پاکستان میں حالیہ دنوں میں ہونے والے معصوم اور ننھے
بچوں کیساتھ جنسی ذیادتی کے دلدوز واقعات اورانہیں جان سے ماردینے کی
وارداتوں نے ہمارے پورے معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا ہے شاید ہی کوئی ایسا
کٹھور یا پھر بے حس انسان ہو جو ان واقعات پر افسوس ذدہ نہ ہو یا پھر وہ
اشکبا ر نہ ہوا ہو۔ ہمارے معاشرے کی ہر وہ بچی جو معصوم ہے اور غیر محفوظ
ہے وہ زینب ہی تو ہے۔ نہ جانے کونسا درندہ صفت شیطان کب اور کہاں سے آ نکلے
اور اس زینب کو اسکول جاتے، گلی میں کھیلتے یا پھر اکیلے میں بازار جاتے
ہوئے ٹافی، بسکٹ اور کھلونے کا چکمہ دیکر اغوا کرکے لے جائے اور اسے اپنی
ہوسناک درندگی کا نشانہ بنا کر اسکی زندگی برباد کردے۔ ہمیں یہاں افسوس سے
کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں جنسی بے راہ روی صرف عام جاہل انسانوں تک
محدود نہیں ہے بلکہ یہ پڑھے لکھے طبقے، اساتذہ، مدرسے کے معلموں ، ملاؤں کے
حجروں مساجد اور کام کرنے والی جگہوں پر بھی سرایت کر چکی ہے جو ہمارے
معاشرے کا انتہائی بھیانک روپ ہے۔ ہمارے تحقیقاتی ادارے کہتے ہیں کہ
پاکستان میں روزانہ ۱۱ ایسے کیس ہوتے ہیں جو تھانوں میں رپورٹ کرائے جاتے
ہیں ورنہ ہر روز ایسے سینکڑوں کیس ہیں جو بدنامی کے خوف سے رپورٹ ہی نہیں
کرائے جاتے جو ہمارے معاشرے کا انتہائی خوفناک پہلو ہے ہمیں اس سے جان چھڑا
کر ملزمان کو معاشرے کے سامنے لانا ہوگا۔ بچوں کیساتھ جنسی زیادتی، گینگ
ریپ اور انہیں جان سے مار دینا اور اغوا کرکے ان پر تشدد کرنا معمول کے
واقعات ہیں مگر تا حال ہماری بے حس حکومت خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے
ہوئے بے غیرتیکی چادر تان کر سو رہی ہے۔ہمارے قانون نافذ کرنے اور انصاف
فراہم کرنے والے ادارے بھی بے حس ہو چکے ہیں جو آنے والے وقتوں میں ہمارے
لئے الارمنگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آئیں دیکھیں کہ معصوم اور ننھے بچوں اور
بچیوں کیساتھ جنسی تشدد کے واقعات کے پیچھے وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ
سے یہ واقعات ہوتے ہیں۔ غربت، بچوں پر بے توجہی، انکی نگہداشت، گھروں میں
اکیلا چھوڑ کرچلے جانا، اسکولوں میں بچوں کے بارے میں پوچھ گچھ نہ کرنا،
بچوں کو مارکیٹ میں اکیلا بھیجدینا، رکشے اور ویگنوں میں بچوں کو اکیلے
بھیجنا۔ اسمیں جہاں اور عوامل ہیں وہیں ہم والدین کی زمہ داری او ر کوتاہی
کو سر فہرست رکھتے ہیں۔ہم قانون نافذ کرنے والے بے حس ادارے اور پارلیمینٹ
میں بیٹھے ہوئے پارلیمینٹرین کو بھی سب سے بڑا ذمہ دارے ٹھہراتے ہیں جو ان
معاشرتی مسائل سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رکھتے اور بے حس بن کر میڈیا پر اپنے
بھونڈے بیانات سے عوام کو لولی پاپ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ہمارے قانون
نافذ کرنے والے ادارے جو ان واقعات کو روکنے میں نہ صرف ناکام ہوچکے ہیں
بلکہ انہیں ان مسائل کا ادراک ہی نہیں کیونکہ یہ ادارے کرپشن کی آماجگاہ
ہیں اور انہیں نہ تو ایسی تربیت ہی دی جاتی ہے اور نہ ہی انمیں اتنی اہلیت
ہوتی ہے کیونکہ یہ لوگ قابلیت کی بجائے سفارش اور رشوت سے تعینات کئے جاتے
ہیں ۔بچوں کے ساتھ جنسی اور حیوانی افعال ان معاشروں میں ہوتے ہیں جہاں
تعلیم کا فقدا ن ہو اور معاشرے صحت مند رجحان نہ رکھتے ہوں اور غربت کا
شکار ہوں۔ والدین کی محبت سے نا آشنا ہوں، اور والدین کی محبت کیلئے ترستے
ہوں یا وہ بچے جنکے والدین اپنے بچوں کو دوسروں کے سہارے چھوڑ کر چلے جاتے
ہیں ایسے بچوں کو معاشرے کے لچے، لفنگے اور بدمعاش لوگ انتہائی آسانی سے
اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں۔ گھریلو جھگڑے ، مار پیٹ گالم گلوچ، بچوں کی
چھوٹی چھوٹی خواہشیں، نئے کپڑے، کھلونے (لنڈے میں کھلونے بطور امداد یورپین
ممالک سے آتے ہیں مگر ان پر اتنے بھاری ٹیکس عائد کر دیئے گئے ہیں کہ یہ
بھی غریب کی پہنچ سے باہر ہیں ۔ جو حکومت کی بے حسی ہے اور غریبوں کیساتھ
ایک بہت بڑا کھلواڑ ہے ) ، کھانے پینے کی اشیاء، تعلیم، نگرانی میں کمی،
صحیح طریقے سے دیکھ بھال، بیماریاں، جاہلانہ معاشرہ والدین کا بچوں سے سخت
رویہ، بچوں کے معاملات میں انکی مدد نہ کرنا انہیں نظر انداز کرنا، بچوں کو
صحتمند سرگرمیاں مہیا نہ کرنا، کسی بھی بچے کا کسی بالغ کیساتھ جنسی میلان
اور رجحان ، معصوم بچوں کو پورن فلمیں دکھانا، برہنہ اور غیر اخلاقی تصاویر
دکھانا، جو سوشل میڈیا کے علاوہ مارکیٹ میں بھی ویڈیو کی دوکانوں پر دستیاب
ہیں۔ بچوں کی برہنہ فلمیں بنا کر انہیں بلیک میل کرنا، انہیں حراساں کرنا
اور انکا جنسی استحصال کرنا یہ سب ایسی چیزیں ہیں جو بچوں کو خوفزدہ کرتی
رہتی ہیں اور وہ اپنے ساتھ ہونے والے اس جنسی استحصال کو بتانے سے شرماتے
ہیں یا پھر انتہائی خوفزدہ ہوتے ہیں۔ اغلام بازی، بچوں پر ٹھرک جھاڑنا،غیر
لوگوں کا انہیں پیار کرنا، انکے گالوں پر پیار کرنا، ٹانگوں کیساتھ ٹانگیں
سہلانا، انکی رانوں کے بیچ ہاتھ پھیرنا، انکے جسم کے مخصوص اعضاء کو چھونا،
اشاروں کنایوں میں بچوں کو جنس کی طرف راغب کرنا، ٹیلی فون یا موبائل پر
فحش گفتگو کرنا، بچوں کو گندے لطیفے سنانایا پھر ایس ایم ایس کے ذریعے
برہنہ تصاویر بھیجنا، اخلاق بافتہ اور فحش گفگتو کرنا ایسے عوامل ہیں جن سے
کسی بھی شخص کی جنسی بدسلوکی اور نا جائز فعل کی بو آتی ہو یہ سب جنسی زمرے
میں آ ٓتے ہیں۔ایسے میں بچوں کو فوری طور پر اپنے والدین سے رجوع کرنا
انتہائی ضروری ہے۔
جہاں تک حکومت کا تعلق ہے تو ہمارے ایک مسلم لیگ (ن) کے ایم پی اے نے
قصورپورنو گرافی کے تمام ملزمان کی پشت پناہی کی مگر طاقتور ہونے کے ناطے
تا حال وہ کھلے عام پھر رہا ہے اور قصور کے لوگ اتنے بے حس ہیں جو تا حال
اس ایم پی اے کے بارے میں کچھ بھی نہ کر پائے ہیں ۔ تین سال قبل اس واقعے
کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن تشکیل دیا گیا اس میں کمیشن ممبر ڈاکٹر نعیم
ظفر ( صدر پہچان فاؤنڈیشن) نے تجویز پیش کی کہ ایک کمیشن بنائیں جسمیس ان
واقعات کی آزاد تحقیق ہو اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں جس کو
ہمارے صوبائی وزیر قانون نے صرف بدنام ہو جانے کے خوف سے مسترد کردیا جو
رانا ثناء اﷲ کی بد نیتی پر منحصر ہے ۔اور یہ اس بات کا غماز ہے کہ موجودہ
حکومت اس بارے میں انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویہ رکھتی ہے ۔ قصور میں ایک
سال میں بارہ بچوں کے ساتھ ذیادتی اور قتل، مدرسوں میں جنسی ذیادتی کا شکا
ر بچے کھیتوں نالوں اور کوڑے کے ڈھیر سے ملنے والی لاشیں، سڑک پر رکشہ
ڈرائیور کی گود میں بیٹھ کر اسکول جانے والے معصوم بچے، ویگن میں ہراساں
بیٹھی ہوئی بچیاں ، رشتوں کے ہاتھوں پامال بچے۔ ہم انسیسٹ ریپ کی بات کو
حرام سمجھتے ہیں، مولوی صاحب کا شکار بچے، گھریلو ملازمین کے ساتھ چھیڑخانی
سہتے اور ڈرے ہوئے بچے اور مال مفت نما کمسن گھریلو ملازمین یہ سب ہماری
اجتماعی بے حسی کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔ یہ کوڑے پر موجود لاش میری ،آپ کی اور
حکمرانوں کی ہے ۔ ایسے میں ہمیں چاہئے کہ ہم ایسے لوگوں کا انتخاب عمل میں
لائیں جو ملک اور قوم سے مخلص ہوں بد دیانت نہ ہوں اور زہنی طور پر کرپٹ نہ
ہوں تاکہ ہمارا معاشرہ اسطرح کے قبیح جرائم سے پاک ہو سکے۔ معاشرہ کسی ایک
شخص کا نام نہیں ہے اسمیں زندگی کے تمام مکتبہ فکر اور سماج سے تعلق رکھنے
والے ہر اس شخص کا حصہ ہوتا ہے جو اسمیں رہتا ہے اور معاشرے کو مثالی بنانے
کیلئے ہمیں اپنا اپنا کردا ادا کرنا ہوگا۔ہمیں اپنے بچوں کے اچھے مستقبل
کیلئے ایسے تمام بے حس لوگوں سے جان چھڑانی ہے جو ہمارے معاشرے میں رہنے
والے بچوں کیلئے ا حساس نہیں رکھتے۔
آئیں تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہوئے ہم زینب کے والد کے کردار کا جایزہ
لیتے ہوئے اس بات کا تعین کریں کہ کیا زینب کیلئے اٹھائی جانے والی ہر آواز
کسی بھیڑئے کی تھی یا انسان کی تو ہم دیکھتے ہیں کہ زینب کیلئے ہر مکتبہ
فکر او ر عقیدے کے انسانوں نے بلا تفریق مذہب، فرقہ یا پھر غریب اور امیر
کے آواز اٹھائی۔ ہمیں زینب کے والد جو کہ ایک شقی القلب شخص ہیں اور
انسانیت پر یقین، اعتماد یا پھر بھروسہ نہیں رکھتے بلکہ وہ ایک مذہب اور
فرقہ کی بنیا پر انصاف کے متلاشی ہیں۔ انہوں نے انسانیت کی تذلیل کے سوا
ارور کچھ نہیں کیااور ہمارے معاشرے میں بسنے والے وہ تمام انسان جو ہندو،
سکھ، عیسائی، یہودی، پارسی یاپھر احمدی ہیں انکی انسانیت پر شک کیاجو نہ
صرف اخلاقی گراوٹ ہے بلکہ معاشرے میں منافرت کو ہوا دی ۔ ہمیں یہ بات یاد
رکھنی چاہئے کہ ہمارے سماجی، مذہبی اور معاشرتی اختلافات کسی کیساتھ خواہ
کیسے ہی کیوں نہ ہوں یہ اختلافات کبھی بھی تعصبات کی شکل اختیار نہپیں کرنے
چاہئیں کہ تشدد کا راستہ تعصب کی گلی سے ہو کر جاتا ہے۔ ہمارا زینب کے
والدسے سوال کہ کیا جس انسان نے زینب کیساتھ یہ قبیح فعل سر انجام دیا وہ
انسان ہونے کی ساتھ ساتھ کسی غیر مذہب یا پھر غیر فرقے سے تعلق رکھتا ہے؟
زینب کے حق میں تمام انسانیت جسمیں مختلف تنطیمیں ہر مکتبہ فکر کے انسانوں
نے شرکت کی وہ انسانیت کی معراج سے گرے ہوئے تھے؟ وہ اپنے تمام مذہبی اور
فقہی اختلافات بھلا کر ایک ظلم، درندگی، تشدد اور انسانیت سوز فعل کے خلاف
یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ نہیں کر رہے تھے ؟ جب یہ لوگ
زینب کیلئے انصاف طلب کرنے کیلئے اپنے اپنے گھروں سے باہر نکلے اور انہوں
نے اپنے سینوں پر گولیاں کھایں اور پیٹھوں پر لاٹھیاں کھائیں تو انہوں نے
سڑکوں پر آنے سے پہلے کسی نے زینب یا پھر اس کے والد کے عقید ے کے بارے میں
استفسار کیا تھا ؟ زینب کو کسی سکھ، ہندو، عیسائی ، پارسی یا پھر احمدی یا
کسی مسلمان کی بیٹی کے روپ میں نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ وہ اس وقت سب کی
بیٹی تھی اور زینب کو اپنی بیٹی کے روپ میں ہی دیکھ رہے تھے۔ اگر ہم دیکھیں
تو یہ تمام تر ذمہداری زینب کے والدین کی ہی بنتی تھی کہ وہ عمرے کی
ادائیگی پر جاتے ہوئے اپنی بیٹی کو کسی زمہ دار کے حوالے کرکے جاتے او ر ہم
اسکی تمام تر ذمہ داری زینب کے والدین پر بھی عائد کرتے ہیں جن کی بے توجہی
کیوجہ سے اتنا بڑا حادثہ رونما ہوا اور انہیں بھی تفشیشی عمل کا حصہ بنایا
ئے کہ یہ عقل اور قانون کا تقاضا ہے ۔ زینب کیلئے ہر آنکھ اشکبار کسی فرقے
یا عقیدے کی بنا پر نہیں تھی بلکہ انسانیت کے نام پر اس درنددہ صفت شخص جس
نے زینب کی عزت کو پامال کیا اور ابدی نیند سلا دیا کو گرفتار کرکے کیفر
کردار تک پہنچانے کیلئے تھی۔
زینب کے والا کے اس روئے پر انتہائی افسوس رہیگا کہ انہوں نے اس حادثے پر
بننے والے جے آئی ٹی کے سربراہ کے بارے میں یہ کہہ کر کہ وہ احمدی ہے اپنی
بد اعتماد ی کا اظہار کیا اور اس جے آئی ٹی میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔
آپکو سپریم کورٹ کے اس جج کے نام اور پاکستانی تاریخ ساز فیصلو ں کے بارے
میں علم تو ہوگا جنکا نام جسٹس رانا بھگوان داس تھا انہوں نے پاکستان کی
تاریخ میں ایسے مثالی فیصلے کیے جو ہماری آنے والی نسلیں بھی یاد رکھینگی
اور انکا نام ہماری تاریخ میں ایک روشن با ب کی حیثیت سے لکھا جائیگا۔
ہماری تاریخ سپریم کورٹ کے اس جج کے بارے میں بھی گواہ ہوگی جسکا نام جسٹس
سید نسیم حسن شاہ تھا جس نے زیڈ اے بھٹو کو پھانسی دی تھی اور بعد میں اسے
عدالتی قتل قراردیتے ہوئے قوم سے یہ کہہ کر معافی مانگی تھی کہ بھٹو کو غلط
پھانسی دی گئی تھی۔
ہمیں چاہئے کہ ظلم کے خلاف ہر سطح پر جہاں بھی ہوں جس معاشرے میں بھی ہوں
آواز بلند کرنی چاہئے کہ یہ ہم سب کا اجتماعی مسلۂ ہے۔ درندہ صفت جنسی
بھیڑئے جو معصوموں کے ارمانوں کے قاتل ہیں ہمیں انکے ساتھ مقابلے کیلئے
جہاں علم و آگہی کی ضرورت ہے وہیں انسانیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑتے ہوئے
انصاف دلوانے کیلئے یہ بہت ضروری ہے کہ سماج کی وسیع تر اصلاح کیلئے ایسے
منصوبوں پر کام شروع کیا جائے جس سے انصاف کی راہیں کشادہ ہوں۔ |