مکر می،ہمارے ملک میں ہماراکل کا مستقبل روشن کرنے
والے پھول ہمارے معصوم پبچے بچیاں ہیں جو کہ حالات، وا قعات کے پیش
نظرمرجھائے ہوے ہیں اس لیئے کہ ہمارے ملک میں درجنوں طالب علممعصوم بچے ہوس
کی بھینٹ چڑ ھ چکے ہیں ،حال ہی میں سات سالہ بچی سے زیادتی کے بعد قتل کے
لرزہ خیز واقعہ پرہر مسلمان کی انکھ سے خون کے انسو نکلے ہیں،ننھی زینب کے
قتل پر پورا ملک سوگ میں ڈوب گیا،اب ہر معصوم بچہ یہ سوال کرتا ہے کہ ننھی
زینب کا کیا قصور تھا وہ تو تعلیم حاصل کرنے کیلئے گھر سے نکلی تھی پھر اسے
کیو ں اگواہ کیا گیا اسے کیو ں درندگی کا نشانہ بنایا گیا ننھی زینب کو کیو
ں قتل کیا گیا مگر ان ننھے پھولوں کیلئے والدین کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ،مگر
یہ سب سن کر جسم میں ایک درد بھری لہر دوڑتی ہے ،اور یہ خیال آتا ہے کہ
زینب ہم شرمندہ ہیں ،7 سالہ زینب اپنے گھر کے قریب روڈ کوٹ کے علاقے میں
ٹیوشن پڑھنے گئی تھی، جہاں سے اسے اغوا کر لیا گیا، جس کے بعد گزشتہ روز
پولیس کو زینب کی لاش شہباز خان روڈ پر کچرے کے ڈھیر سے ملی تھی۔،قصور میں
سات سالہ زینب سے زیادتی کے بعد قتل کے لرزہ خیز واقعہ پر پورے ملک کی فضا
سوگوار ہے ، یاد رہے، اس سے قبل کوٹ پروین میں 5سالہ معصوم بچی کو ریپ کا
نشانہ بنانے کے بعد قتل کر دیا گیا تھا جس کی لاش ایک زیر تعمیر مکان سے
ملی تھی پھر اس کے بعد ایک اور بچی کی لاش علی پارک سے برآمد ہوئی تھی وہ
بھی ایک زیر تعمیر مکان سے ہی برآمد کی گئی تھی اور اس طرح کے دیگر واقعات
سمیت ، قصور میں ایک ہی سال میں 12واقعات پیش آچکے ہیں جن کو درندگی کا
نشانہ بنا کر بے دردی سے قتل کر کے کسی کو کوڑے کے ڈھیر میں اور کسی کو زیر
تعمیر مکانات پر پھینک دیا گیا،میں لکھ رہا ہو ں مگر انکھوں سے آنسو جاری
ہیں یہ سوچ کر کہ جب ان درندوں نے ان معصوموں کی کی جان لی ہوگی انہیں
دردنگی کا نشانہ بنایا ہو گا تو وہ ہمارے ملک کی ہماری معصوم بچیاں اپنی
جان بچانے کیلئے کتنا گڑگڑائیں ہونگی ،کتنا روئیں ہونگی کتنا یاد کیا ہو گا
اپنے والدین کو کہ کاش ہمارے والدین پاس ہوتے تو چاہے خود مر جاتے مگر ہمیں
کچھ نہ ہونے دیتے ، اور ملک بھر میں اس طرح کے درجنوں واقعات پیش آچکے ہیں
، اور پولیس آج تک ملزمان کا سراغ لگانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، فرانزک
رپورٹ اور دیگر پہلوؤں پر صرف کاغذی کارروئیاں تو کی جا رہی ہیں مگر مثبت
پہلو آج تک سامنے نہیں آئے، قصور میں ایک بچی کا نہیں پورے معاشرے کا قتل
ہوا ہے اس لیے زینب کے اس ہول ناک واقعہ نے ہمارے پورے ملک کی قوم کو جگا
دیا ہے ،اب تو ایک ہی سوال ہے معصوم بچیوں کی زندگیوں سے کھیلنے والوں کوسر
عام پھانسیاں دی جائیں۔ معصوم زینب کی زندگی سے کھیلنے والے وحشی درندوں کو
سرعام پر تختہ دار پر لٹکایا جائے،کیونکہ یہ سب کچھ اس وقت تک بند نہیں ہو
گا جب تک ایسے وحشی درندوں ،حیوانوں اور قاتلوں کو عبرت کا نشانہ نہیں
بنایا جائے گا ، اب تو والدین اپنے مرجھائے پھولوں کو دیکھ کر سکول ٹیوشن
اور مدرمیں پڑھنے کیلئے بھیجنے سے ڈررہے ہیں ،اور ہم ڈریں بھی کیوں ناہمارے
ملک میں انسانوں سے زیاد ہ درندے پھرتے ہیں جو ہوس کے نشے میں اتنے بدمست
ہوتے ہیں جو عمر ،جنس ،انسان،جانور کسی چیز کی تمیز نہیں کر سکتے ،ایسے میں
اپنے بچوں کی حفاظت خود ہی کرنی ہے ،تو آؤ مل کر اپنی اپنی ذمہ داری
نبائیسب سے پہلی ذمہ داری والدین کی ہے،اپنے بچوں کو سکھائیں کہ کس سے بات
کرنی ہے اور کس سے نہیں اور خود اپنے بچو ں کوسکول ،ٹیوشن اور مدرسے میں
چھوڑ کے آئے اور چھٹی ٹائم خود لے کر آئے ، اس کے بعد اسکول کے اساتذہ کی
ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کو بتائیں کہ انہیں خود کو کس طرح محفوظ رکھنا ہے ٗ
اس کے بعد دیگر اداروں کی ذمہ داری آتی ہے اور بھی اپنی اپنی ذمہ داری
نبائے ۔
|