زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن
کردیا کرتے تھے، یہ لوگ بچی کے ہاتھ میں کھجور یا مٹھائی کا ٹکڑا تھماکر اس
کو کھیل کود کے بہانے ایک قبر نما گڑھے اتار دیتے، بچی اس کو کھیل کا حصہ
سمجھ کر اس گڑھے میں کھیلنے لگتی ہے،تب بچی کے ساتھ آئے ہوئے لوگ اس پر مٹی
ڈالنا شروع کردیتے ہیں،وہ بچی ا بتدا میں اس کوبھی کھیل کا حصہ سمجھتی ہے
لیکن جیسے ہی مٹی اس بچی کی گردن تک پہنچ جاتی ہے وہ گھبرا کر اپنی ماں کو
آواز دینا شروع کرتی ہے، مگر آئے ہوئے جاہل و ظالم جس میں اس بچی کا باپ
بھی شامل ہوتا ہے وہ سب اس بچی کے چیخوں کو نظر انداز کرتے ہوئے مٹی سے اس
گڑھے کو بند کرکے بچی کو دفن کردیتے ہے، ایسے کئی واقعات سے احادیثوں کی
کتابیں بھری پڑی ہے، مگر یہ تو زمانہ جاہلیت کو واقعات ہے، محمد عربی ﷺ کی
آمد و اسلام کی نفاذ کے بعد اس قسم واقعات کا خاتمہ ہوگیا تھا۔ اسلام نے
بیٹی کو رحمت قرار دیا، اسلام نے خواتین کی عزت میں معاشرے کی عزت ہے نافذ
کیا ۔
گزشتہ دنوں پنجاب کے ضلع قصور میں ایک دل دھلانے والا واقعہ رونما ہوا ، جس
کو سن کر انسانیت شرما جائے ، ایک سات سالہ بچی جس کے والدین عمرہ کی سعادت
حاصل کرنے سعودی عرب گئے ہوئے تھے ، کچھ نامعلوم ہوس کی پوجاریوں نے بہلا
پھسلا کر زینب کو گھر سے دور لے جاکر انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنا کر
اپنی ہوس کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے بعد زینب کی گردن کو دبا کر اس کو قتل
کردیا ۔
یہ پاکستان میں کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی تسلسل سے اس قسم کے کئی
واقعات ہوتے رہے ہیں، قصور میں زینب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ انوکھا
نہیں ہے یہاں تو بچوں کے ساتھ زیادتیوں کی ایک سیریز چل رہی ہے ، دو سال
قبل اسی علاقے میں تین سو سے زائد بچوں کے ساتھ جو کچھ کیا گیا اور پھر ان
کی ویڈیو اور تصاویر تک بنائی گئیں وہ نہ بھولنے والا واقعہ ہے۔ این جی او
ساحل کی رپورٹ کے مطابق قصور میں گزشتہ سات ماہ کے دوران بچوں کے ساتھ
زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے مگر پنجاب کے حکمران خادم اعلیٰ سمیت
اپنے سیاسی معا ملات میں مست ہیں۔
اسلام کی نفاذ کے بعد جب تک صحابہ کرم ؓ کی خلافت قائم تھی ایسے واقعات نا
ہونے کے برابر تھے ، کیوں کہ سزا کی ڈر سے کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا تھا
، رسول اکرم ﷺ کے دور میں ایک معصوم بچی کا سر کچل دیا گیا ، ابھی اس کی
زندگی کی کچھ لمحات باقی تھی ، اس کو رسول اکرم ﷺکے پاس لایا گیا ، بچی
بولنے سے قاصر تھی ، اس لئے آپ ﷺ ان لوگوں کے نام لے تے رہے جو شک کے دائرے
میں تھے ، ایک یہودی کا نام سن کر اس بچی نے اثبات میں سرہلایا ، تو آپ ﷺ
نے اس مجرم کو گرفتار کرایا اور سرعام اس مجرم کا سر دو پتھروں کے درمیان
رکھ کر اس کو نشان عبرت بنایا ۔ ( بخاری و مسلم)
پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا ، یہاں پر 95فیصد مسلمان آباد ہے ،
حکومت بھی مسلمانوں کی ہیں ، یہاں کے قوانین بھی اسلامی ہونی چائیں ، اسلام
نے ہر جرم کی سزا مقرر کی ہے ، اگر کوئی کسی بے گناہ انسان کو قتل کرتا ہے
، تو اسلام نے اس کے قصاص میں اس کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے ، جس کو دیکھ
کر کوئی دوسرا شخص کسی بے گناہ کو قتل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا ، کیوں کہ
اس کو اپنی گردن کی فکر لائق ہوگی ۔
زینب کے ساتھ ہوئے ہولناک قصور واقعہ کے ذمہ دار کون ہیں ؟ اس کے ذمہ دارہم
سب ہیں، ہمارا معاشرہ اور ہماری حکومت ہیں۔ ہم بذات خودذمہ دار ہیں کہ ہم
اپنی اخلاقی قدریں کھوچکے ہیں ہم انسانیت سے حیوانیت کی طرف تیزی سے تبدیل
ہوتے جارہے ہیں۔ ہم زینب جیسی پیاری بیٹی کے ساتھ ہوئے ظلم کے خلاف صرف چند
دن آوازاٹھاکر بھول جاتے ہیں۔ہمارا معاشرہ اس لیے ذمہ دار ہے کہ معاشرہ
نفسا نفسی میں بے حیائی کی وجہ سے پیار و اخلاق اور تہذیب و تمدن سے دور
ہوتا جا رہاہے ، جس سے لوگوں میں بے حسی بڑھتی جارہی ہے اور کسی بھی المناک
واقعے کا درد چند دن میں ہی ختم ہو جاتاہے۔بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ طبقاتی
تقسیم کا شکار ہے اور غریب کا کوئی پرسان حال نہیں جبکہ سرمایہ دارنہ نظام
کا دور دورہ ہے۔ ہماری حکومت اس لیے ذمہ دار ہے کہ حکومت کی بنیادی ذمہ
داری عوام کے جان ومال کو تحفظ فراہم کرنا ہے جبکہ قصور جیسے ایک شہر میں
ایک سال میں یکے بعد دیگرے ایسے ہی گیارہ واقعات رونما ہوتے ہیں مگر کسی کے
کان پر جوں تک نہیں رینگتی اور سب معمول کی طرح سر سے گزار دیتے ہیں۔ہم نے
اسلامی قوانین کو پس پش ڈال دیا ہے ، اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے
احکامات کو بلا بیٹھے ہیں۔
1981 کا ایک واقعہ ہے پنجاب کے دارلحکومت لاہور کے باغبانپورہ تھانے کی
حدود میں پپو نامی بچہ اغوا ہوا تھا۔ بعد میں اسکی لاش ریلوے کے تالاب سے
ملی تھی۔ سابق صدر ضیاالحق کا مارشل لاء تھا۔ قاتل گرفتار ہوئے ، تخت دار
پر لٹکانے کا حکم فوجی عدالت سے جاری ہوا۔ تین دن بعدپانسی گاٹ وہاں بنایا
گیا جہاں آجکل بیگم پورہ والی سبزی منڈی ہے۔ پورے لاہور نے دیکھا پھانسی
کیسے لگتی ہے۔ چاروں اغواکار اور قاتل پورا دن پھانسی پر جھولتے رہے۔ آرڈر
تھا کہ لاشیں غروبِ آفتاب کے بعد اتاری جائیں گی۔ اسکے بعد دس سال کوئی بچہ
اغوا اور قتل نہیں ہوا۔زینب کی طرح کسی اور بچی کے ساتھ ایسا نا ہو ، اس کے
لئے قانونی سزاوں پر عمل بڑا نا ہوگا ۔
جب تک ہم اپنے معاشرے سے بے حیا ئی نفسا نفسی ختم نہیں کرینگے ، اور ہماری
حکومت ایسے درندوں کو نشان عبرت نہیں بنائینگے ، اس ملک میں ایسے واقعات
رونما ہوتے رہے نگے ، ہماری جمہوری حکومت اپنی سیاست اور ووٹ بینک کے لئے
بعض اوقات ایسے درندوں کو سیاسی اشربات دیدتے ہیں ، جس سے دیگر درندوں کے
حوصلے بلند ہوتے ہیں ، جب تک ہم ان درندوں کو نشان عبرت نہیں بنائئنگے ،تب
تک یہ زینب کی طرح بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہینگے۔
اﷲ سے دعا ہے کہ یااﷲ تو ہی اس ملک کے حال پر رحم کر(آمین)
|