قصور میں سات سالہ زینب بی بی کو زیادتی کے بعد
بیہمانہ طریقے سے قتل کیے جانے کو اگر چہ کافی دن گزرچکے ہیں، لیکن عوام کے
ذہنوں میں اس ظالمانہ واقعے کے اثرات تادیرموجود رہیں گے۔ ظلم کے آخری حدوں
کو چھوتی اس ظالمانہ واقعے پر پورے ملک میں احتجاج ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ
میڈیا نے بھی اس ظلم کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی ہے۔ پرنٹ میڈیا کی اگر بات
کی جائے تو ہزاروں کالم یقینا اب تک لکھے جا چکے ہوں گے۔ظلم کے خلاف اس قسم
کی آوازیں اٹھنا اگرچہ خوش آئند ہے لیکن نا جانے کیوں ملک کے نامور صحافی و
کالم نگار وہ پہلو اور وجوہات عوام الناس کے سامنے لانے سے گریزاں ہے، جس
کی وجہ سے آئے روز بچوں پر جنسی تشدد اور بعد از تشدد ان معصوم کلیوں کے
قتل جیسے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہاں پر معزز قارئین کو یہ بتانا
ضروری ہے کے کہ قصور کا حالیہ واقعہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے
بھی وطن عزیز میں ’’نا معلوم‘‘ ملزمان اس قسم کی کئی واردتیں کرچکے
ہیں۔قصور ہی میں 300کے قریب بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ایک سکینڈل چند
سال پہلے منظر عام پر آچکا ہے۔ اس مذموم واقعے میں بچوں کے والدین کو بلیک
میل کرکے ملزمان نے خوب مال بنایا۔ قصور کے تھانہ صدر کے حدود میں زینب کے
ساتھ جنسی سرکشی کا یہ بارھواں واقعہ تھا۔ ان بارہ واقعات میں سے صرف
کائنات نامی بچی زندہ بچ گئی ہے جبکہ گیارہ بچے بے دردی سے مار دئیے گئے
ہیں۔تعجب کی بات یہ ہے کہ تمام واقعات کی FIRدرجہونے کے باوجود ملزم ایک
بھی گرفتار نہ ہوسکا۔ قصور کے علاوہ اسی ماہ جنوری میں شیخوپورہ کے محلہ
گرونانک پورہ سے ملیحہ شرافت لاپتہ ہوئی اور چھ دن کے بعد اس کی لاش
ملی۔فیصل آباد میں ایک شخص نے میٹرک کے طالب علم فیضان کو ہوس کا نشانہ
بنانے کے بعد قتل کرڈالا اور لاش خالی پلاٹ میں پھینک کر رفو چکر
ہوگیا۔راولپنڈی کے سکستھ روڈ سے چار ملزمان نے نویں جماعت کے طالب علم
ابوبکر کو اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنایا ، ملزمان نے بچے کی ویڈیو بھی
بنائی۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات صرف پنجاب تک محدود نہیں بلکہ ملک کے
دیگر صوبوں میں یہ گھناؤنا فعل جاری ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کے ظفر کالونی کی
پانچ سالہ بچی کا زیادتی کے بعد قتل ہو یا مانسہرہ میں میں کچھ عرصہ پہلے
کالج طالبہ کے ساتھ تین ملزمان کی زیادتی ،یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ
ہم کتنے اخلاقی پستی میں گرتے جارہے ہیں۔ خیبر پختون خواہ میں دیگر صوبوں
کے مقابلے میں یہ بات خوش آئند ہے کہ یہاں بیشتر ملزمان زیادہ عرصے تک
قانون نافذ کرنے والے اداروں سے آنکھ مچولی نہیں کرسکتے۔ لیکن سوال یہ ہے
کہ آخر ہم اتنی اخلاقی پستی کا شکار کیسے ہوئے کہ اب تواتر کے ساتھ ہمارے
معاشرے میں نازک کلیوں کو مسلنے کا ’’رواج‘‘ عام ہوتا جارہاہے۔ اس بات میں
کوئی شک نہیں کہ جنسی بے راہ روئی آج کی دنیا میں عام ہے لیکن آفسوسناک امر
یہ ہے کہ آخر ایک مسلم معاشرہ میں یہ لعنت کیوں تیزی سے پھیل رہی ہے؟ میں
سمجھتا ہوں کہ اس جرم میں ایک عام آدمی سے لیکر اقتدار کے مسند پر براجمان
ہر شخص برابر کا شریک ہے۔ذرا سوچیے کہ جس ملک میں پرویزی دور حکومت میں
’’روشن خیالی‘‘ کا سبق کئی سال تک زور شور سے پڑھایا گیا ہو اور بعد کے
ادوار میں اس پر عمل ہوتا رہاہو،اس ملک میں جنسی سرکشی عام کیوں نہ ہو۔ یہ
بھی سوچئے کہ جس ملک کے باشندے سوشل میڈیا کی بدولت پاس بیٹھے ماں باپ سے
بے خبر جبکہ ہزاروں میل دور ایک ایسے دوست سے باخبر ہو کہ جسے کبھی زندگی
میں باالمشافہ ملاقات تک نہ ہواہو۔ تو اس ملک کے باشندے اخلاقی زوال کا
شکار کیوں نہ ہو۔ اس بات پر بھی ذرا غور کیجیے کہ دنیا کا مقدس ترین کتاب
قرآن مجید جوکہ پوری دنیا کے لیے مشعل راہ ہے اسے صرف رمضان کریم میں چھوا
جائے جبکہ فیس بک میں ہم چوبیس میں سے سولہ گھنٹے منہمک ہو تورشتوں کا
اہمیت ختم کیوں نا ہوجائے۔اگر برا نا لگے تو یہ بھی دیکھیں کہ جس ملک کے
ٹیلی وژن چینلز ہر صبح کا آغاز اسلامی تعلیمات کی پرچار کے بجائے صبح کا
آغاز مارننگ شوز سے کرتے ہو،جس ملک کے اخبارات میں اسلامی تعلیمات کے لیے
صرف ایک صفحہ’’وہ بھی سب اخبارات میں نہیں‘‘ بروز جمعہ المبارک مختص ہو
جبکہ شوبز کی خبریں بلا تعطل روز شائع ہوتی ہوتو اس ملک میں بے حیائی عام
نہ ہو تو اور کیا ہو۔ اور یہ کہ وطن عزیز کے دو سابق فوجی حکمرانوں میں سے
ایک قبر میں بھی نہ بخشے جائے جبکہ دوسرا وطن فروش بن اور اسلامی تعلیمات
کا تمسخر اڑاکر بھی معزز ٹہرے اور پھر بھی ہم یہ امید رکھے کہ ہم زندہ قوم
ہیں ،تو بات عجیب سی لگتی ہے۔اور آخر میں یہ کہ جس ملک کے علماء کرام کو
دیوار سے لگاکر ان کا کردار محدود کرنے کی کوشش عام ہو ، پولیس کا محکمہ
اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں کوتاہی کا مظاہرہ کرتا ہو ، انٹرنیٹ
کااستعمال بنا کسی سنسر شپ کے دھڑادھڑ جاری ہو اور فحش مواد تک رسائی ذرا
بھی مشکل نہ ہو ۔ ایسے میں ہماری بیٹیاں درندوں کا شکار نہ بنے توکیوں نہ
بنے؟
قارئین کرام! اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بیٹیاں درندوں کی حملوں سے محفوظ
رہے تو پھر ہمیں اسلامی تعلیمات کو گلے لگا نا ہوگا، ہمیں ایسے لوگوں کو
منتخب کرنا ہوگا کہ جن کے لیے اسلامی اقدار اجنبی نہ ہو۔ ہمیں عصری علوم کے
ساتھ ساتھ مسجد و مدرسہ سے ساتھ مضبوط رشتہ استوار کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی
لیڈر شپ پر دباؤ بڑھانا ہوگا کہ وہ اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کوششیں تیز
کردیں۔ آج ہر طرف ایک ہی آواز ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون
سازی کی جائے اور یہ کہ جنسی حملوں سے بچاؤ کے لیے نصاب میں اس پر مواد
شامل کیا جائے۔ لیکن آفسوس کہ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ اسلام نے تو کئی صدیاں
قبل اس حوالے سے ہمارے لیے راستوں کا تعین کردیا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ نئی
راہوں کو ڈھونڈنے یا بنانے کے بجائے انہی راستوں پر قوم کو چلایا جائے
شریعت اسلامی نے جن کا تعین ساڑھے چودہ سو برس قبل کردیا ہے کہ اسی میں ہے
کامیابی دونوں جہانوں کی۔ بصورت دیگر داستاں تک نہ ہوگی ہماری داستانوں میں۔
|