ارنڈی کے بیجوں سے تیار ہونے والے رائسین زہر کو دنیا کا
مہلک ترین زہر کہا جاتا ہے۔ لیکن بیس سالہ ایک جرمن شہری ایسا بھی ہے جس پر
یہ زہر اثر نہیں کرتا۔ ڈاکٹروں کے مطابق ایک موروثی نقص اس مریض پر زہر کا
اثر نہیں ہونے دیتا۔
|
|
ارنڈی کے بیجوں سے تیار ہونے والے رائسین زہر کی چند ملی گرام مقدار دنیا
میں کسی بھی انسان کی ہلاکت کے لیے کافی ہوتی ہے۔ انسانی جسم میں داخل ہونے
کے بعد یہ زہر اعصابی نظام مکمل طور پر مفلوج کر دیتا ہے اور جگر اور پتے
سمیت کئی اعضا ناکارہ ہو جاتے ہیں۔
اب تک اس زہر کا کوئی تصدیق شدہ تریاق بھی تیار نہیں ہو سکا اور اس سے بھی
خطرناک بات یہ ہے کہ رائسین زہر ارنڈی کے بیجوں کی مدد سے تیار ہوتا ہے جو
مارکیٹ میں باآسانی دستیاب ہوتا ہے۔ رائسین زہر کو کیمیائی ہتھیاروں کی
فہرست میں شامل کیا گیا ہے اور کئی مرتبہ اسے دہشت گردانہ حملوں کے لیے بھی
استعمال کیا جا چکا ہے۔
اس زہر کے ذریعے قتل کیے جانے کا عالمی سطح پر مشہور واقعہ بلغاریہ کے ایک
مشہور باغی مصنف گیورگی مارکوف کی ہلاکت تھی۔ انہیں لندن کے واٹرلُو پُل پر
قتل کیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر ان کے قریب سے گزرنے والے ایک شخص نے اپنی
چھتری کی زہر آلود نوک گیورگی کی ٹانگ سے چُھو دی تھی جس کے باعث ان کے جسم
میں رائسین زہر داخل ہو گیا تھا جو ان کی ہلاکت کا سبب بنا تھا۔
|
|
جرمنی میں ایک منفرد مریض
بیس سالہ جیکب کا جرمن شہر مُنسٹر میں اپنی پیدائش کے بعد سے اب تک علاج
کیا جا رہا ہے۔ اس کی والدہ نے نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو بتایا، ’’جیکب کی
صحت شروع ہی سے خراب رہتی تھی۔‘‘ جیکب کا کئی مرتبہ اس ہسپتال میں آپریشن
بھی کیا جا چکا ہے۔ اسے بخار کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
جیکب کے معالج اور مُنسٹر ہسپتال میں موروثی امراض کے شعبے کے سربراہ
تھورسٹن مارکوارڈٹ کے مطابق، ’’ہمیں سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر اسے بخار
کیوں ہوتا ہے۔‘‘ آخر کار انہیں معلوم پڑا کہ ایک موروثی نقص کے سبب جیکب کے
جسم میں sugar fucose ’شوگر فکوزے‘ نہیں بن رہے تھے۔ اسی وجہ سے جیکب کے
جسم میں رائسین زہر کے خلاف مدافعت پیدا ہوئی۔
|
|
رائسین زہر جسم میں داخل ہونے کے بعد شوگر مالیکیول کے ساتھ جُڑ جاتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر یہ زہر خلیات کے باہر ہی رہے تو یہ اثر نہیں کرتا۔
جیکب کی اس بیماری کے بارے میں علم ہونے کے بعد ویانا سے تعلق رکھنے والے
محققین نے اس کی جلد کے نمونے حاصل کیے تو انہیں معلوم ہوا کہ جیکب کے
خلیات میں fucose موجود نہیں ہے۔ ویانے کے اسٹیٹیوٹ فار مالیکیولر بائیو
ٹیکنالوجی سے وابستہ محقق یوہانس شٹڈمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کے اس کے بعد
انہوں نے چوہوں پر بھی کامیاب تجربہ کیا۔ ریسرچرز کو امید ہے کہ وہ اب جلد
ہی رائیسن کا تریاق تیار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ |
Partner Content: DW
|