اُستاد نے کہا الف ہم نے کہا الف اُستاد نے کہا ’’ب‘‘ ہم
نے کہا’’ ب،‘‘یہی تعلیم نیوٹن کو بھی دی گئی ہو گی ’’A‘‘’’B‘‘’’C‘‘لیکن وہ
’’Z‘‘پر رکا نہیں بلکہ اُس نے علم سے سمجھا کہ علم کی کوئی حد نہیں ہوتی
اگر انسان محنت کرے تو علم کی نئی حدیں بھی وہ بنا سکتا ہے ،اور اسی بات پر
اُس نے عمل کیا کہ دنیا اُس کو جانتی ہے،ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم
کو جو اُستاد نے پڑھایا ہم نے پڑھ لیا اب اگر کوئی نئی تحقیق بیان کی جائے
تو کہا جاتا ہے میاں کیا کہہ رہے ہو ،پاگل ہو گئے ہو، ہمارے بال سفید ہو
گئے ہم نے کبھی یہ سُنا نہیں،اس قسم کی باتیں کرنے والے ہی ’’لکیر کے فقیر
ہوتے ہیں‘‘اپنے علم کو وسیع کریں ،خدا کی بنائی ہوئی کائنات اور رسول ؐ کے
بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا نام دین ہے،اور نبی ؐ نے صاف صاف کہا کہ ’’علم
حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے‘‘پھر کہا ’’یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا
ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے اگر اچھی علمی بات ہے تو لے لو بری
باتیں چھوڑ دو‘‘دو مثالیں دیتا ہوں ابھی آپ آرٹیکل پڑھ رہے ہیں آپ کے ہاتھ
میں موبائیل ہے کس کی ایجاد ہے مسلمان کی یا کافر کی؟ذرا سوچیں کام کی چیز
ہے سو ہم نے لے لی،کمپیوٹر مسلمان کی ایجاد ہے یا کافر کی بے شک کام کی چیز
ہے سو ہم نے لے لی،اور کیوں نہ لیں کائنات کا خالق اور مالک اﷲ ہے اُس نے
دنیا میں اتنے وسائل بنائے ہیں ،کہ اُن ہی وسائل کو استعمال کر کے سائنس
دان مختلف چیزیں بنا رہا ہے ،اگر دنیا میں وسائل نہ ہوتے تو سائنس دان کچھ
نہیں بنا سکتا تھا ،اور یہ وسائل اُس اﷲ نے دئیے ہیں جس کی میں اور آپ
عبادت کرتے ہیں،ہمیں اُن وسائل کو پہچاننا ہے ،وسائل اﷲ نے ہم مسلمانوں کے
لئے بنائے تھے فائدہ کافر حاصل کر رہے ہیں،اور ایک خاص بات یہ کہ جب سائنس
دان تحقیق کرتے ہیں تو خدا اُن کو کامیاب کر کے بتاتا ہے کہ کوشش کا کوئی
دین و مذہب نہیں ہوتا جو بھی کوشش کرے گا میں اﷲ اُس کو کامیابی دوں گا،ہم
مسلمان ان باتوں پر غور نہیں کرتے بلکہ ہم جب بھی انٹرنیٹ پر آتے ہیں تو
علمی تحقیقں کی بجائے گندی ویڈیوز دیکھنے لگتے ہیں اور پھر جب شیطان ہم پر
حاوی ہوتا ہے تو ’’زینب‘‘اور دیگر معصوم بچیوں کا ریپ کر کے اپنے آپ کو ایک
کامیاب انسان تصور کرتے ہیں لعنت ہے ایسے کام اور ایسی سوچ رکھنے والوں پر
،خدارا ان بیہودہ کاموں کو چھوڑو اﷲ کی بندگی کرو ،نئی باتیں جانو اور اُس
پر عمل کرنے کی کوشش کرو ،NASA اکتوبر 2018 میں سورج کے بارے میں تحقیق
کرنے جا رہا ہے اُس کا کہنا ہے اس سورج میں اﷲ کے بہت سے راز پوشیدہ ہیں ،سائنس
دان کیا کیا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہم یہاں ایک دوسرے پر الزامات لگا
کر اپنی زندگی کے وقت کو ضائع کر رہے ہیں ،یاد رکھو ہر دن موت کی طرف
اُٹھتا ایک قدم ہے اس سے پہلے کے موت کی آغوش ہمارا بستر بن جائے،افسوس کی
منزل ہمارا پیچھا نہ چھوڑے،ہم دست بستہ خدا کی بارگاہ میں کہہ رہے ہوں ایک
بار واپس بھیج اس بار میں صحیح اور اچھے کام کروں گا ،لیکن یہ ارمان آنسو
بن کر بہہ تو سکتا ہے لیکن قبولیت کی گھڑی میں داخل نہیں ہو سکتا ،کیونکہ
افسوس کا وقت زندگی میں ہے مرنے کے بعد نہیں ۔مرنے کے بعد یا سزا ہے یا جزا
ہے بس ۔مرنے سے پہلے کائنات کے علم کو حاصل کرو تا کہ دنیا و آخرت میں
کامیابی حاصل کر سکو۔ |