پنجاب کے شہر قصور میں کمسن بچی کےساتھ زیادتی کے بعد
لرزہ خیز قتل کے واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ زینب پانچ روز
قبل سپارہ پڑھنے گھر سے نکلی تھی کہ لاپتہ ہوگئی‘پھر گزشتہ رات بچی کی لاش
کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔ لاش ملنے کےساتھ ہی لوگوں میں شدید غم وغصہ پھیل
گیااور لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے ملزم کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کردیا۔
سوشل میڈیا پر بچی کے اغوا اور قتل کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا
ہے اور”زینب کیلئے انصاف“کے نام سے ہیش ٹیگ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کررہا ہے جس
میں درندہ صفت قاتل کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔یاد
رہے کہ ننھی زینب کے والدین کچھ روز قبل ہی عمرے کی ادائیگی کیلئے سعودی
عرب گئے تھے ۔
اسی طرح سے گزشتہ دنوں فیس بک پر ایک بچی کو جنسی طور پر ہراساں کئے جانے
کے عمل کی ایک وڈیو شیئر کی گئی جو کافی دنوں تک منفی اور مثبت دونوں انداز
میں موضوع بحث رہی۔ایک نجی چینل کی جانب شروع کئے جانے والے ڈرامے سیریل
میں بھی اسی موضوع کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے جس میں ایک لڑکی کو اپنے
گھر میں ہی رہنے والے ایک رشتے دار کی جانب سے مسائل درپیش ہیں۔
چھوٹے بچوں کےساتھ جنسی زیادتی ایک ایسا حساس موضوع ہے جس پر عام طور پر
لوگ بات نہیں کرنا چاہتے۔بچے اُس پھول کی طرح ہوتے ہیں جنہیں اگر مسل دیا
جائے تو وہ زندگی بھر اپنے خول میں بند ہو کر رہ جاتے ہیں لیکن کیا کیا
جائے کہ یہ سلسلہ جانے کب سے جاری ہے اور نجانے کب تک جاری رہے گا۔جب کوئی
واقعہ سامنے آتا ہے تو لوگوں کی طرف سے تنقید کی جاتی ہے ‘پھر طویل خاموشی
۔ ایسے واقعات رپورٹ بھی بہت کم کئے جاتے ہیں کیونکہ والدین خصوصا بچیوں کے
والدین بدنامی کے خوف سے خاموشی کو ہی بہتر سمجھتے ہیں جس کے نتیجے میں
مجرم دندناتے ہوئے دیگر بچوں کی زندگیوں کو داغدار کرتا چلا جاتا ہے۔
سینیٹ نے تعزیرات پاکستان اور ضابطہ فوجداری میں ترامیم کا بل بھی منظور
کیا جس کے مطابق بچوں کے ساتھ جنسی عمل‘ ان کا استحصال‘ بچوں کے فحش مواد
کی تیاری و اشاعت اور بچوں کی اندرون ملک تجارت کو قابل سزا جرم قرار
دیاگیا ہے‘جس کے مطابق ایسے مجرمان کو سات سال قید کی سزا دی جا سکے گی
لیکن یہ ساری باتیں صرف ایوانوں تک ہی محدود ہیں!
پاکستان میں روزانہ بچوں سے بدفعلی کے اندازاََ 11 واقعات رپورٹ کئے جاتے
ہیں ‘اس تعداد میں ہر گزرتے سال اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایک رپورٹ کے
مطابق زیادتی کا شکار ہونے والے 97 فیصد بچے ایک بار جنسی درندگی کا شکار
ہوتے ہیں جبکہ 3فیصد بچے ایسے بھی ہیں جو ایک سے زائد بار حیوانوں کے ہاتھ
چڑھ جاتے ہیں ۔
اس حوالے سے پنجاب پہلے اور صوبہ سندھ دوسرے نمبر پر ہے۔ بچے چونکہ آسان
ہدف ہوتے ہیں اس لئے یہ جنسی بھیڑیئے انہیں اپنا نشانہ بنالیتے ہیں ۔
موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں اپنے بچوں کا ازحد خیال رکھنے کی ضرورت
ہے کیوں کہ اس اعتبار سے ہم ایک مہذب معاشرے کا نہیں بلکہ اس جنگل کا حصہ
ہیں جہاں کسی کا کوئی بھروسا نہیں۔
میں نے اپنے بیٹے کو تین سال کی عمر سے ہی یہ بتانا شروع کردیا تھاکہ کسی
کی گود میں نہیں بیٹھنا‘ کوئی چہرے پر پیار نہ کرے اور اگر کرے تو سخت
ناگواری کا اظہار کرنا ‘ کسی کو اپنے جسم کو ہاتھ مت لگانے دینا اور اگر
کوئی ایسا کرے تو مجھے یا اپنے بابا کو آکر فورا © بتانا ۔ایسا کرنے کے بعد
مجھے ایک عجیب سا اطمینان محسوس ہوا‘اتنا ہی نہیں بلکہ میںآئے دن اسے یہ
سبق یاد دلاتی رہتی ہوں۔
ہم ایک ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں مشترکہ خاندانی نظام بھی ہے اور جہاں
ایسا نہیں ہے وہاں بھی لوگ اپنے رشتے داروں سے گھلے ملے نظر آتے ہیں۔ایسے
خاندانوں میں یہ بات بالکل معیوب نہیں سمجھی جاتی کہ چھوٹی بچیاںاور بچے
سگے چچا‘ تایا‘ ماموﺅں کےساتھ ساتھ رشتے کے تایا اورماموﺅں کے علاوہ بڑی
عمر کے رشتے کے بھائیوں اورپرانے پڑوسیوں کی گودمیں کھیلیں جبکہ ایک سرو ے
کے مطابق بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا عمل 90فیصد قریبی رشتہ داروں
کی جانب سے ہوتا ہے۔ جب والدین کو اعتراض نہیں ہوتا تو پھر بچے اس حوالے سے
کچھ بھی کیسے سوچ سکتے ہیں‘ لہٰذا سب سے پہلے تو اپنی اس سوچ کو بدلنا ہوگا
اس کے بعد اپنے بچوں کو اس ضمن میں خصوصی ہدایات کرنی ہوں گی ۔
بحیثیت والدین ہمیں اپنے بچوں کی خواہ وہ بیٹی ہو یا بیٹا سختی سے تربیت
کرنی ہوگی کیونکہ بچوں کی حفاظت ماں باپ سے بہتر کوئی نہیں کر سکتااور یہ
ان کا فرض بھی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو قرآن پڑھانے والے مولوی‘ ٹیوشن کے
ٹیچرز‘ گھریلو ملازمین اور ڈرائیوروں کے حوالے کر کے جیسے اپنے ہر فرض سے
بری الذمہ ہو جاتے ہیں جبکہ ہمارے بچوں کو ایسے تمام لوگوں سے خطرہ ہے جن
کا ہمارے بچوں سے خون کا کوئی رشتہ نہیں ہے بلکہ بسا اوقات تو خون کے رشتے
بھی انتہائی گراوٹ کا ثبوت دے جاتے ہیں ۔
یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی استحصال کے جتنے واقعات بھی اب
تک سامنے آئے ان میں کوئی انتہائی قریبی رشتہ دار یا جاننے والا ہی ملوث
نکلا ہے‘ یعنی بچے ان کو کسی نہ کسی طرح سے پہچانتے تھے۔ اس لئے اگر آپ
اپنے بچوں کو اپنی حفاظت کی تربیت دے رہے ہیں تو اس میں کسی کے برا منانے
کو خاطر میں لانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے لئے ہماری اولاد زیادہ اہم
ہے کسی کی خوشی اور ناراضگی نہیں ۔اسلئے آنکھیں کھولئے اور اپنے بچوں کا
خیال رکھئے۔
ہمارا دین ہمیں بچوں کو ان حوالوں سے آگاہی فراہم کرنے کی بابت درس دیتا ہے
۔اگر دس سالہ بچے کو قرآن ترجمے اور تفسیر کےساتھ پڑھایا جائے اور جو
مسلمان گھرانوں میں پڑھایا جانا چاہئے تو اس میں جنسی تعلیم سے متعلق بہت
سی چیزیں از خود آ جاتی ہیں مگر عام طور سے مسلم معاشرے اور مملکت اغیار
میں مقیم مسلمان تک اپنے بچوں کو یہ تعلیم اور تربیت دینے کی ضرورت سرے سے
محسوس ہی نہیں کرتے۔واضح رہے کہ جنسی تعلیم سے مراد عمر کےساتھ ساتھ بچوں
میں رونما ہونے والی جسمانی اور ذہنی تبدیلیوں سے متعلق بچوں کو آگاہ کرنا
اور ان نئے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے دینی اور سائنسی معلومات فراہم
کرنا ہے۔ والدین کیلئے یہ تربیت جب ہی ممکن ہے جب وہ اس کی ضرورت محسوس
کریں اور انہیں خود ان مسائل سے آگاہی ہو۔ان موضوعات میں سب سے اہم بچوں کو
ان کے جسم کے خاص حصوں کا شعور دینا کہ انہیں کوئی دوسرا ہاتھ نہیں لگا
سکتا‘ چھونے کے اچھے اور برے احساس کی آگاہی دینا اورکسی دست درازی کی صورت
میں بچے کو اس سے نمٹنے کے طریقے بتانا شامل ہے ۔ ہمیں اپنی اولاد کےساتھ
ایک دوست کی مانند اس طرح قریب رہنا چاہئے کہ وہ ہم سے اپنی ہر بات کہہ
سکیں۔
ہو سکتا ہے بعض والدین انہیں نامناسب یا غیر ضروری تصور کریں مگر یہ یاد
رکھیں کہ آج کے انٹرنیٹ کے دور میں اگر آپ کا بچہ فلموں‘ پاپ کلچراور
لٹریچر سے بچا ہوا بھی ہے تو اسے یہ سب کسی دوسرے ذریعہ سے ضرور معلوم ہوگا
تو کیا زیادہ مناسب یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے بچے کی خود رہنمائی کردیں۔ اس
بات سے نہ صرف آپ کا بچہ آپ پر اعتماد کرے گا بلکہ اس میں کسی ناگوار
صورتحال سے نمٹنے کا شعور بھی پیدا ہوگا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ دینی طبقات سنجیدگی سے ان موضوعات کو درس کا حصہ بنا
کر بچوں والی خواتین کو اس کا شعور دیں کہ ان ہی ماو ¿ں کو اپنے بچوں کی
اصل رہنمائی کرنا ہے۔گو کہ آج ٹی وی چینلوں‘ ٹاک شوز اور ڈراموں کے ذریعے
اس موضوع پر کھلم کھلا بات ہو رہی ہے لیکن اسے مذہبی طبقات کی جانب سے
تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
بچوں کےساتھ بدفعلی اور ان کی معصومیت کو داغدار کرنے جیسے قبیح فعل کو
روکنا شاید ہمارے بس میں نہیں ہے لیکن اپنے بچوں کو ایسے درندوں سے بچانا
والدین کی ذمہ داری ہے جس کی ادائیگی کیلئے انہیں جس حد تک بھی جانا پڑے
جانا چاہئے۔
گندی نگاہوں اور غلیظ لوگوں کے سائے پھولوں جیسے معصوم بچوں کو کمھلا کر
رکھ دیتے ہیں ‘ یہ ہمارے وجود کا حصہ ہیں ‘ ان کی معصومیت کو برقرار رہنا
چاہئے خواہ اس کیلئے ہمیں اپنی گوناںگو مصروفیات کو نظرانداز ہی کیوں نہ
کرنا پڑے ۔زینب کے والدین عمرے کی ادائیگی کیلئے گئے لیکن انہیں اپنی بیٹی
کو کسی کے حوالے کرکے نہیں جانا چاہئے تھا‘ بچوں کی جو حفاظت والدین خود
کرسکتے ہیں وہ کوئی اور نہیں کرسکتا۔بچی کی کسی مرد کے ساتھ جاتے ہوئے ایک
تصویر بھی میڈیا پر عام ہوئی ہے جس میں اس شخص کا چہرہ صاف نظر آرہا ہے ۔
بچی کا اس شخص کے جانے کا انداز یہ بتارہا ہے کہ وہ کوئی شناسا ہے لہٰذااس
کے رشتہ دار ضرور اسے پہچانتے ہوں گے۔ ایسی قبیح فعل انجام دینے والے شخص
کو لمحہ ضائع کئے بغیر گرفتار کرکے سرعام پھانسی پر لٹکا دینا بھی اس کیلئے
نرم سزا ہے۔ |