معصوم کلیوں کے ساتھ سفاک درندگی

اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کو سزا نہ دینا بچوں کو درندوں کے سپرد کرنا ہی ہے تاکہ وہ جو مرضی کرنا چا ہیں کر سکتے ہیں۔ ایک اسلامی مملکت میں کس طرح کے درندے پھر رہے ہیں۔جو اپنی ہوس کو پوری کرنے کے لئے اب بچوں تک پہنچ گئے ہیں۔ہم سب کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

قصور میں ہونے والے بچی کے ساتھ ذیادتی کے واقعے نے یہ تو ثابت کر دیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں کس طرح کے درندے پھر رہے ہیں۔جو اپنی ہوس کو پوری کرنے کے لئے اب بچوں تک پہنچ گئے ہیں۔اگرچہ اس طرح کے واقعات میں پہلے بھی سفاکی کا مظاہر ہ کیا جاتا رہا ہے کہ نوجوان بچوں اور بچیوں کو جان سے مار دیا جاتا رہا ہے مگر اب کم عمر بچوں کو بار بار اپنے مذہوم مقاصد کے لئے استعمال کئے جانے کے بعد قتل کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ پچھلے سالوں میں اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کو سزا نہ دینا بچوں کو درندوں کے سپرد کرنا ہی ہے تاکہ وہ جو مرضی کرنا چا ہیں کر سکتے ہیں۔

حکمران سوئے ہوئے ہیں اور ادارے اپنی من مانی پر لگے ہوئے ہیں، یہاں عوام میں کم سے کم اتنا شعور تو بیدار ہو جانا چاہیے کہ غلط اور درندگی کے فرق میں تمیز کرتے ہوئے کم سے کم اپنی آواز بلند کریں، ذاتی مفادات نہیں اجتماعی تکلیفوں پر احتجاج کرنا چاہیے جب تک ایسے درندے اپنے انجام کو نہ پہنچ جائیں ۔بچے کسی ایک کے نہیں سب کے ہی ہوتے ہیں انکو تحفظ فراہم ہونا چاہیے ۔مگر یہاں تو اس طرح کے واقعات پر بھی سیاست کرنے کا رواج عام ہو رہاہے جو کہ ہماری اخلاقی گراوٹ کو بھی ظاہر کر رہی ہے کہ ہم اس طرح کے واقعات کو بھی اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے لگے ہیں۔

یہ ذیادتی کے واقعات آج سے نہیں ہو رہے ہیں بلکہ ایک کرم فرما کے بقول یہ کوئی 8 یا دس سال پہلے کی بات ہے کہ کراچی کے ایک بہت بڑے غیر ملکی گروپ میں زیرِ تعلیم 4 دوستوں کے گروپ نے ایک لڑکی کو اغواء کیا .. اس کے ساتھ زیادتی کی. اس دوران پانچواں دوست آ گیا.. وہ جب اپنا حصہ وصول کرنے اندر گیاتو صرف 2 منٹ کے اندر اندر اس نے خود کشی کر لی. . کیونکہ اندر پڑی لڑکی اس کی بہن تهی.

اخبارات میں بھی یہ خبر تو اکثر پڑھنے کو مل جاتی ہے کہ والد نے اپنی ہی بچی کے ساتھ ہی ذیادتی کرلی ہے۔اب یہ سوچنے کی بات ہے کہ آخر ایسا کیوں ہو رہاہے کہ بچے ہی اس ستم کا شکار ہو رہے ہیں۔کہیں تو اپنے اس حوالے سے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف ذرائع ابلاغ اور انٹرنیٹ کی بدولت بھی فحش مواد کھلے عام دیکھنے کو مل جاتا ہے۔جو انسان کے جذبات کو اس حد تک لے جاتا ہے کہ کوئی بھی اس حد تک گر جاتا ہے کہ وہ معصوم بچوںکو اپنی جنسی بھوک کا شکار بنا لیتاہے۔

مغربی دنیا کے بارے میں ہم اکثر منفی سوچ رکھتے ہیں کہ وہاں بے راہ روی زیادہ ہے مگر وہاں پر اس طرح بچوں کے ساتھ ذیادتی کے واقعات کو بھی بری نظر سے دیکھا جاتا ہےمگر ہمارے ہاں تو اس حوالے سے قانون سازی ہونے کے باوجود اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں کہ ہم مجرموں کو قرار واقعی سزا نہیں دے پاتے ہیں۔

برازیل کے جیوجسٹو انسٹرکٹر ڈیرئیل کو 2016 میں ایک معصوم بچے کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا۔ ابتدائی تفتیش کے مراحل کے بعد اسے برازیل کی مرکزی جیل میں بند کر دیا گیا، جہاں اسے بیس روز تک جج کے سامنے اپنے مقدمے کی سماعت کا انتظار کرنا تھا۔ جیل انتظامیہ کو اس بات کا بہت رنج تھا کہ ایک معصوم بچے کے ساتھ زیادتی کرنے والا شیطان بھی ان کی جیل میں موجود ہے، اگرچہ جیل میں دنیا کے سفاک ترین خونی اور ڈکیت بند تھے لیکن ڈیرئیل کا جرم ان سب سے زیادہ سنگین تھا۔ ایک روز جیل میں بند دیگر قیدیوں کو کسی طرح پتا چل گیا کہ ڈیرئیل کا جرم کیا تھا۔اس کے بعد بیس قیدیوں نے ایک ہی رات میں ڈیرئیل کے ساتھ وہی سلوک کیا جو اس نے ایک بچے کے ساتھ کیا تھا ۔ جب جیل میں موجود قیدیوں سے اس بارے میں پوچھا گیا کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا تو انھوں نے اس قدر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا کہ جیل انتظامیہ کو اپنے سوال پر ہی شرم محسوس ہوئی۔ قیدیوں نے جیل انتظامیہ سے کہا کہ اگر اس مردود کو دوبارہ یہاں رکھا گیا تو اس کے ساتھ اوربھی زیادہ بدتر سلوک کریں گے ۔ تاہم جیل انتظامیہ نے قانونی مجبوریوں کی بنا پر اگلے روز ڈیرئیل کو ایک بار پھر اسی جیل میں بند کر دیا، لیکن اب کی بار بھی اس کے ساتھ وہی واردات مزید شدت سے دہرائی گئی۔جو کہ بچوں سے ذیادتی کرنے کے عمل سے بدترین نفرت کا اظہار کہا جا سکتا ہے۔

ہمارے تعلیمی ادارے ہی خراب ترہو چکے ہیں ہم جہاں سے سدھر سکتے ہیں وہ اب غلیظ ہو چکی ہیں ہمارے کرداروں کی خراب ہی آج وہاں سے شروع ہو رہی ہے جہاں ہماری اچھی تربیت ہونی چاہیے تھی۔والدین کے پا س اتنا وقت نہیں رہا ہے کہ وہ بچوں پر کڑی نظر رکھ سکیں کہ وہ دن رات کیا کچھ کر رہے ہیں۔دوسری طرف بگاڑ کو جلدی سے ٹھیک نہیں کیا جا سکتا ہے مگر کچھ احتیاط کر کے کمی لائی جا سکتی ہے اس کی طرف جانا چاہیے، سب کو مل کر کم سے کم اس درندگی کے ساتھ جو قصور میں ہوئی ہے سے نفرت کے ساتھ روک تھام کی طرف جانا چاہیے۔والدین کو بچوں پر نظر رکھنی چاہیے میرے علم میں بھی یہ بات آ چکی ہے کہ کسیے ایک ماوں نے اپنے ہی بھانجی کے ساتھ ذیادتی کر لی تھی یہاں کسی بھی رشتے دار پر اعتبار ممکن نہیں رہا ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس طرح کے گھناونے جرائم کرنے والوں کو سزا بھی دیںتاکہ دوسرے عبرت حاصل کر سکیں۔

احتیاطی تدابیر تو کرنی چاہیے مگر اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گذارنے کی سب کو کوشش کرنی چاہیے مگر پھر بھی ایسے واقعات کم تو ہو سکتے ہیں مگر رک نہیں سکتے ہیں، شیطان نے جہاں بھی موقعہ پالیا اس نے درندگی ہی کروانی ہے لہذا غیر محرم افراد سے بچیوں کو خاص طور پر دور ضرور کرنا چاہیے تاکہ وہ اس کے ساتھ زیادہ میل جول نہ رکھیں کیونکہ یہی ملنا ملانا ہی اکثر تباہی کے راستے پر لے جاتا ہے۔لہذا بچوں کو بھی کسی بھی فرد سے بات چیت سے روکنا چاہیے جو کہ ان کہ لئے اجنبی ہو، دوسری طرف بچوں کو تربیت دینی چاہیے کہ اگر کوئی بری نیت رکھتا بھی ہو تو بھی وہ اس کاروائی کی جانب راغب نہ ہو سکے۔اس حوالے سے نہ صرف سرکاری بلکہ نجی تعلیمی اداروں میں والدین کو بھی بلو ا کر تقریبات میں اس حوالے سے شعور بیداری کی مہم چلانی چاہیے تاکہ معصوم بچیوں کے ساتھ بالخصوص ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی کی جائے کیونکہ جنسی طور پر ہراساں کیا جانا تمام عمر کے لئے ان کو ایک خول میں محصو ر کر دیتا ہے۔

اس طرح کے تمام واقعات کے خلاف سب کو آواز بلند کرنی چاہیے یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور دینی تعلیمات بھی ہیں کہ برائی کو جہاں جس حد تک ہو سکے اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

Zulfiqar Ali Bukhari
About the Author: Zulfiqar Ali Bukhari Read More Articles by Zulfiqar Ali Bukhari: 394 Articles with 522530 views I'm an original, creative Thinker, Teacher, Writer, Motivator and Human Rights Activist.

I’m only a student of knowledge, NOT a scholar. And I do N
.. View More