تحریر: ثناء نوشین، ڈیرہ اسماعیل خان
آج جس موضوع پر لکھنا چاہ رہی ہوں جس درد پر لکھ رہی ہو اگر قلم کلیجے کے
خون میں ڈبو کر بھی مذمت کے الفاظ لکھوں کم ہے میری بھی ایک پانچ سال کی
بیٹی ہے احساس لکھے نہیں جا سکتے جی کرتا ہے دھاڑیں مار مار کر رو دوں مگر
آج چپ رہنے کا دن نہیں ہے کسی بھی ماں کیلیے میں پہلے واقعہ بتا دوں ساتھ
ساتھ کچھ باتوں کی طرف نشاندہی بھی کرتی رہوں گی قصور کی ایک بچی زینب نام
کی عمر سات سال قرآن پاک پڑھنے گھر سے نکلی مگر اپنے ہی محلے میں وہ دو گھر
چھوڑ کر تیسرے گھر کی طرف جاتے ہوئے غائب ہو گئی سی سی ٹی وی کیمرے چیخ چیخ
کر بتا رہے ہیں بچی کو ورغلا کر لے جایا جا رہا ہے ایسے میں محلے کے کسی
آدمی کسی بچے کسی بوڑھے کسی عورت نے روک کر نہیں پوچھا بیٹا یہ کسکے ساتھ
جا رہی ہو کیوں کہ آج دور میں رواج ہے اپنی بچی بچاؤ غیر کی بچی کا وہ خود
ذمہ دار چار روز پولیس آتی ضابطے کی کارروائی کرتی اور چلی جاتی میں نہیں
کہتی پولیس انوالو تھی مگر چار روز بعد لاش ملنے کے بعد کا رویہ کچھ اچھا
نہیں بچی کو زیادتی کے بعد گلہ گھوٹ کر مار دیا گیا تھا لاش جب کچرے دان سے
ملی چیخ چیخ کر ہم سے سوال کر رہی تھی ان ہوس کے اندھوں کی نظر اب ہم معصوم
بچوں پر کیوں آکر ٹھہر گئی ہے کیا ان۔بے حس لوگوں کو ہم پر ترس نہیں آتا آج
تو ابلیس بھی رو رہا ہو گا آج شیطان نے ننھے فرشتے ۔۔۔
آسمان پر فرشتے بھی اس غم پر تڑپ گئے ہوں گے ۔ ایسے میں رانا ثناء اﷲ کا
بیان ایسے واقعات سالوں سے ہو رہے ہیں، اس واقعے کو مت اچھالیے اس واقعے کے
ذمہ دار وہ والدین ہیں جوبچی کو چھوڑ کر عمرے پر گئے اور بچی خود ذمہ دار
ھے واہ رانا جی کیا بات کہی آپ نے اسکے علاوہ طلال چوہدری کا بیان قصور
جیسے واقعات ہر صوبے میں کئی بار ہوتے ہیں ان کو سیاسی رنگ دیکر مت اچھالیے
۔ساون کے اندھے کو ہرا ہرا سوجتا ہے اور موصوف کو سیاست سیاست۔
ابھی تو یہ آگ
تماشہ لگے ہے
گر دامن تمہارا
ذرا سا پرے ہے
مگر کیا بھروسہ
اگر ایک شعلہ
تیرے آشیانے
کی کھڑکی سے آکر
تیری گڑیا کا
دامن جلا دے
ابھی تو یہ آگ
تماشہ لگے ہے
مگر
کیا بھروسہ
ڈرائیور تمھارا
یا ہو
کوئی محافظ
تمہارے ہی جیسا
جو اپنوں کی بیٹی کو
غیروں سی سمجھے
کبھی شعلے کو
مٹھی میں چھپا کر
تمہاری بھی
بیٹی کا دامن
جلا دے
ابھی تو یہ آگ
تماشہ لگے ہے
میں سیاست نہیں کرتی مگراس بات سے منہ بھی نہیں موڑ سکتی کہ تین سال سے
ہمارے بچے نیزے کی نوک پر زندگی بسر کر رہے ہیں۔2015قصور میں 300 بچوں کے
ساتھ زیادی کی گئی، جن کی وڈیو بنائی گئی اور پھر کئی ملین ڈالرز میں بیچی
گئی۔ ہم چپ رہے۔2016 بچے اغوا کر کے ان کے اعضاء نکال دیے جاتے تھے۔ ہم چپ
رہے۔ اور اب صرف قصور سے 12بچے اغواء یا قتل کر دیے گئے ہیں۔ اور اب بھی ہم
چپ ہیں۔ ان سیاستدانوں کے بیانات کتنے مردہ ضمیر ہیں اور ہم کونسا دودھ کے
دھلے لوگ ہیں زیادہ سے زیادہ پوسٹ لائک کرتے ہیں مذاحمتی کمنٹ لکھ دیتے ہیں
۔ زیادہ سے زیادہ پوسٹ شیئر کر لیتے ہیں۔ ہم اکثر ایسے واقعات کا ذکر گھر
میں نہیں کرتے اپنی بہو بیٹی کو چپ کرا دیتے ہیں۔ اس ٹاپک پر ہم بولتے نہیں
اور وہ بھی یہی سلوک اپنے بچوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ اگر بچے بتائیں فلاں محلے
کا لڑکا فلاں ٹیچر فلاں دوست غلط بات کرتا ہے ہم کہتے ہیں آپ اس سے بات مت
کرو اور کسی سے زکر مت کرو اور بچے کو آنکھ دیکھاتے ہیں آپ تو ایسا نہیں
کرتے۔ بچہ بات بتاتے بتاتے کسی چور کی طرح چپ ہو جاتا ہے ۔ ہم ڈرا ڈرا کر
سوال کر کے بچے کو جھوٹ بولنے پر مجبور کرتے ہیں ۔
میں مطالبہ کرتی ہوں آپ سے کسی سیاستدان سے نہیں کہ سیاستدان تو خود منگتے
ہیں ان کو میں نے اکثر ووٹ مانگتے دیکھا ہے ۔ میں آپ سے مخاطب ہوں۔ ایک عام
پاکستانی سے ، تمام ٹیچرز سے ، تمام والدین سے کہ اپنے بچوں کی تربیت پر
خصوصی توجہ دیں۔ ہر طرح کی ان کی تربیت کریں۔ کیا غلط اور کیا درست ہے یہ
سب بتائیں۔ ایک ماں اپنے بچوں کو بہترسے بہترین تربیت اور تعلیم دے سکتی
ہے۔ وہ اپنا فرض پورا کرے۔ اپنے بچوں کے دوست بنیں نہ کہ دشمن۔ انہیں سخت
رویے کی نہیں بلکہ پیار اور محبت کی زبان سے سمجھائیں۔ ان سے واپسی پر اچھی
اچھی باتیں کریں۔ انہیں یہ احساس دلائیں کہ ان کے لیے آپ کا وقت اور آپ ہی
سب کچھ ہیں۔ ایسا ماحول ہوگا تو بچہ باہر اور اندر کا سب کچھ کھل کر آپ سے
شیئر کرسکے گا۔ یہ بات آپ کے لیے ایک مثبت پہلو ہوگی کہ آپ کے بچے کب کیا
اور کہاں کررہے ہیں۔ |