خُدا خُد ا کر کے پانامہ کا ہنگامہ سرد ہوا۔رُکی سانسیں
بحال ہو ئیں۔اس لحاظ سے یہ فیصلہ واقعی تا ریخی ہے کہ سب خوش ہیں اور کسی
ایک کی ہار یا جیت کے متعلق کو ئی فیصلہ صادر کرنا فی الحال ناممکن
ہے۔بہرحال بلی تھیلے سے تو باہر آگئی ہے لیکن اب اُس کی سمت کیا ہوگی کہنا
قبل از وقت ہے۔مو ضوع آج پانامہ نہیں ہو اس پر بے حساب گو شُمالی ہو چکی
ہے۔اور پھر اس نقار خانے میں مجھ جیسے طوطی کی کون سُنتا ہے۔
میرا قلم آج تربوز پر چلے گا۔ویسے تو چاقو یا چُھری کے چلنے سے تربوز کٹتا
ہے لیکن تربوز کے مُتعلق آوارہ خیالات کو ترتیب دیتے ہو ئے آپ تک پُہنچانے
کی کوشش میں واحد سہارا قلم ہی کا ہے۔گزشتہ دِنوں دوست سے مُلاقات کی خاطر
بہادر آباد طارق روڈ کی طرف جانا ہوا۔یہ کراچی کا مشہور کاروباری علاقہ ہے
اور یہاں خریداروں کا ہجوم رہتا ہے۔محسوس ایسے ہی ہو تا ہے جیسے کہ پو را
شہر اُمڈ آیا ہو۔گا ڑیوں کی لمبی قطاریں،غلط پارکنگ سے ٹریفک جام روز کا
معمول ہے۔بڑی بڑی نامور کمپنیوں کی چمک دار دکانوں اور مختلف اور مشہور
برانڈز کی اشیاء سے سجے مالز نے یہاں کے ٹھیلے والوں کو بھی بے ایمانی پر
آمادہ کر رکھا ہے۔دوست کے گھر کی طرف جاتے ہو ئے بہادر آباد چو رنگی کے
اطراف میں کثیر تعداد میں تربوز کے خوبصورت ٹھیلوں نے میری تو جہ اپنی جانب
مر کو ز کر لی۔پھلوں کا شوق ہمارا خاندانی ہے۔گھر میں بچے بڑے سب شوق سے
کھاتے ہیں لیکن میری طرح تمام تنخواہ دارافراد کا خاصہ یہ ہی ہیکہ وہ شوق
پالتے تو ضرور ہیں لیکن تسکینِ شوق کی لذت سے اکژ و بیشتر محروم ہی رہتے
ہیں۔مہینے کی پہلی تا ریخوں میں مجھ جیسے چند دیوانے اپنے اس شوق کی تسکین
کی خاطر اپنے چند ضروری اخراجات کو پسِ پُشت ڈالتے ہیں اور ٹھیلے والوں کے
پاس جانے کی ہمت باندھ لیتے ہیں پرآسمان سے باتیں کرتی،ان کی قیمت ارمانوں
کو ایسے ہی ٹھنڈا کرتی ہے جیسے بارش تپتی پیاسی زمین کو۔
میں جس ٹھیلے کی جانب نگاہ کرتا خوبصورت،گہرے سر سبز،دھاری دار تربوزوں کے
ڈھیرپر چند کٹے ہو ئے تربوز اور اُن کی سُرخ قاشیں دل کو للچا رہی تھیں۔لال
سُرخ تربوز صحت بخش بھی ہو ں یہ ضروری نہیں اور نہ ہی اس کا گہرا لال رنگ
اس کی مٹھاس کی ضمانت ہے۔گا ہکوں کا ایمان لذتِ مظاہر ِ قُدرت سے اُٹھ چُکا
ہے اور ٹھیلے والوں کو رضائے الہی پر بھروسہ نہیں رہا۔تربوز صحت بخش بھی ہو
اور مزیدار بھی یہ خالقِ حقیقی کی منشا ء پر مُنحصر ہے۔ہم گا ہک لو گ بھی
عجیب فطرت کے مالک ہو تے ہیں۔پھلوں سبزیوں،دالوں اور اناج کو ٹٹولنے کے فن
کا مظاہرہ تو یوں کرتے ہیں جیسے ہم زرعی مُلک کے باشندے نہیں بلکہ خالق
ہوں۔اسی طرح سے دُکاندار بھی اپنی ہر چیز کی لذت اور معیار کی اس طرح ضمانت
دیتا نظر آتا ہے جیسے کہ وہ چیز خود اُس نے پیدا کی ہو۔
کٹے ہو ئے تربوزوں پر انواع و اقسام کے حشرات و الارض مکھیاں بھنبھناتی ہیں
تو ان کی غذائی صحت مشکوک سمجھنے لگتے ہیں مگر ہم اپنے دماغوں میں
بھنبھناتی فرعون صفت مکھیوں سے لا علم ہیں جنھوں نے جذبہ ایمانی کی لذت اور
مٹھاس پھیکا کر دیا ہے۔چیزوں کو ٹٹول کر اُن کے معیار کے جانچ کرنے والے ہم
عام لوگ کاش کبھی اپنے من کو بھی ٹٹول کر دیکھ لیں۔ پانامہ پر،کرپشن پر،
جھوٹ پر، بے ایمانی پر کو ئی بھی تبصرہ ہمیں زیب نہیں دیتا کیونکہ ہم سے ہر
ایک کسی نہ کسی پانامہ کا مُرتکب ہوا ہے۔ جہاں موقع ملا ہم نے کمزور کی
زمین ہتھیا لی، رشوت دے کر اپنا ناجا ئز کا م کروایا۔جھوٹ بول کر اپنی جان
چُھڑائی،
گھر کے آگے تھڑا بنا کر گلی گھیر لی۔ہمیں صرف خود سے غرض ہے اور دوسروں کی
برایئوں میں دلچسپی۔ہمیں کو ئی حق نہیں پُہنچتا اپنے حُکمرانوں کو بُرا
بھلا کہنے کا۔
کا ش ہم کٹے ہو ئے تربو زہی ہو تے کم ازکم اپنے اوپر بیٹھنے والی مکھیوں
اور گندگی کا احساس ہو تا۔کاش............. |