پاکستان انڈسٹریل ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے تحت 1958ء میں
دائودخیل ضلع میانوالی میں چارصنعتی یونٹس قائم کئے گئے تھے جن میں کھاد
بنانے کا ایک کارخانہ بھی شامل تھا۔یہ پاکستان کا کھاد بنانے کا پہلا
کارخانہ تھا چونکہ یہ امریکہ کی مالی اعانت سے تعمیر کیا گیا اس لئے اس کا
نام پاک امریکن فرٹیلائیزر رکھا گیا ۔تعمیر کے وقت اس کی سالانہ پیداواری
صلاحیت پچاس ہزار ٹن امونیم سلفیٹ کھادبنانے کی تھی۔ 1968ء میں اس کے
پیدواری صلاحیت کو بڑھا کر نوے ہزار ٹن سالانہ کر دیا گیا۔ 1973ء تک یہ
پلانٹ کوئلہ کی گیس پر چلتا رہا تاہم اسی سال پلانٹ کے پراسس کو تبدیل کر
کے اسے قدرتی گیس پر منتقل کر دیاگیا۔ پلانٹ اپنی طبعی عمر پوری کرنے کے
بعد جب اس قابل نہ رہا کہ امونیم سلفیٹ کھاد کی کامیابی سے پیداوار دے سکے
تو اس کو 1998ء میں تبدیل کر کے جدید خطوط پر استوار کیا گیا گیااوراسے
یوریا کھاد بنانے کے کارخانے میں منتقل کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پرانے
پلانٹ کو بند کر دیا گیا۔ اس نئے پلانٹ کا افتتاح اس وقت کے وزیراعظم میاں
محمد نوازشریف نے کیا۔تعمیر کے وقت اس کی یومیہ پیداواری صلاحیت چھ سو ٹن
امونیا اور ایک ہزار پچاس ٹن یوریا کھاد تھی۔ بعد میں اس کی یومیہ پیداواری
صلاحیت میں توسیع کر کے اسے چھ سو پچاس ٹن امونیا اور چودہ سو پچاس ٹن
یومیہ کر دیا گیا۔ نج کاری پالیسی کے تحت 2006ء میں جب اسے فروخت کر کے
نجی ملکیت میں دے دیا گیا اور اس کا نام تبدیل کر کے ایگری ٹیک فرٹیلائیزر
رکھ دیا گیا تو نجی مالکان نے اسے متعدد بنکوں کے پاس گروی رکھ کے قرضے
حاصل کر لئے۔ نجی مالکان کی نا اہلی کی وجہ سے یہ قرضے بعد میں بنکوں کو
واپس واپس نہ کئے گئے۔ جس کی وجہ سے آج یہ کھاد فیکٹری رہن میںبنکوں کی
ملکیت بن چکی ہے۔جس کو متعدد بنکوں کا ایک کنسورشئیم چلا رہا ہے۔ نیشل بنک
آف پاکستان اس کنسورشیم کی نگرانی کر رہا ہے۔
پاکستان میں قدرتی گیس کے بڑھتے ہوئے بحران کی وجہ سے یہ کارخانہ 2010ء سے
وقفے وقفے سے بندش کا شکار رہا ہے ۔ جس کے نتیجہ میں ملازمین کو برطرفی کا
سامنا کرنا پڑا اور فیکٹری میں احتجاج کا سلسلہ چل نکلا۔ اب گزشتہ چار ماہ
سے گیس کی عدم فراہمی سے مذکورہ پلانٹ پھر بند پڑا ہے اور گزشتہ پندرہ روز
سے دوبارہ احتجاج کا سلسلہ جاری ہے ملک میں گیس کے بحران کے پیس نظر حکومت
نے قطر سے گیس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا مگر درآمد شدہ گیس کے نرخ اتنے
زیادہ ہیں کہ کھاد فیکٹریوں کے کیلئے اس کو خریدنا مشکل ہے۔ پیدواری لاگت
بڑھ جانے سے کاروبار کے غیرنفع بخش ہو نے کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ فیکٹری
کے ذمہ داران کا کہنا ہے کہ ملک کی چند فیکٹریوں کو گیس سستے داموں بیچی جا
رہی ہے جو کہ تقریباً چار سو روپے فی یونٹ ہے جبکہ ایگری ٹیک فرٹیلائیزر کو
نو سو روپے سے بھی زیادہ فی یونٹ آفر کی گئی ہے جو کہ سراسر ناانصافی و
زیادتی ہے۔چونکہ یوریا کھاد بنانے کیلئے بنیادی خام مال قدرتی گیس ہے ،اس
لئے گیس کے بغیر کارخانے کا چلنا ناممکن بتایا جا رہاہے ۔ ایس این جی پی
ایل کی طرف سے لی جانی والی گیس سے اسی فیصد گیس کھاد بنانے اور بیس فیصد
سے بجلی بنانے کیلئے استعمال کی جاتی ہے اب محکمہ سوئی گیس کی جانب سے بیس
فیصد گیس بھی منقطع کرنے کا اشارہ دے دیا گیا ہے اگر گیس روک دی جاتی ہے تو
اس کی وجہ سے ہائوسنگ کالونی کے سکولز ، ہسپتال اور گرد و نواح کی آبادیوں
کو دیا جانے ولا مفت پینے کا پانی بند ہو جائے گا اور تین ہزار طلباء کا
مستقبل تباہ ہو جائے گا ۔ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ بجلی کی
بندش سے فیکٹری کے امونیا سٹوریج ٹینک کی صحیح کمپریشن نہیں ہو پائے گی۔ جس
کی وجہ سے ٹینک کا پریشر بڑھنا شروع ہو جائے گا ۔کیونکہ اس ٹینک کی سٹوریج
صلاحیت تین ہزار ٹن ہے، چنانچہ اس کا نتیجہ ایک خطرناک دھماکے کی صورت میں
سامنے آ سکتا ہے۔ اس کارخانے سے بارہ سو سے زائد افراد کا روزگار وابسطہ
ہے جو کہ سینکڑوں افراد کی کفالت کرتے ہیں لہٰذا ملازمین کا کہنا ہے کہ
فیکٹری کو سستے داموں گیس فراہم کر کے ان کے چولھے ٹھنڈے ہونے سے بچائے
جائیں۔ دوسری بات یہ کہ چونکہ عام انتخابات بھی نزدیک ہیں تو کارخانہ ا کی
بندش سے مسلم لیگ ن کی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا۔ |