زینب ہم شرمندہ ہیں

اب تو عادت سی ہو گئی ہے اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھانے کی روز ٹی وی اور اخبارات میں خبریں آتیں ہیں فلاع جگہ اتنے شہید ہو گے فلاع جگہ اتنے زخمی۔ اب تو آنکھوں میں آنسو بھی خشک ہو گئے ہیں۔ دل سیاہ ہو چکے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آ رہا ایسا ہمارے ساتھ ہی کیوں؟ یہاں مارنے والا بھی مسلمان ہے اور مرنے والا بھی مسلمان ہے۔ یہاں دن دیہاڑے حوا کی بیٹی کو اٹھاکے اپنی حوس کا نشانہ بنا کر کوڑے پہ پھینک دیا جاتا ہے۔ کچھ دن شور ہوتا ہے پھرنئے واقعے اور خبر کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔

دل مردہ ہو جانے کے باوجود آنکھوں میں آنسو ختم ہو جانے کے بعد بھی دو واقعات نے ہر آنکھ کو نم بر دیا ہے۔ ہر دل لرز اٹھا ہے ہر ماں چیخ اٹھی ہے ہر باپ رو پڑاہے۔ پہلا واقعہ ۶۱ دسمبر ۴۱۰۲ کو آدمی پبلک سکول پشاور میں ہوا۔ جس نے ہر کسی کو متحد کر دیا اور دوسرا واقعہ ۰۱ جنوری ۸۱۰۲ کو قصورمیں پیش آیا۔ جس نے پورے ملک کی سوچ کو بدل دیا۔ جس نے ہر ماں باپ کو محتاط کر دیا۔ ما ئیں اپنے بچوں کو سکول بھیجنے سے ڈرنے لگی ہیں۔باپ اپنے بچوں کے ساتھ رہتا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں اس کے بچے غائب نہ ہو جائیں۔ میں جب بھی زینب کی تصویر دیکھتا ہوں تو آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور ساتھ ہی ہونٹوں پہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ آ جاتی ہے کہ وہ جنت میں کھیل رہی ہو گی۔ اس پر ی کا حوروں نے کیسے استقبال کیا ہو گا۔ لیکن جب میں زینب کے والد اور والدہ کو تصور میں لاتا ہوں اور میڈیا پہ امین صاحب کو دیکھتا ہوں دل لرز جاتا ہے کہ ان پر اس وقت کیا قیامت ہو گی۔ امین صاحب جب عمرہ پہ جارہے ہو گے تو زینب نے اپنے بابا سے کیا کیا لانے کو کہا ہو گا کہ بابا میرے لیے یہ چیز لانا وہ چیز لانا گٹریا بھی لا آنا۔اور وہاں زینب کے بابا کیا کیا اپنی زینب کے لئے خرید چکے ہوگے؟

ویسے بابا اور بیٹی میں ایک چیز مشترک ہوتی ہے۔ بیٹی کو اپنی گڑیا بہت پسند ہوتی اور بابا کو اپنی گڑیا بہت پسند ہوتی ہے۔ اور مکہ اور مدینہ سے زینب کیلئے اور کیا کچھ خریدا ہو گا اور کتنی دعائیں کی ہو گی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی معصوم کلی ان کے آ نے سے پہلے مرجھا جائے گی۔ جاتے ہوئے جس زینب نے الوداع کیا تھا اب وہ زینب انہیں ائرپورٹ سے کبھی لینے نہیں آئے گی۔ اور جو چیزیں انہوں نے اپنی زینب کے لیے خریدیں ہیں اب ان کی ننھی زینب ان کے لیے چیزوں سے کبھی نہیں کھیلے گی۔ اب جب بھی امین صاحب باہر جائیں گے تو زینب انہیں کبھی فرمائش نہیں کریگی۔ لیکن امین صاحب کیلئے یہ کوشی کی بات ہے کہ جو زینب ائر پورٹ پر باپ کا استقبال نہ کر سکی وہ جنت میں امین صاحب کا استقبال کرے گی اور یہ بہت بڑا استقبال ہو گا۔ میں امین صاحب اور ان کی اہلیہ کے کون کون سے غم کو لکھوں۔ میرا دل دہل جاتا ہے جب میں یہ سب سوچتا ہوں۔ لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہماری حکومت ابھی بھی کچھ نہی کر پائی۔ ہم کس کس ناکامی کا رونا روئیں یہاں تو سب کچھ بگڑا پڑا ہے۔ ملک تو بس اﷲ کے رحم و کرم پہ چل رہا ہے ورنہ ہمارے اعمال جو ہیں وہ سب کو پتا ہیں۔ مجھے لگتا ہے ہمیں اجتماعی توبہ کی ضرورت ہے اس کے علاوہ ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے۔
زینب ہم شرمندہ ہیں
تیرے قاتل ابھی زندہ ہیں

اس طرح کے تمام واقعات کے خلاف سب کو آواز بلند کرنی چاہئے یہ ہماری اخلاقی ذمہ داری بھی ہے اور دینی تعلیمات بھی ۔اس طرح کے واقعات میں ملوث افراد کو سزا نہ دینا بچوں کو درندوں کے سپرد کرنا ہے۔ یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے-

Ali Raza
About the Author: Ali Raza Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.