تم جاگتے رہنا

بچپن میں ایک گلہ ہر وقت زبان پر رہتا تھا کہ ابو ہمیں کسی کے گھر کیوں نہیں جانے دیتے اگر کہیں جانا بھی ہو کسی دوست سے کوئی کام ہو تو ساتھ کوئی ضرور جائے گا اور واپسی بھی ایک ساتھ ہو گی۔ یوں لگتا تھا جیسے ہم کوئی اور ہی مخلوق ہیں جو کسی کے گھر اکیلے چلے گئے تو نجانے کون سی قیامت آ جائے گی اندر ہی اندر جلتے رہتے تھے کہ سب دوستیں ایک دوسرے کی طرف آتی جاتی ہیں اور ہم گھر میں منہ بنا کر سوگ منا رہے ہوتے جیسے بہت بڑا ظلم ہو گیا ہو گا۔ کافی عرصہ پوچھتے رہے کہ جو لوگ ایک دوسرے کے گھر آتے جاتے ہیں وہ کیا اچھے نہیں ہوتے آگے سے جواب ملتا بات اچھے برے کی نہیں لیکن زمانہ ٹھیک نہیں احتیاط کرنی چاہئیے جب اسکول میں سب مل لیتے ہو پھر گھر جا کر کیا کرنا ہے۔ بچپن بس اسی گلے شکوے میں گزر گیا اور یہ کسی کے گھر آنے جانے کی منطق کبھی سمجھ نہیں آئی۔ لیکن آج اس منطق کو سمجھ کر وہ گلہ فضول لگتا ہے۔ ہم دوسروں کی نیت اور سوچ کو جاننے سے قاصر ہوتے ہیں لیکن خود کو محتاط راہ پر گامزن کر کے کسی بڑے نقصان سے بچ سکتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں آئے روز کوئی نہ کوئی ایسا واقعہ سامنے آ جاتا ہے کہ نہ تو بے حسی کی چادر اوڑھی جا سکتی ہے اور نہ ہی نطریں چرائی جا سکتی ہیں۔ ہمارے اعمال ہمارا کردار کہیں سے بھی ایک مہذب معاشرے کا تاثر قائم نہیں کرتا۔ معاشرے میں بڑھتے ہوئی بدکاری کا جو اسباب ہیں ان کی طرف کوئی سنجیدگی سے متوجہ نہیں ہو رہا۔ جس کو دیکھو اس کی زبان پر ایک ہی بات ہوتی ہے کہ حکومت کا قصور ہے حکومت کچھ نہیں کر رہی۔ مانا کہ حکومت کا فرض ہے عوام کے مسائل کو حل کرنا لیکن کیا آپ اپنے فرائض خوش اسلوبی سے سرانجام دے رہے ہیں۔ مجھے ان لوگوں پر بہت افسوس ہوتا ہے جو اپنے بچوں کو اپنی لاپرواہی اور غفلت کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور پھر روتے ہیں۔ کتنے واقعات آپ دیکھ اور سن چکے ہیں پھر بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔ کیوں اپنے بچوں کو دوسروں کی ذمہ داری پر چھوڑ کر کہیں آتے جاتے ہیں۔ آپ کے بچے آپ کی ذمہ داری ہیں۔ آپ کا حج و عمرہ کس کام کا جب آپ اپنی پری کا خیال نہیں رکھ سکے۔ یہ پچھتاوا اور ندامت کبھی ساتھ چھوڑے گا کہ کیوں ہم اپنی ننھی پری کو چھوڑ کر گئے۔ کیا والدین سے بڑھ کر بھی کوئی اولاد کا خیال رکھ سکتا ہے؟ ہمارے پاس دوسروں کے کردار کو ٹھیک کرنے کے لیے شاید وقت درکار ہوتا ہے کیونکہ کسی کی اصلاح کرنا بہت مشکل کام ہے لیکن ہم اپنی حفاظت تو خود آسانی سے کر سکتے ہیں نا۔ یہ جو ننھے پھول ہیں جو کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گئے ان کا مجرم کوئی ایک فرد نہیں بلکہ پورا معاشرہ ہے جس میں بسنے والے تمام افراد اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

ہم وقتی طور پر انصاف کے لیے آواز بلند کرتے ہیں لیکن پھر وہی خاموشی۔ جب تک کوئی مجرم کیفر کردار کو نہیں پہنچے گا کوئی عبرت کا نشان نہیں بنے گا تب تک یہ واقعات یوں ہی ہوتے رہیں گے۔

ان حالات میں ایسے لوگوں کو بھی آگے بڑھنا چاہئیے جو اپنے علم و فہم سے معاشرے میں بڑھتے ہوئے جرائم کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
 

zahra Tanveer
About the Author: zahra Tanveer Read More Articles by zahra Tanveer: 15 Articles with 20096 views I want to be strong for myself .. View More