیادتی کے بعد بچی کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ درندوں کو نشانِ عبرت بنا دیا جائے تاکہ آئندہ کسی کو ایسے گھناؤنے عمل کی ہمت نہ ہو سکے۔نوازشریف کی صاحب زادی مریم نوازٹو ئٹر پر واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمان کو نا صرف انصاف کے کٹہیرے میں کھڑا کیا جائے بلکہ انہیں قرار وقع سزا بھی دی جائے۔وزیرِ مملکت مریم اورنگ زیب کہتی ہیں کہ ہم قصور میں زیادتی کے بعد قتل کی جانے والی بچی کے خاندان کے ساتھ ہیں۔ظالموں کو عبرت کا نشان بنا دیں گے ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف اگلے دن صبح پانچ بجے زینب کے والدین سے تعزیت کی غرض سے پہنچے اور زینب کے والدمحمد امین سے تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ میں اس سانحے کی وجہ سے رات بھر سو نہیں سکا ہوں۔انہوں نے ملزمان کی گرفتاری میں غفلت برتنے پر ڈی پی او قصور ذوالفقار احمد کو ان کے عہدے سے ہٹا کر ایس ڈی او بنا دیا ہے۔وزیرِقانون پنجاب رانا ثناء اﷲ کا اس حادثے پرکہنا ہے کہ یہ واقعہ نہایت ہی افسوسناک ہے۔اس پر لوگوں کامشتعل ہونا فطری بات ہے۔لیکن عوام سے گذارش ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو رکھیں۔ہم سجھتے ہیں کہ طاہر القادری جیسے بگاڑو اس واقعے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں جو انتہائی قابلِ مذمت شرم ناک بات ہے ۔ اس حوالے سے آر پی او شیخو پورہ کے مطابق پانچ سے چھ کیسز میں طریقہِ واردات اور ڈی این اے ٹیسٹ میں مماثلت پائی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے قصور واقعے میں معصوم زینب کے ساتھ ہونے ولی بربریت کا از خود نوٹس لیتے ہوئے 24. گھنٹوں میں پیجاب پولس کے انسپیکٹرجنرل سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔پاک فوج کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی قصور وقعے پر معصوم زینب کے بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے مجرموں کی گرفتاری کے لئے پاک فوج کومکمل تعاون فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔بلاو ل زرداری کا کہنا ہے کہ سات سالہ زینب کا قتل شریفوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ہیں۔پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزازاحسن نے کہا ہے کہ قصور کا واقعہ حکومت کی بد ترین مثال ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران نیازی کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں بچے کتنے محفوظ ہیں۔ہمیں واقعے کے مجرموں کو مستعدی سے سزا دینی چاہئے۔پی ٹی آئی کی شیریں مزاری نے واقعے پر اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بچی کا قتل اور احتجاجی مظاہرین پر فائرنگ قابلِ مذمت ہے۔سماج بار بار اداروں اور خاص طور پر پولس اور عدلیہ سے سوال کرتے ہیں کہ کیا ننھی کلیاں یوں ہی مسلی جاتی رہیں گی؟

Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed
About the Author: Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed Read More Articles by Prof Dr Shabbir Ahmed Khursheed: 285 Articles with 188604 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.