میاں بیوی معاشرتی زندگی کی اہم اکائی ہیں اورمرد اور
عورت کا سب سے خوبصورت رشتہ میاں بیوی کا ہے۔ اسی لیے اﷲ تبارک وتعالیٰ نے
قرآن پاک کی(سورۃ ابقرہ) میں ارشاد فرمایا ہے،
ترجمہ :وہ (بیویاں) تمہارا لباس ہیں اور تم (خاوند) ان کا لباس ہو‘‘۔
لباس کے لفظی معنی ہیں،ڈھاپنا (چھپانا)۔لباس جو انسان کی ستر پوشی کرتے
ہوئے اسے موسم کی سختی اور نظروں سے محفوظ رکھتا ہے اسی لیے اسلام میں نکاح
کے رشتے کو سب سے خوبصورت رشتہ قرار دیا گیا ہے اور اس میں بھی کوئی شک
نہیں کہ میاں بیوی دونوں مل کر زندگی کی گاڑی چلاتے ہیں۔اگر ان دونوں میں
تھوڑی سی دراڑ پڑ جائے توراستے جدا ہو جاتے ہیں اور اولاد کی زندگی کا پہیہ
رکھ جاتا ہے جو پھر ان کے جوان ہونے تک رینگ رینگ کر چلتا ہے۔
میاں بیوی ایک دوسرے کے لیے حوادثِ زمانہ، مشکلاتِ حیات اورزندگی کے اذیت
ناک لمحات میں ایک دوسرے کے لیے حفاظت اور سہارے کا ذریعہ ہیں۔ ایسا نہیں
ہے کہ خاوند مشکلات میں گھرا ہو تو بیوی اسے چھوڑ جائے یا بیوی ایسے حال
میں ہو اورخاوند اسے چھوڑ جائے ۔انسان کی شخصیت میں حسن و جاذبیت کا ایک
ذریعہ وہ روحانی اورجسمانی اطمینان ہے جو اسے اپنے زوج سے ملتا ہے۔ ذہنی
سکون انسان کو اعتماد اور حوصلہ دیتا ہے اور یہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ
مرد اور عورت جنہیں پر سکون ازدواجی زندگی حاصل ہے ان کے باقی معاملات
زندگی بھی آسانی سے گزر رہے ہیں۔آمدن کی کمی بھی ان کے تعلقات اور روز مرہ
زندگی کے دیگر معاملات پر اثر انداز نہیں ہو رہی ہوتی مگر وہ میاں بیوی جن
کے آپس کے تعلقات خراب ہوں وہاں دولت کی فراوانی بھی ان کو سکون سے جینے
نہیں دیتی۔
دوسری جانب ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے عیوب ونقائص کو
چھپانے کا سبب ہیں، یہ نکتہ سماجی اور خاندانی زندگی میں بہت اہم ہے کہ
میاں بیوی باہمی اختلافات یا ایک دوسرے کی خامیوں اور کمزوریوں کو کو رشتہ
داروں کے آگے رکھ کر ایک دوسرے کو بدنام کرنے کے بجائے، ایک دوسرے کے مشورے
اور افہام و تفہیم سے مسائل کو حل کرتے ہیں۔ تاہم دوسری جانب ایسے مرد وزن
بھی ہیں جو ایک دوسرے کی خامیوں کو عوامی سطح پر اس طرح زیر بحث لاتے ہیں
جیسے لوگوں کے پاس کوئی جادو کی چھڑی ہے جو ان کے شریک سفرکی خامیوں کودور
کر دے گی۔
گذشتہ دنوں کچھ ایسے ہی قصے سننے کا موقع ملا جس میں ایک خاتون جنہوں نے
اتفاق سے لو میرج کی ہوئی ہے اور کئی برس بیت جانے کے بعد بھی اولاد جیسی
نعمت سے محروم ہیں وہ اپنے میل کولیگز کو یہ بتا رہی تھیں کہ مسئلہ میرے
شوہر میں ہے اور جو مسئلہ بتایا وہ ایسا ہی تھا کہ جیسے اس عورت نے خود کو
بے لباس کرلیا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ایک کولیگ نے کہا ہمیں کیوں بتا رہی
ہیں،کیا ہم نے اس کا حل دینا ہے ، کسی اچھے ڈاکٹر سے رجوع کریں یا اپنے
شوہر کی خوارک پر توجہ دیں تب موصوفہ کا کہنا تھا کہ ہاں ہاں حکیم صاحب نے
بھی یہی کہا ہے۔میں سوچتی رہ گئی کہ یہ عورت احمق ہے یا دوسروں کو بے وقوف
بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپنے شوہر کی کمزوری کو سر عام موضوع بنا کر وہ
کیا ثابت کرنے کی کوشش کی کر رہی ہے کہ وہ بہترین اور مکمل ہے جب کہ اس کی
زندگی میں شامل مرد کمزور ہے اور بچہ پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں اور اسے
چھوڑ بھی نہیں سکتی کہ اس سے محبت ہے اور میں ساکت رہ گئی کہ کیا محبت اس
کو کہتے ہیں۔ محبت تو بہت اعلیٰ و ارفع جذبہ ہے ، قبول کرنے کا اور در گزر
کرنے کا اور وہ تو خوش قسمت تھی کہ محبوب کا ساتھ حاصل ہے۔ جس کو پانے کے
لیے بقول اس کے اس نے طویل عرصہ انتظار کیا۔
یہ اس کے دعوے جو مجھے غلط ہی لگے ہیں کہ اپنے محبوب کا تماشا کوئی نہیں
لگا سکتا ۔مجنوں کے آگے لیلیٰ کو سیاہ رہ کہنے والوں کو مجنوں پتھر مارتا
تھا مگر لیلیٰ کے بارے میں کچھ نہیں سنتا تھایہ تھی محبت ۔ مگر وہ لیلیٰ
مجنوں تھے ایک دوسرے کے محبوب تھے ایک دوسرے کا لباس نہیں تھے مگر انہوں نے
محبت کی چادر اوڑھ لی تھی جس میں ایک دوسرے کے عیب چھپا لیے تھے۔کئی شادی
شدو جوڑے ایسے بھی ہیں جنہوں نے اولاد کے بغیر بھر پور زندگی گزاری مگر
اپنا تماشا نہیں لگایا۔
ایسا ہی ایک واقعہ ، میرے والد کی سگی خالہ ، جو رشتے سے میری دادی ہی
لگیں۔ شادی کے چالیس سال بعد بیوہ ہوئیں تو ضد پکڑ لی کے اپنے شوہر کو خود
نہلاؤ گی، اولاد کوئی نہیں تھی سب جانتے تھے کہ میاں بیوی کو ایک دوسرے سے
بہت محبت تھی شوہر نے کبھی اونچی آواز سے بات نہ کی اور دادی نے کبھی شکایت
کا کوئی موقع نہیں دیا۔ بقول امی کے اولاد کی کمی بھی محبت میں کمی نہ لا
سکی۔ دونوں ہی گاؤں کے ان پڑ ھ مگر سلجھے ہوئے تھے کہ واضح رہے کہ بعض
اوقات پڑ ھے لکھے جاہل ہوتے ہیں اور کہیں ان پڑھ افراد بہترین انسان ثابت
ہوتے ہیں یعنی جہالت کا تعلق تعلیم سے نہیں رویوں سے ہے جو انسان کی تربیت
اور رویوں سے چھلکتی ہے۔خیر دادی نے دادا کو نہلانے کی ضد کی تھی سب
بولناشروع ہو گئے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ دادا کے بھائیوں اور ان کی
اولادوں نے کوشش کی مگر دادی کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ اتنے
میں دادا کے چھوٹے بھائی جو شہر میں تھے اور دادی کے لاڈلے تھے وہ پہنچ
گئے۔ سمجھدار تھے ، دادی سے اکیلے میں پوچھا بھابھی ضد کیوں کر رہی ہیں،
وقت گزر رہا ہے تب دادی نے بتایا کہ تمہارا بھائی کا بھرم بکھر جائے گااور
دنیا کو پتہ چل جائے گا وہ مرد نہیں تھا۔یہ سننے کے بعد انہوں نے دادی کے
ہاتھ اور پاؤں چومے اور دوسرے بھائی کے ساتھ مل کر دادا کو غسل دیا ۔کچھ ہی
عرصے بعد دادی بھی چل بسیں تب یہ راز کھلا اور رشتے دار عش عش کر اٹھے کہ
کیا عورت تھی، نہ شکوہ نہ شکایت ۔ کیسی وفاداری تھی اور اﷲ کے حکم کہ میاں
بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں کی لاج کیسے رکھی۔ یہ تھی عورت مشرق کی صابر
اور با حیا عورت۔دادی نے اپنی بہن کے بیٹے کو گود لیا بھانجے، بھتیجوں سے
محبت کی، مگر کبھی اپنے ماں باپ، ساس سسر سے شکایت نہیں کی۔ دادا کے ماں
باپ کو توپتہ تھا کہ ہمارا بیٹا تیسری جنس میں سے ہے۔ یہاں میں یہ کہنے سے
قاصر ہوں کہ کس کی محبت خود غرضی کا شکار تھی دادا کے ماں باپ کی یا دادی
کی جو منگنی کے بعد ان کے دل میں دو سال پروان چڑھی اور انہوں نے مرتے دم
تک اس کی لاج رکھی۔
دونوں واقعے ذہن میں رکھ کر یہ کالم تحریر کیا ہے کہ سوال اور موضوع ایک ہی
ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں اسے عوامی سطح پر اتارنے سے پرہیز
کریں۔ایک دوسرے کا احترام کریں اور اگر ایک دوسرے کی خامیوں کا پتہ چل چکا
ہے تو ایک دوسرے کو تماشا بنانے کی بجائے عزت و احترام سے الگ ہو جائیں ۔آج
اگر پاکستان کو گھریلو نظام تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے تو اس میں تربیت اور
قبول نہ کرنے والی سوچ کا عمل دخل بہت زیادہ ہے ۔ |