سانحہ قصور، ذمے دار کون

پنجاب کے شہر قصور میں ہونے والے انسانیت سوز سانحہ پراس وقت پوری قوم غمگین اور افسردہ ہے ،ظلم و زیادتی کے اس واقعہ کو بیان کرنا بھی آسان نہیں ہے ، سات سال کی ایک معصوم بچی زینب جس کے والدین عمرہ کی سعادت حاصل کرنے میں مصروف تھے ،وہ اپنی خالہ کے گھرپر قرآن شریف کی تعلیم حاصل کرنے لیے اپنے گھر سے نکلتی ہے لیکن انسانوں کے روپ میں درندے اس معصومہ کو راستہ سے اغوا کرکے لے جاتے ہیں اور پھر پانچ دن کے بعد اس کو زیادتی کا نشانہ بناکر قتل کرکے کوڑے کے ڈھیر میں پھینک دیتے ہیں۔یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ انسان کا دل اس کو محض تصور کرتے ہوئے کانپ جا تا ہے ، حقیقت میں اس سانحہ سے دوچار ہونے والے زینب کے والدین اور گھر والوں کے دکھ اور تکلیف کا اندازہ اسی سے لگاناممکن ہے ۔بلاشبہ کسی بھی ملک اور قوم کے لیے اس قسم کے واقعات انتہائی شرمندگی کے باعث ہوتے ہیں کیونکہ یہ واقعات معاشرہ کے زوال اور انحطاط کی نشاندہی کررہے ہوتے ہیں۔

اس واقعہ کے بعد سوچنے کی ایک بات یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک اور معاشرہ میں یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے جو پیش آیاہے؟اورکیا ہم یہ یقین کرسکتے ہیں کہ آئندہ اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آئے گا؟ان دونوں سوالات کا جواب یقینا نفی میں ہے اوردرحقیقت یہی ہمارا بڑا المیہ ہے ۔اسی قصور میں یہ ایک سال کے دوران پیش آنے والا اپنی نوعیت کا بارہواں واقعہ ہے ،اس کے علاوہ باقی ملک میں بھی مختلف اوقات میں اس طرح کے دلخراش واقعات سامنے آتے رہتے ہیں ،کچھ ہی عرصہ قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی ایک انسانیت سوز واقعہ سامنے آیا تھا لیکن دوسری طرف اب تک ان سانحات کے مجرموں کو پکڑ کر سزا نہیں دی گئی ہے ۔ جرائم کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ دنیا کے ہر ملک اور معاشرہ میں ہوتے ہیں لیکن حکومت اور ریاست کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑ کر کیفرکردار تک پہنچاتی ہے ۔ معاشرہ کو جرائم سے پاک کرنے کایہی ایک آسان نسخہ بھی ہے لیکن ہمارے یہاں حکومتیں اس میں مکمل ناکام نظر آتی ہیں کیونکہ یہاں اول تو مجرموں کو سرے سے پکڑ اہی نہیں جاتا ہے اور اگر پکڑ بھی لیا جائے تو ن کو کوئی سزا ہی نہیں ہوپاتی ہے اور چھوڑ دیا جاتا ہے ، اب جس ملک اور معاشرہ میں جرائم پیشہ افراد کو پکڑے جانے اور سزا کا خوف ہی نہ ہووہاں سے جرائم کا خاتمہ کیسے ہوسکتا ہے ۔ قصور میں پیش آنے والے ان تمام سانحات کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ ان میں ایک ہی شخص ملوث ہے ،جب ایک مجرم کوگیارہ مرتبہ ایک جرم کرنے کے باوجودسزا تو دور کی بات ہے سرے سے پکڑا ہی نہیں جاسکاہو تو ظاہر سی بات ہے وہ بڑی دلیری کے ساتھ بارہویں مرتبہ بھی وہی جرم کرے گا ۔بہرحال یہ ہمارے نظام کی بہت بڑی کمزوری ہے جو کہ جرائم کے خاتمہ میں ایک بہت بڑی رکاوٹ ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں آئے روزاس قسم کے سانحات پیش آتے رہتے ہیں ،ان پر کچھ دن تک شور شرابا ہونے کے بعد پھر خاموشی ہوجاتی ہے اور مجرم آزاد پھر رہے ہوتے ہیں ۔اگر ہم نے ان سانحات کا سد باب کرنا ہے تو ہمیں مجرموں کو پکڑ کر ان کوانصاف کے اصولوں کے مطابق فوری سزا دینے کے نظام کومضبوط کرنا ہوگا ۔

دوسری بات یہ ہے کہ قصور ایک سال سے مسلسل اس قسم کے انسانیت سوز سانحات کی زد میں ہے اس لیے مذکورہ سانحہ پروہاں کی عوام کا مشتعل ہونا اور احتجاج کرناایک فطری بات ہے ، البتہ اس احتجاج کا پر امن ہونا انتہائی ضروری ہے اور اسی صورت میں وہ موثر بھی ہوگا۔دوسری طرف پنجاب پولیس کی طرف سے جس طرح احتجاج کر نے والی عوام پربالکل سامنے سے فائرنگ کرنے کے مناظر سامنے آئے ہیں جس سے دوانسانی جانیں بھی ضایع ہوگئی ہیں ،وہ انتہائی افسوس ناک ہے، اس قسم کے المناک سانحہ پر احتجاج کرنے والے شہریوں پر اس طرح فائرنگ کرنا سراسر ظلم ہے ۔ جن پولیس اہلکاروں نے یہ جرم کیا ہے ان کو بھی اس کی قانون کے مطابق سزا ملنا ضروری ہے ۔حکومت کے لیے اس موقع پر حکمت وتدبر سے کام لینا ضروری ہے،ایسا نہ ہو کہ احتجاج پورے ملک میں پھیل جائے اور پھر حکومت کے لیے اس کو قابو کرنا مشکل ہوجائے۔

آخر میں ایک اہم بات یہ ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے ہمارے ملک میں جس طرح کا سیاسی موحول بن چکاہے اس کے منجملہ نقصانات میں سے ایک بڑانقصان یہ بھی ہے کہ ملک میں پیش آنے والے سانحات بھی اکثرسیاست ہی کی نذر ہوجاتے ہیں ،کچھ عرصہ قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں پیش آنے والا واقعہ بھی اسی طرح سیاست کی نذر ہوگیا تھا اور اب ایک طبقہ قصور کے واقعہ کو بھی سیاست کی نذر کرنے میں مصروف ہے جس کے لیے سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ہورہا ہے ،اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس سے ان سانحات کی سنگینی متاثر ہوجاتی ہے ،اس لیے یہ رویہ درست نہیں ہے ،سیاست کے لیے بہت ساری چیزیں ہیں جن پر سیاست کی جاسکتی ہے باقی اس طرح کے سانحات ملک کے کسی بھی حصہ میں پیش آئیں ان کو سیاست کی نذر نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کے خلاف سیاست سے بالاتر اور یک زبان ہوکرموثر آواز اٹھانا ضروری ہے ۔

Usman Uddin
About the Author: Usman Uddin Read More Articles by Usman Uddin: 7 Articles with 5031 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.