اسلام سے قبل جہالت کے دور میں لڑکیوں کو کم تر سمجھا جاتا تھا اور ان کی
پیدا ئش کو رحمت کے بجائے زحمت تصور کیا جاتا تھا اور حد یہ تھی کہ انہیں
پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا پھر جیسے جیسے اسلام پھیلتا گیا
جہالت کے اندھیر دور ہو تے گئے اور اسلام میں عورتوں کو اعلیٰ مقام دیا اس
کی روشنی میں لوگوں کو بتا یا گیا کہ عورت کی عزیت کی جائے چونکہ عورت ماں
ہے ،بہن ہے،بیٹی ہے اور بیوی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ماں کے قدموں تلے
جنت ہے اسلام میں عورت کو جو عزت اور مقام دیا ہے وہ کسی اور مذہب میں نہیں
ہے کسی صحابی نے نبیؐ سے پوچھا کہ مجھ پر سب سے زیادہ عزت کرنے کا حق کس کا
ہے تو نبیؐ نے فرمایا ماں کا اس کے بعد انہوں نے پوچھا پھر کس کا حق ہے تو
نبیؐ سے کہا ماں کا یعنی تین مرتبہ ماں کے عزت و احترام کے حق کے بعد باپ
کا حق بتایا گیا یعنی اسلام میں عورت یا ماں کا رشتہ کتنی اہمیت کا حامل ہے
اور موجودہ دور میں بھی عورتوں اور بچیوں کی عزت و احترام ویسے ہی کر نا
چاہیے جیسا کہ ہمارے نبی ؐ نے فرمایا ہے لیکن دیکھ نے میں یہ آیا ہے کہ کچھ
درند ہ صفت لوگ آج بھی بچیوں اور لڑکیوں کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کرتے ہیں
جیسے جہالت کے دور میں کیا جاتا تھا وہ نہ صرف خواتین بلکہ معصوم بچیوں کو
بھی اپنی حوس کا نشانہ بنانے سے دریغ نہیں کرتے ایک ایسا ہی واقعہ پنجاب کے
شہر قصور میں پیش آیا جس میں 7سالہ معصوم بچی زینب کو5جنوری 2018 کو اغواء
کر کے ذیاتی کا نشانہ بنایا گیا اور پھر قتل کر کے پھینک دیا گیا پنجاب میں
سانحہ قصور کے منظر عام پر آنے کے بعد بھی یہ معاملہ تھم نہ سکا اور ملک کے
دیگر صوبوں اور علاقوں میں اس قسم کے واقعات مسلسل رو نما ہو رہے ہیں جبکہ
مقامی انتظامیہ کی جانب سے سانحہ قصور کو دبانے کی بھرپور کوشش کی گئی جس
کے لئے جوڈیشنل کمیٹی بھی بنائی گئی جس میں یہ بتایا گیا کہ 2015 میں 300سے
زائد بچوں کو زیاتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اس تحقیقاتی کمیٹی نے یہ بتایا
کہ ایسے واقعات میں آج تک ایک بھی ملزم کو سزا نہیں ملی اورنہ ہی ایسے ہی
دیگر واقعات ہوئے ہیں جبکہ ملک بھر میں ایسے واقعات ہونا معمول بنتے جا رہے
ہیں جس میں اب تک لاتعداد بچوں کو جنسی ذیاتی کا نشانہ بنا کر قتل کیا جاتا
رہا ہے ان ملزمان کو جو ایسے واقعات میں ملوث ہوتے ہیں انہیں با اثر افراد
کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ کسی بھی قسم کی سزا سے بچ جاتے
ہیں زینب کے واقع سے قبل بھی گجرات کے علاقے کنجاہ میں درجنوں کمسن طالبات
کو جنسی زیاتی کا نشانہ بنایا گیا یہ پنجاب کی گڈ گورننس کا اعجاز ہے کہ
قصور واقع میں ملوث با اثر افراد کا نام سامنے ہی نہیں آ یا اور اب تک مر
کزی ملزم بھی گرفتار نہیں ہو سکا اور اگر اس قسم کے واقعات میں کوئی ملزم
گرفتار ہو بھی جائے تو اسے کچھ دن بعد بری کر دیا جاتا ہے زینب زیاتی کیس
اور قصور میں ہونے والے دیگر واقعات میں ذیاتی کا نشانہ بنے والے دیگر بچوں
کے والدین چیف جسٹس آف پاکستان سے سوموٹو ایکشن کے منتظر ہیں کیونکہ جب تک
ایسے واقعات پر چیف جسٹس آف پاکستان نوٹس نہیں لیتے تب تک ایسے واقعات کے
اصل ملزمان کو سزائیں نہیں دی جا سکتیں اور ایسے واقعات میں نہ کمی ہو سکتی
ہے اور نہ ان کو روکا جا سکتا ہے جب تک ان کیسز میں ملوث افراد کو سرے عام
پھانسی نہ دی جائے اور ان کے سہولت کاروں کو بھی سخت ترین سزائیں نہ ملیں
|