قارئین چند دن پہلے جس طرح ننھی زینب پری کو وحشی
درندے نے زیادتی کا نشانہ بنایااور پھر زینب کوبے دردی سے قتل کر کے اس کی
لاش کچرے کے ڈھیر میں پھینک دی یہ ہماری تاریخ کا المناک واقعہ ہے۔اس کی
جتنی مزمت کی جائے اتنی کم ہے۔اور قارئین کتنے افسوس کی بات ہے کہ یہ زینب
کا کوئی نیا واقعہ نہیں ہے۔ہمارے ملک میں اس قسم کے بے شمار واقعات رونما
ہو رہے ہیں۔مگر بد قسمتی یہ ہے اس پر کوئی قانون سازی نہیں ہو رہی ہے۔اور
قصور شہر میں اس سے پہلے ایسے گیارہ واقعات ہو چکے ہیں۔مگر مجرم ابھی تک
آزاد پھر رہے ہیں۔یہ کہاں کا انصاف ہے۔معصوم زینب کے کیس کو آج ایک ہفتہ ہو
گیا ہے مگر مجرم ابھی تک آزاد گھوم رہا ہے۔ہمارے معاشرے میں ڈیلی بیس پر
(۱۱) بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔ابھی تو ایسا محسوس ہو رہا
ہے ۔ہمارے معاشرے میں انسانی جانوں کے ساتھ جو ظلم ہو رہا ہے۔حیوانوں سے
بھی بد تر ہے۔انسانی جانوں کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح روندا جا رہا ہے۔خلیفہ
دوم حضرت عمر فاروقؓ فرماتے تھے کہ اگر دریائے دجلہ کے کنارے پر کوئی کتا
بھی بھوکا اور پیاسا مر گیا تو اس کا بھی عمر جوابدہ ہو گا۔لیکن ہماری بد
قسمتی یہ ہے کہ کاش ہمارے حکمرانوں کی بھی سوچ ایسی ہوتی۔ہمارے پنجاب کے
خادم اعلیٰ صاحب زینب کیس پر جے آئی ٹی بنا دی ہے اور زینب کا قاتل پکڑنے
کے لیے ایک کروڑ رقم کا بھی اعلان کیا ہے۔مگر ان تمام باتوں کے باوجودابھی
تک زینب کا قاتل قانون کی گرفت سے باہر ہے۔قارئین یہ بات مجھے افسوس سے
کہنی پڑتی ہے کہ ہمارے ملک میں طاقتور کے لیے کوئی قانون نہیں ہے۔یہاں پر
صرف کمزور اور غریب کے لیے قانون ہے۔اور یہ صرف پنجاب صوبے کا ایشو نہیں
ہے۔دوسرے صوبوں کا بھی یہی حال ہے۔تین ماہ پہلے جو ڈی آئی خان میں
ہوا،بلدیہ فیکٹری میں جو ہوا مشعال خان کی مثال لے لیں مگر قانون کے کٹہرے
میں کسی کو نہیں لایا گیا۔قرآن پاک میں ارشادباری تعالیٰ ہے کہ (ترجمعہ)ایک
انسان کا قتل کرنا پوری انسانیت کا قتل ہے۔اور زمانہ جاہلیت میں بھی بچیوں
کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا تھا۔ارشاد باری تعالیٰ کافرمان ہے کہ ناحق قتل
کرنے والی بچیاں کل بروز قیامت اپنے قاتلوں کا گریبان پکڑیں گی اور انہیں
جھنجھوڑ کر پوچھیں گی کہ انہیں کیوں قتل کیا گیا۔نجانے ننھی زینب پری کے
ہاتھ میں کس کس کا گریبان ہو گا۔حضرت عمر فاروق ؓ کا فرمان مبارک ہے کہ جس
مقتول کا قاتل نا معلوم ہو تو تو حاکم وقت اس کا ذمہ دار ہے۔اور جس طرح
ننھی زینب کو بے دردی سے قتل کیا گیا اس کے ذمہ داران کا تعین کرنا ریاست
کی ذمہ داری ہے ۔ایسے واقعات کی مثال دوسرے مسلم ممالک کی لے لیں۔پچھلے سال
ایران میں ایک بچے کو اغوا کیا گیا اور وہاں کی حکومت نے قاتل کوچوراہے میں
ایک بھرے مجمع کے سامنے پھانسی پر لٹکا کرعبرت کا نشانہ بنایا۔قارئین کاش
ہمارے ملک پاکستان میں بھی ایسا قانون بنایا جاتا۔آخرمیں میری پنجاب کے چیف
منسٹر صاحب سے یہ گذارش ہے۔خادمہ اعلی ٰصاحب(ڈی پی او ) کو صرف عہدے سے
عارضی ہٹانا کافی نہیں ہے۔پولیس کے ا فسروں کو ترقی دینا بھی میرٹ پر ہونا
چاہیئے۔اور پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب سے بھی میری گذارش ہے۔ان
وحشی درندوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور انہیں ایسی عبرت ناک سزا
دیں تاکہ کوئی ایسی جرئت نہ کرے اور معصوم زینب کے والدین کو انصاف دلوائیں۔۔۔۔۔۔۔۔اﷲ
پاک ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
|