رات کے پچھلے پہر جب تمام عالم سویا ہوا تھا ایک صالح,
بہادر اور جفاکش انسان شہر کی گلیوں میں گھوم رہا تھا کہ اچانک دور سے گرد
اڑتی ہوئی نظر آئی اور جب گرد کچھ واضح ہوئی تو وہ ایک گُھڑ سوار تھا. اس
صالح انسان نے گُھڑ سوار کو رُکنے کا اشارہ کیا اور جب وہ گُھڑ سوار قریب آ
کر رکا تو وہ ایک خاتون تھی. اس صالح انسان نے سوال کیا کہ اے خاتون اتنی
رات کو کہاں سے تشریف لا رہی ہیں تو جواب ملا کہ شام سے سفر کرتی ہوئی آ
رہی ہوں. اس صالح انسان نے پھر سوال کیا کہ اتنی رات گئے تم اتنی دور سے
سفر کرتی ہوئی آریی ہو کیا تمہیں ڈر نہیں لگا تو اس خاتون نے حیرانگی سے اس
صالح انسان کی طرف دیکھا اور جو جواب دیا وہ تاریخ میں سنہری حروف میں آج
بھی روشن ہے اس خاتون نے جواب دیا کہ ایسا سوال کرنے والے یا تو امیر المو
منین حضرت عمر فاروقؓ اس دنیا فانی سے پردہ فرما گئے ہیں یا آپ ہی امیر
المومنین حضرت عمر فاروقؓ ہیں.
جی ہاں وہ صالح انسان کوئی اور نہیں 22.50لاکھ مربع میل کے حکمران امیر
المومنین حضرت عمر فاروقؓ ہی تھے جو رات کہ پچھلے پہر گلیوں اور بازاروں
میں گھومتے تھے اور جن کا دبدبہ اور ڈر ایسا تھا کہ ایک خاتون شام سے
ہزاروں میل کا سفر بے خوف وخطر اکیلے کر سکتی تھی. تاریخ ہمارے اسلاف کے اس
طرح کے ہزاروں واقعات سے بھری ہوئی ہے.
آج قصور میں جو واقعہ ہوا تو بے ساختہ یہ تاریخی واقعہ یاد آگیا اور دل سے
دعا نکلی کہ یا اللہ آج تیرے پیارے نبیؐ کی امت کو پھر ایک سیدنا عمر
فاروقؓ جیسے حکمران کی ضرورت ہے.
آج لوگ اسلامی نظام کو پتھر کے دور کا نظام کہتے ہوئے نہیں ججھکتے تو بد
بختو اسلام سے پہلے اس طرح کے واقعات ہوتے تھے اور اسلام نے عقل شعور اور
شرعی سزائوں کے زریعے سے مثالی معاشرہ بنایا.
جب تک اسلامی تعلیمات اور شرعی سزائوں پر جلد عمل درامد نہیں ہو گا تو
معاشرے میں اس طرح کے ناسور اور جانور پیدا ہوتے رہیں گے.
اب بھی وقت ہے لوٹ آئو اپنے اصل کی طرف اپنے پیارے آقاؐ کے دین کی طرف اور
ان زانی.شرابی اور کرپٹ سیاستدانوں کو چھوڑ کر اللہ سے ڈرنے والوں کو اپنے
حکمران بنائو۔۔
|